کچھ دن پہلے فیصل آباد کے چلڈرن ہسپتال کی ایک لیڈی گارڈ اور ڈینٹل شعبے کے ڈاکٹر سے متعلق خبر چلی۔ بہت سے لوگوں نے اس میں مجھے ٹیگ کیا (جیسے ان کی سیٹنگ میں نے ہی کروائی ہو)۔ کام والی جگہ پر جنسی تعلقات ایک پیچیدہ موضوع ہے۔ اب ہم اس وقت کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں جب لوگوں کو کہا جاتا تھا کہ نکاح کے علاوہ جنسی تعلق بری بات ہوتی ہے اور لوگ مان جاتے تھے۔ اس وقت یونیورسٹیوں سے لے کر ورک پلیس تک جہاں عورت مرد اکٹھے ہیں وہاں یہ کام زور و شور سے جاری ہے۔
گوروں نے جنسی تعلق اگر کھلا چھوڑا ہے تو پروفیشنل ازم قائم رکھنے کے لیے بندوبست بھی کر رکھے ہیں۔ مثلاً یونیورسٹیوں یا تعلیمی اداروں کے طلبا اگر جنسی تعلق رکھتے ہیں تو اپنے وقت پر رکھتے ہیں، تعلیم کے وقت پر تعلیم ہی ہو رہی ہوتی ہے اور جو ہوتا ہے اپنے پیسوں (سٹوڈنٹ لون) پر ہو رہا ہوتا ہے۔ اسی طرز پر وہاں ورک پلیس پر اکٹھے کام کرنے والے لوگوں کے تعلق قائم کرنے کی شدید حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اگر تعلق بنانا ہو تو وہ کہتے ہیں کہ ورک پلیس کے باہر کرو جو کرنا ہے۔ کیونکہ اگر ورک پلیس ڈیٹنگ اور مزے لینے کی جگہ بنی رہے گی تو کام اور پروڈکٹیویٹی سب وڑ جائے گا۔
وطن عزیز کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں مغرب سے صرف گند آتا ہے اس کے ساتھ لگی ہوئی مثبت باتیں امپورٹ نہیں ہو پاتیں۔ الغرض جنسیت تو یہاں پہنچ چکی ہے لیکن ساتھ لگا ہوا پروفیشنل ازم ابھی ایک دو صدیوں بعد پہنچے گا۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے لیے مختص جس ٹائم کی والدین فیسیں ادا کرتے ہیں اس میں وہاں ان کے بچے طوطا مینا کر رہے ہوتے ہیں۔ کلاس میں لیکچر چل رہا ہوتا ہے باہر گراونڈ میں فلمیں چل رہی ہوتی ہے۔
اس سے ایک درجہ اوپر کی خوبصورتی سرکاری اداروں خصوصاً ہسپتالوں میں ملتی ہے۔ (یہ باتیں میں مختلف اضلاع کے چھوٹے بڑے درمیانے سائز کے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے کے بعد ذاتی مشاہدے سے لکھ رہا ہوں) سارے ملک کے عوام سے ٹیکس اکٹھا کر کے جس ٹائم کی تنخواہ عملے کو مل رہی ہوتی ہے اس ٹائم کو عملے کے بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ انجوائے کرنے میں گزار رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی سروے کروایا جائے تو پتا چلے گا کہ زنا سرکاری ہسپتالوں میں تقریباً یونیورسٹی/کالج لیول کا چل رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لمبے اوقات (بشمول راتیں شامیں) تک مرد عورت کو اکٹھا رکھ کے ایک مخدوش اخلاقی سطح والے سماج میں آپ اس کے علاوہ کچھ اور توقع رکھ نہیں سکتے۔ پروفیشنل ازم کا تقاضا تو یہ ہے کہ جسے جو کرنا ہے وہ سرکاری بلڈنگ اور وقت کے علاوہ کر لے، لیکن وہ ممکن نہیں کیونکہ باہر “جگہ” کا مسئلہ ہے۔ اور ویسے بھی اصل لطف تو اسی وقت طوطا مینا کا آتا ہے جس وقت کی آپ کو تنخواہ بھی ملنی ہو!!
تو جناب ہوتا یہ ہے کہ جہاں نہ اخلاقی/مذہبی تربیت روکنے کو موجود ہو اور نہ کوئی پروفیشنل معیارات، وہاں یہ ایک آدھ قصہ منظر عام پر آنا اور سینکڑوں اندر کھاتے چلتے رہنا عام بات ہے۔ ہسپتالوں میں کانسینٹ/بالرضا حرامزدگی کے اتنے مواقع ہیں کہ زبردستی کرنے کی ضرورت شاید ہی پیش آتی ہے۔ 98% کام آپسی رضامندی سے ہوتے ہیں، بعد ازاں کسی ایک فریق کا کوئی مطالبہ پورا نہ ہونے پر جھگڑا ہوتا ہے اور فوٹیج اور میسج لیک ہو جاتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور جان لیں کہ ٹھرکی حضرات اپنی منزل کی جانب بڑھتے ہوئے راستے میں بہت ساری خواتین پر ٹرائی کرتے ہیں اور یہ معاملہ ہراسمنٹ کی حدود کو بھی اکثر پہنچ سکتا ہے۔ میں نے اپنی ٹریننگ کے دوران رجسٹرار کے فرائض انجام دے رکھے ہیں۔ مجھ پر ایک خاتون نے جنسی ہراسمنٹ کا الزام اس لیے لگا دیا تھا کہ میں نے اسے اپنی ڈیوٹی پر آنے کا کہا تھا جبکہ اُس وقت وہ ڈیٹ پر تھی۔ میں ایک مہینہ ایڈمن کے چکر کاٹ کے اپنی بےگناہی کے ثبوت دیتا رہا تھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اخلاقی گراوٹ کی نیچ سطح کا ٹھیک ادراک کریں۔ اپنے یہاں پروفیشنل ازم کے عدم وجود کا اقرار کریں۔ پھر ان واقعات کو ایک معمول کی بات تسلیم کریں۔ جن خواتین کو دلچسپی نہیں انہیں ٹھرکی مردوں کی ٹرائیوں سے بچانے کے لیے نصاب میں کورسز اور کام کی جگہ پر ورک شاپس کا بندوبست کریں۔ اور جس حساب سے واقعات کی شرح ہے اس کے مطابق ایک طریقہ کار وضع کریں کہ جب کسی پر الزام لگے تو اس کی تحقیق اور اس کے ذمہ داران کا تعین کیسے ہونا چاہیے۔ اس سب کو باقاعدہ لکھ کر ایک ایک کاپی ہر ہسپتال اور تعلیمی ادارے کے مین گیٹ پر بھی لٹکائیں۔ کیونکہ یہ دو جگہیں اس وقت زنا کی فیکٹریاں ہیں ملک میں۔
تبصرہ لکھیے