ہوم << سید ابوالاعلی مودودیٌ کا بچپن - عبیداللہ کیہر

سید ابوالاعلی مودودیٌ کا بچپن - عبیداللہ کیہر

میرا بچپن ریاست حیدرآباد دکن کے مشہور شہر اورنگ آباد میں گزرا ہے۔ میرا خاندان تو دہلی کا تھا لیکن میرے والد مرحوم دہلی سے اورنگ آباد چلے گئے تھے، اس وجہ سے میری زندگی کے ابتدائی تیرہ چودہ سال اورنگ آباد ہی میں بسر ہوئے۔ جو لوگ ایک ہی جگہ پل کر جوان ہوئے ہیں اور ساری عمر اپنے پیدائشی وطن ہی میں رہے ہیں وہ اس بات کا پورا اندازہ نہیں کر سکتے کہ آدمی کو اس جگہ سے کتنی گہری محبت ہوتی ہے جہاں اس کا بچپن گزرا ہو۔ تیرہ چودہ سال کی عمر تک میں وہیں رہا۔ پھر میرا یہ پیدائشی وطن مجھ سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ گیا۔ برسوں کے بعد جب جوانی کی عمر میں ایک دفعہ مجھے پھر اورنگ آباد جانے کا اتفاق ہوا تو میرے اوپر عجیب کیفیت گزری۔ جوں جوں شہر قریب آتا جاتا تھا میری بے چینی بڑھتی جاتی تھی۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ ریل بہت سست چل رہی ہے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ریل پر سے کود جاؤں اور بھاگ کہ شہر میں جا پہنچوں۔ بچپن کی دیکھی ہوئی ہر ایک چیز کو میں پہچاننے کی کوشش کرتا تھا اور میرا دل بے اختیار کھنچنے لگتا تھا ۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ آدمی کو اُس جگہ سے کتنی محبت ہوتی ہے جہاں اس کا بچپن گزرا ہو۔ ایک عجیب بات جو میں نے وہاں جا کر محسوس کی وہ یہ تھی کہ بچپن کی دیکھی ہوئی اب کوئی چیز بھی اتنی بڑی نہیں رہی تھی جتنی چند سال پہلے تھی۔ سڑکیں، بازار، گلیاں، عمارتیں سب پہلے سے چھوٹی اور تنگ تنگ سی ہو گئی تھیں ۔ میں جن گھروں میں پہلے رہا تھا یا اکثر جایا کرتا تھا وہ بھی پہلےبڑے بڑے تھے اور اب سکڑ کر بالکل چھوٹے چھوٹے ہو گئے تھے۔ میں حیران تھا کہ جس چیز کو بھی اپنی یاد کے نقشے سے ملا کر دیکھتا ہوں وہ ہے تو اپنی جگہ ہی مگر پہلے سے چھوٹی ہو کر رہ گئی ہے۔ آخر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ سارا فرق جو مجھے محسوس ہو رہا ہے دراصل ان چیزوں میں نہیں ہوا بلکہ خود میرے اندر ہو گیا ہے ۔ جب تک میں بچہ تھا میری نگاہ چھوٹی تھی اور چیزیں بڑی نظر آتی تھیں۔ جب میں بڑا ہو گیا اور میری نگاہ بھی بڑی ہو گئی اور اسی لحاظ سے چیزیں چھوٹی نظر آنے لگیں۔

