جن لوگوں کا وحی و رسالت پر ایمان نہ ہو، جو خدا کے وجود کے منکر ہوں، جو آخرت کے بغیر دنیا کو سمجھنا چاہتے ہیں، ان کا معاملہ دوسرا ہے، لیکن جو لوگ خدا، رسول اور آخرت کو ماننے والے ہوں، ان کےلیے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ اصل اور حتمی عدل تو آخرت میں ہوگا اور دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے، بظاہر اچھا یا برا، نعمت یا مصیبت، سب کچھ اصل میں آزمائش کےلیے ہورہا ہے، ان کےلیے بھی جن کے ساتھ وہ اچھا یا برا ہوا اور ان کےلیے بھی جو انھیں دیکھ رہے ہیں۔
جو لوگ ”مکافاتِ عمل“ کی بات کرتے ہیں، ان میں کئی ایسے ہیں جو ہندوؤں کے "کرما" کے تصور اور بھارتی فلموں سے متاثر ہیں، ورنہ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دنیا مکافاتِ عمل کےلیے نہیں، امتحان کےلیے ہے۔ عمل کی جزا آخرت میں ملے گی۔ یہاں اگر اچھا ملتا ہے، تو بھی آزمائش ہے اور برا ملتا ہے تو بھی آزمائش ہے۔جس کے متعلق آپ کا خیال ہے کہ اسے مکافاتِ عمل کی وجہ سے سزا مل رہی ہے، یہ اس کےلیے بھی امتحان ہے اور آپ کےلیے بھی۔ کیا وہ اس سے سبق سیکھ کر اپنا طرزِ عمل درست کرلے گا؟ کیا آپ ہی اس سے سبق سیکھ لیں گے، یا تب سیکھیں گے جب آپ پر ہی ”مکافاتِ عمل“ کا کوڑا برسے؟
تاہم اس سے بڑا سانحہ کیا ہوسکتا ہے کہ اسلامی علوم کے ماہرین اگر آگے بڑھ کر یہ سوال اٹھائیں کہ غزہ کی سزا ان کو کیوں نہیں مل رہی جو غزہ میں ظلم کے ذمہ دار ہیں اور ”بے گناہ“ امریکی کیوں اس کا شکار ہورہے ہیں؟ بھئی، جب آل فرعون پر خشک سالی اور قحط کا، اور پھر طوفان، ٹڈی دَل، جوؤں، مینڈکوں اور خون کے عذاب آئے، تو کیا اس کی لپیٹ میں صرف فرعون اور اس کے درباری آئے یا ”عام آل فرعون“ بھی؟ بلکہ فرعون تو نسبتاً محفوظ ہی رہا تھا اور عام لوگ ہی زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ ایسا کیوں ہوا تھا؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دینی لحاظ سے اس میں بہت سی حکمتیں مل سکتی ہیں۔ مثلاً فرعون کی سرکشی اور حماقت میں اضافہ ہی ہوتا گیا تا آں کہ وہ لاؤ لشکر سمیت دریا میں کود گیا اور غرق ہوگیا، تب کہیں جا کر پکار اٹھا کہ میں رب العالمین پر، جو بنی اسرائیل کا رب ہے، ایمان لایا۔ سرکشوں کی سرکشی میں اضافہ دیکھنا ہو، تو سوشل میڈیا پر ہی اول فول بکنے والے دیکھ لیں۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ ظالم لوگ کہنے لگتے ہیں: ایسا تو ہوتا آیا ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے، کبھی بہار، کبھی خزاں، کبھی سردی، کبھی گرمی، کبھی آگ، کبھی برفباری، اور جب وہ بالکل ہی غافل ہوجائیں اور پیمانہ لبریز ہوجائے تو اچانک ہی وہ آخری گھڑی آجاتی ہے جب انھیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ پھر کیا ایسا بھی بارہا نہیں ہوا، اور ہر شخص اپنی زندگی کا جائزہ لے کر بھی دیکھ لے، کہ غلطی کرنے کے باوجود آپ بال بال بچ گئے ہوں، یا آپ پر اللہ نے پردہ ڈال دیا ہو، یا دھماکہ آپ کے گھر کے پاس ہی ہوا لیکن آپ محفوظ رہے ہوں؟ اور کیا کبھی آپ نے نہیں دیکھا کہ ظالم کے پیروں کے نیچے سے اچانک ہی زمین سرک جاتی ہے، یا اس پر چھت اچانک ہی دھڑام سے گر جاتی ہے؟ اب ہمیں کیا پتہ کہ کب کہاں اللہ نے کیا اور کیوں کیا؟ ہمیں تو اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔
انبیاء کا طریقہ تو یہ رہا ہے کہ دوسروں کے مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے خود احتسابی کرنے لگتے ہیں اور اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں، اور ان کی یہ ادا اللہ کو اتنی پسند آتی ہے کہ ہم پر بھی اس مقام پر سجدہ واجب کردیا جاتا ہے کہ ہم بھی خود احتسابی کے اس اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں۔ دوسری طرف ایسے بد بخت بھی ہوتے ہیں جو مصیبت سے نکلنے پر کہتے ہیں کہ ہم نے کتنی اچھی پلاننگ کی تھی، ہم نے انشورنس کی تھی، ہمارا تو بجٹ ہی اتنے ٹریلین ڈالر ہے، وغیرہ وغیرہ۔
فَإِذَا مَسَّ ٱلۡإِنسَٰنَ ضُرّٞ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلۡنَٰهُ نِعۡمَةٗ مِّنَّا قَالَ إِنَّمَآ أُوتِيتُهُۥ عَلَىٰ عِلۡمِۢۚ بَلۡ هِيَ فِتۡنَةٞ وَلَٰكِنَّ أَكۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُونَ قَدۡ قَالَهَا ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِهِمۡ فَمَآ أَغۡنَىٰ عَنۡهُم مَّا كَانُواْ يَكۡسِبُونَ فَأَصَابَهُمۡ سَئَِّاتُ مَا كَسَبُواْۚ وَٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنۡ هَٰٓؤُلَآءِ سَيُصِيبُهُمۡ سَئَِّاتُ مَا كَسَبُواْ وَمَا هُم بِمُعۡجِزِينَ أَوَ لَمۡ يَعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ يَبۡسُطُ ٱلرِّزۡقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقۡدِرُۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَأٓيَٰتٖ لِّقَوۡمٖ يُؤۡمِنُونَ (سورۃ الزمر، آیات 49-52)
”یہی انسان جب ذرا سی مصیبت اِسے چھو جاتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، اور جب ہم اسے اپنی طرف سے کسی نعمت سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے علم کی بنا پر دیا گیا ہے! نہیں، بلکہ یہ آزمائش ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ یہی بات ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی کہہ چکے ہیں، مگر جو کچھ وہ کماتے تھے وہ ان کے کسی کام نہ آیا۔ پھر اپنی کمائی کے برے نتائج انہوں نے بھگتے، اور اِن لوگوں میں سے بھی جو ظالم ہیں وہ عنقریب اپنی کمائی کے برے نتائج بھگتیں گے، یہ ہمیں عاجز کر دینے والے نہیں ہیں۔ اور کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے؟ اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔“
تبصرہ لکھیے