مجھے اپنی بہت چھوٹی عمر کی باتیں ابھی تک یاد ہیں۔ مجھے اپنی وہ حیرت اب تک یاد ہے جو پہلی مرتبہ یہ سن کر ہوئی تھی کہ ابا کے ابا کو دادا اور ابا کی اماں کو دادی کہتے ہیں۔ میرا دل یہ یقین کرنے کو کسی طرح تیار نہ تھا کہ ابا بھی کسی کے بیٹے ہو سکتے ہیں۔ اور نہ میں یہ تصور کر سکتا تھا کہ میرے والد بھی کبھی میری طرح بچے ہوں گے۔ اس نئی معلومات پر میں بہت دنوں تک غور کرتا رہا اور یہ بات بڑی تحقیقات کے بعد میری سمجھ میں آئی کہ جتنے لوگ اب بڑے بوڑھے ہیں یہ سب کبھی بچے تھے اور ان کے بھی کوئی ماں باپ تھے۔ اس سے بھی زیادہ چھوٹی عمر کا ایک اور خیال مجھے اب تک یاد ہے۔ میں ابا اور اماں کے کوئی معنی نہیں جانتا ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور میں ان کے پاس کیسے آگیا ہوں؟ ۔۔۔ البتہ میں یہ ضرور محسوس کرتا تھا کہ یہ ہیں بڑے اچھے لوگ۔ اپنے والد کو دنیا کا سب سے اچھا آدمی او اپنی والدہ کو سب سے اچھی عورت سمجھتا تھا۔ مجھے سب سے زیادہ لطف اس وقت آتا تھا جب میں بیمار ہو جاتا یا مجھے کوئی چوٹ لگ جاتی تھی اور میرے والدین میرے لیے پریشان ہوتے تھے۔ اسی لطف کی خاطر میں کبھی کبھی جان بوجھ کر بھی اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتا تھا۔ اس وقت جو بے چینی میری والدہ اور والد کے دل میں پیدا ہوتی تھی اس سے میرے دل کو یہ احساس ہوتا تھا کہ انہیں میری بہت فکر ہے۔ ان تجربات سے ماں اور باپ کے معنی میری سمجھ میں آئے اور مجھ کو یہ بھی معلوم ہوا کہ ماں باپ اور دوسرے لوگوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔

میں اپنے گھر میں سب سے چھوٹا تھا۔ میرے ایک بھائی مجھ سے تین چار سال بڑے تھے۔ مجھے کھانے کی جو چیز ملتی تھی میں اسے فوراً کھا لیتا تھا مگر بھائی صاحب سنبھال کر کسی اچھے وقت پر کھانے کے لیے اُٹھا رکھتے تھے۔ اسی طرح جو پیسے مجھے ملتے تھے انہیں بھی فوراً خرچ کر ڈالتا تھا مگر بھائی صاحب انہیں جمع کرکے کبھی کوئی اچھی چیز خرید لاتے تھے۔ بس یہ میرے اور ان کے درمیان جھگڑے کی بنیاد تھی۔ میں ہمیشہ ان کے حصے میں سے اپنا حق وصول کرنے کی کوشش کرتا اور وہ ہمیشہ تھوڑی دیر تک مقابلہ کرنے کے بعد کچھ نہ کچھ میرے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتے۔

اول تو میں سمجھا کرتا تھا کہ اس طرح میں انہیں شکست دے کر مال غنیمت حاصل کرتا ہوں، مگر بعد میں مجھے معلوم ہو گیا کہ بڑے بھائی کو مجھ سے محبت ہے اور انہیں خود بھی اسی میں مزہ آتا ہے کہ میں اُن سے لڑ بھڑ کر اپنا حصہ وصول کر لیا کروں۔ اسی طرح میں والدین کے عطیوں میں سے 70 فیصدی کا مالک ہوتا تھا۔ 50 فیصدی اپنے حساب میں اور 25 فی صدی بڑے بھائی صاحب کے حساب میں سے۔ مشہور بات تو یہ ہے کہ ”سگ باش ، برادرِ خورد مباش“ یعنی چھوٹا بھائی ہونے سے کتا بننا بہتر ہے، مگر میرا تجربہ اس کے خلاف ہے۔

میرے والد مرحوم نے میری تربیت بڑے اچھے طریقے پر کی تھی۔ وہ دہلی کے شرفاء کی نہایت ستھری زبان بولتے تھے۔ انہوں نے ابتداء سے یہ خیال رکھا کہ میری زبان بگڑنے نہ پائے۔ جب کبھی میری زبان پر کوئی غلط لفظ چڑھ جاتا یا کوئی بازاری لفظ میں سیکھ لیتا تو وہ مجھے ٹوک دیتے اور صحیح بولنے کی عادت ڈالتے۔ یہی وجہ ہے کہ دکن میں پرورش پانے کے باوجود میری زبان محفوظ رہی۔ بعد میں مجھ کو ہندوستان کے مختلف شہروں میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے۔ مگر بچپن میں جو زبان پختہ ہو چکی تھی اس پر کسی جگہ کی بولی کا اثر نہ پڑ سکا۔ وہ راتوں کو مجھے پیغمبروں کے قصے، تاریخِ اسلام اور تاریخِ ہندوستان کے واقعات اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ اُس کا مفید اثر میں آج تک محسوس کرتا ہوں۔ وہ میرے اخلاق کی درستی کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ انہوں نے مجھے ایسے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلنے دیا جن کی عادتیں بگڑی ہوئی ہوں۔ جب کبھی میں کوئی بری عادت سیکھتا تو بڑی کوشش سے اس کو چھڑاتے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے ایک ملازمہ کے بچے کو مارا تو انہوں نے اس بچے کو بلا کر کہا تو بھی اسے مار۔ اس سے مجھے ایسا سبق ملا کہ پھر میرا ہاتھ کسی زیردست پر تمام عمر نہیں اُٹھا۔ وہ مجھے زیادہ تر اپنے دوستوں کی صحبت میں لے جاتے تھے اور ان کے دوست سب کے سب سنجیدہ، شائستہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ اُن کی صحبتوں میں بیٹھنے کی وجہ سے میں مہذب عادات سیکھ گیا اور بڑی بڑی باتوں کو سمجھنے کے قابل ہو گیا۔ میری طبیعت میں جتنی شوخی تھی والدِ مرحوم کی اس تربیت کی وجہ ہے وہ شرارتوں اور دنگے فساد کی بجائے ظرافت کی شکل میں ڈھل گئی۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں مجھ سے بڑی عمر کے لوگ مجھ میں بہت دلچسپی لیا کرتے تھے کیونکہ میں شرارتیں کرنے کی بجائے بہت مزے مزے کی باتیں کیا کرتا تھا ۔

میرے والد مرحوم نے میری ابتدائی تعلیم کا انتظام گھر پہ کیا تھا۔ غالبا وہ میری زبان کی حفاظت اور مجھے بری صحبتوں سے بچانے کے لیے مدرسہ بھیجنا نہیں چاہتے تھے۔ گھر کی اس تعلیم میں مجھ کوبہت سے استادوں سے سابقہ پیش آیا۔ بعض استاد ایسے تھے جنہوں نے مجھے کند ذہن بنانے کی کوشش کی اور ان کے اثر سے مجھے خود اپنے اوپر ہی یہ شک ہونے لگا کہ شاید میں کچھ پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ بعض استادوں نے مجھے اس سے زیادہ پڑھانے کی کوشش کی جتنا میں اپنی عمر کے لحاظ سے پڑھ سکتا تھا۔ البتہ بعض استادوں نے مجھے بہت اچھی تعلیم دی اور مجھے جو کچھ حاصل ہوا وہ ان ہی کا فیض تھا۔ مجموعی طور پر اسے میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ گھر کی تعلیم میرے لیے مدرسے کی بہ نسبت زیادہ مفید ثابت ہوئی۔ پانچ چھ سال کی اس تعلیم میں مجھ کو اتنا علم حاصل ہو گیا کہ جتنا دوسرے بچوں کو آٹھ سال میں ہوتا ہے۔ بلکہ مجھ کو جب گیارہ سال کی عمر میں مدرسے کی آٹھویں جماعت میں داخل کیا گیا تو اکثر مضامین میں میری معلومات اپنے ہم جماعتوں سے زیادہ تھیں۔ حالانکہ میں اپنی آٹھویں کلاس میں سب سے چھوٹی عمر کا طالب علم تھا۔

میری ابتدائی تعلیم میں ایک خرابی ایسی تھی جس کو بعد میں میں نے بری طرح محسوس کیا۔ وہ خرابی یہ تھی کہ عام دستور کے مطابق پہلے بغدادی قاعدہ پڑھوا کر قرآن پڑھوا دیا گیا۔ یہ غلطی عام طور پر مسلمان اُس زمانے میں بھی کرتے تھے اور آج تک کئے جا رہے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ بچہ دنیا کی اور ساری چیزیں تو سمجھ کر پڑھتا ہے مگر صرف قرآن ہی کے متعلق وہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس اس کے الفاظ پڑھ لینے کافی ہیں۔

اس غلط طریقے کی وجہ سے مجھے بے سمجھے قرآن پڑھنے کی ایسی عادت پڑی کہ آگے چل کر جب میں نے عربی زبان پڑھ لی اس وقت بھی برسوں تک قرآن کو بغیر سمجھے ہی پڑھتا رہا۔ اکیس برس کی عمر میں مجھ کو پہلی مرتبہ اپنی اس غلطی کا احساس ہوا اور میں نے قرآن کو سمجھنے کی کوشش کی۔ میں چاہتا ہوں کہ اب مسلمان بچوں کو اس غلطی سے بچایا جائے اور انہیں قرآن اس وقت پڑھایا جائے جب وه کم از کم اتنی اردو پڑھ لیں کہ قرآن کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ پڑھ سکیں۔

اب میں تھوڑا سا حال اپنے مدرسے کا بیان کرتا ہوں۔ گیارہ برسں کی عمر میں جب مجھ کو ہائی اسکول کی آٹھویں جماعت میں داخل کیا گیا تو اس وقت مجھے پہلی مرتبہ اپنے ہم عمر لڑکوں سے میل جول کا موقع ملا۔ کیونکہ اس سے پہلے تک تو میں زیادہ تر بڑوں کی صحبت میں رہا کرتا تھا۔ مدر سے میں تھوڑے دنوں تک تو میں اجنبی رہا۔ پھر میں نے مدرسے کی اس شریف ٹولی سے دوستانہ تعلقات پیدا کر لیے جس میں سنجیدہ اور شوقین طالب علم شامل تھے۔ لیکن اس کے ساتھ میں نے محض اپنی ظرافت کے ذریعے سے شریر ٹولی کے دو تین سرغنوں کو بھی دوست بنا لیا تھا۔ میں ان کی شرارتوں میں تو شریک نہیں ہوتا تھا مگر مذاق اور لطیفہ گوئی کی وجہ سے میں نے ان کو رام کر لیا تھا۔ اس طرح میں شریف ٹولی کا دوست بھی رہا اور شریر ٹولی سے بھی تعلقات نہیں بگڑے۔ استادوں میں سے اکثر میرے اوپر بہت مہربان تھے۔ خصوصاً ایک استاد تو ایسے شفیق بن گئے کہ آج تک ان کے خاندان سے میرے تعلقات قائم ہیں اور ان کے صاحبزادے کو میں اپنے بھائی کی طرح عزیز رکھتا ہوں۔ مدرسے ہی میں مجھ کو پہلی مرتبہ مضامین لکھنے اور تقریری مباحثوں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ اس سے مجھ کو احساس ہوا کہ مجھ میں زبان اور قلم سے کام لینے کی کچھ صلاحیت ہے۔ مدرسے کی زندگی میں چند مہینے ہی گزارنے کے بعد مجھے اس سے اتنی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ چھٹی کا دن مجھ کو سخت ناگوار ہوتا تھا اور جب لمبی چھٹیاں آتی تھیں تو پہلے ہی سے ہم چند لڑکے آپس میں یہ پروگرام طے کر لیا کرتے تھے کہ روزانہ ایک جگہ جمع ہوا کریں گے، مطالعہ کیا کریں گے اور مل کر تفریح بھی کریں گے۔

کھیل سے مجھے ابتدائی عمر میں بہت کم دل چسپی تھی۔ جب کچھ ہوش سنبھالا تو بِنّوٹ کے فن سے کچھ دلچسپی پیدا ہو گئی۔ میری والدہ صاحبہ کے خاندان میں یہ فن بہت مقبول تھا۔ خصوصاً میرے ماموں اس کے بہت ماہر تھے۔ میں نے اپنے خالہ زاد بھائیوں سے یہ فن سیکھا اور کچھ مدت تک میں یہی میرا کھیل رہا۔ مدر سے میں داخل ہونے کے بعد مجھے فٹ بال اور کرکٹ سے بھی دلچسپی پیدا ہوئی مگر میں صرف تفریح کے لیے اس میں شریک ہوتا تھا۔

میرا بچپن : سید ابولاعلیٰ مودودیؒ
انٹرویو 1970ء
تلاش و کتابت : عبیداللہ کیہر

Comments

Avatar photo

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment