ہوم << عربی شاعری اور رفعتِ شانِ رفعنا لک ذکرک - ابوالحسین آزاد

عربی شاعری اور رفعتِ شانِ رفعنا لک ذکرک - ابوالحسین آزاد

ان دنوں ابو العلاء معری کا دیوان میرے زیرِ مطالعہ ہے۔ ایک قصیدے میں ضمنا یثرب کا ذکر آیا تو طالبِ علمی کے زمانے کا ایک سوال ذہن میں تازہ ہو گیا۔ ہم متنبی کا دیوان پڑھتے تھے اور دیکھتے کہ متنبی دنیا جہان کے بادشاہوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا ہے، مدح و تمجید میں متنبی نے وہ مقام حاصل کیا کہ اُس کے قصائد ہمیشہ کے لیے عربی ادب کا سب سے بڑا فخر بن گئے، اب اس حکایت کو مزید کیا دراز کیا جائے بس یہی کہہ دینا کافی ہے کہ امام ابنِ تیمیہ سجدے میں یہ اشعار پڑھا کرتے تھے:
یا من ألوذ به فيما أؤمله
ومن أعوذ به مما أحاذره
ومن توهمت أن البحر راحته
جودا وأن عطاياه جواهره

متنبی کے یہ اشعار جنھیں امام ابن تیمیہ کے علاوہ کئی صوفیاء نے بھی خدا کے حضور مناجات میں برتا ہے دراصل ایک بادشاہ کی تعریف میں لکھے گئے۔
خیر، متنبی کے دیوان کو پڑھتے ہوئے سوال ذہن میں یہ آتا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ متنبی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں کوئی ایک قصیدہ ایک شعر بھی نہیں لکھا۔ پھر بعد میں جائزہ لیا تو پتا چلا کہ ایک متنبی پہ کیا موقوف عربی ادب کی پوری پانچ چھے صدیوں کا یہی قصہ ہے۔ جریر، فرزدق، ابو تمام، بشار بن برد، ابو نواس، ابن الرومی بحتری، ابو فراس اور ابو العلاء معری تک عربی شاعری کے اساطین کے پورے پورے دیوان نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدح سے مکمل طور پر خالی ہیں۔ اگر کسی کے ہاں مدح موجود بھی ہے جیسے دعبل خزاعی یا کمیت وغیرہ تو وہ بھی دراصل اُن کے معاصر ائمۂ اہلِ بیت کے تذکرے کے ضمن میں ہے۔جیسے فرزدق امام زین العابدین کی مدح میں کہتا ہے: وبجده أنبياء الله قد ختموا، یا کہیں ضمنی تذکرہ ہے جیسے جریر خلیفہ کی مدح میں کہتا ہے: إن الذي بعث الرسول محمدا، جعل الخلافة في الإمام العادل، یا ابن الرومی ابو صقر کی مدح کے ضمن میں کہہ جاتا ہے: وكم أب قد علا بابن ذرى شرف، كما علت برسول الله عدنان، لیکن مستقل طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں کوئی قصیدہ کسی شاعر کے ہاں موجود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پورے چھے سو سال کے بعد امام بوصیری آتے ہیں اور باضابطہ طور پر نعت کی روایت کا آغاز کرتے ہیں۔

اموی و عباسی عہد کے شعرا کے ہاں نعت کے فقدان کی توجیہ میں ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ نعت روزِ اول سے موجود ہی نہیں تھی۔ہمیں معلقات کے شاعر اعشی کے ہاں نبی کریم صلی اللہ کی مدح میں پورا قصیدہ مل جاتا ہے۔ حسان بن ثابت کے قصائد تو بچے بچے کی زبان پر ہیں، عبد اللہ بن رواحہ کی شاعری ہے اور سب سے بڑھ کر کعب بن زہیر کا بانت سعاد۔۔ جیسا ابدی نعتیہ قصیدہ موجود ہے۔ لیکن مدح رسول کی یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کہے گئے قصائد اور وصال کے چند مرثیوں پہ جا کر تمام ہو جاتی ہے، اس کے بعد پوری چھے صدیاں شاعری میں مدحِ پیغمبر سے (الا ما شاء اللہ، امام شافعی کا شاید کچھ استثناء ہے۔) خالی ہیں۔ جب کہ یہ وہ صدیاں ہیں جن میں آپؐ کے ایک ایک قول ، ایک ایک فعل اور زندگی کے ایک ایک لمحے پہ پوری پوری لائبریریاں تصنیف ہوئیں، اس پوری تہذیب کا ایک ایک فرد اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھا کہ ”ہمیں خدا نے محمدؐ کے لائے ہوئے دین سے عزت دی۔“ پھر ایسا بھی نہیں کہ اس عہد کی عربی شاعری اسلامی قدروں سے خالی تھی، ہرگز نہیں، وہ ابو نواس جیسے رند ہوں، متنبی جیسے سرکش، معری جیسے متشکک، یا پھر ابو العتاہیہ جیسے صوفی و زاہد سب کے دیوان اسلامی قدروں، اسلامی تعلیمات، کتاب اللہ کی تلمیحات، پیغمبروں کی حکایات اور احادیث و آثار کے حوالے اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ البتہ نعت سے عاری ہیں سوائے اس کے کہ ابو العتاہیہ کے کچھ قصائد میں نعتیہ اشعار ہیں۔

فی الحال اس موضوع پہ مفصل کلام کی ضرورت باقی ہے۔ تاہم ابتدائی طور پر اس کی کچھ توجیہات پیش کی جا سکتی ہیں۔ بات کو سمجھنے کے لیے اگر اردو شاعری ہی سے ایک مثال پکڑیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اردو کے شعراء محبوب اور غم ہائے روزگار کے موضوع پر ہزاروں شعر لکھ جاتے ہیں لیکن شاید ہی مرثیے کے علاوہ کبھی اپنے والد یا والدہ کا تذکرہ کیا ہو؟ اس سے یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ انھیں والد یا والدہ سے محبت نہیں ہے بلکہ یہی کہا جائے گا کہ ایسی شعری روایت موجود نہیں۔ والد والدہ کی محبت ایسی فطری، اٹل اور غیر محسوس سی ہے کہ اس پہ کچھ کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ جب کہ بقیہ محبتیں نئے تجربے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح تہذیبی عظمت اور غلبے کے دور میں مسلم شعور کا طائر رسالت کے آسمان میں فطری اور غیر محسوس انداز میں موجود تھا۔ نیز عربی شاعری میں ایک طویل عرصے تک مدح و ثنا موضوع ایسی شخصیات رہیں جو آنکھوں کے سامنے موجود ہوں۔ خاص طور پر بادشاہ، سلاطین، جنگجو اور ائمہ و علماء ۔ ماضی کے ہیروز کی مدح کرنے کی روایت پیدا نہ ہو سکی۔اعشیٰ، حسان اور کعب کے نعتیہ قصائد سامنے موجود شخصیت کی مدح کی روایت ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔جسے احمد حسن زیات نے ”عصبیت کی بنیاد پر داعیِ اعظم کی ثنا“ سے تعبیر کیا ہے۔

اگرچہ عربی روایت میں ایک سے ایک باغی اور ”بدعتی“ آیا، ابو نواس آیا جس نے کھنڈروں پہ رونے جیسی عتیق روایت تک کا مذاق اڑایا، نئی روایتوں کی بنیاد ڈالی حتی کہ اپنی رندی کے علی الرغم زہد کے باب میں ایسے اشعار کہے کہ ثعلب نے امام احمد بن حنبل کو سنائے تو ان پہ گریہ طاری ہو گیا لیکن نعت کی روایت کا آغاز اس کے مقدر میں نہیں تھا۔ شاعری میں نعت کے موضوع کے ظہور کو خاص طرح کے المیے درکار تھے۔ ایسے المیے جوامت اور دین کی سطح پہ متاثر کن ہوں۔ پہلی چھے صدیاں تہذیبی عظمت اور غلبے کی صدیاں تھیں جن میں ایسے المیے پیدا نہیں ہوئے جو شاعر کو دینی اور تہذیبی شکست کے احساس سے دو چار کریں۔ ساتویں صدی ہجری میں جب صلیبی حملوں اور دیگر حوادث کی شکل میں ان المیوں کا ظہور ہوا تو شعری شعور کو ملی، دینی اور تہذیبی روح کے گھائل ہونے کا احساس ہوا۔ جس پر پہلی مرتبہ شعر اپنے زخم لے کر طبیبِ اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا:
نعمْ سرى طيفُ من أهوى فأرقني
والحُبُّ يَعْتَرِضُ اللَّذاتِ بالأَلَمِ

(ہاں، رات کو محبوب کا خیال آیا تو میری آنکھوں سے نیند اڑ گئی۔ محبت کا معاملہ ایسا ہی ہے، یہ لذتوں کو درد میں بدل دیتی ہے۔)
بوصیری کی اس بیداری سے شاعری کی ایک نئی کائنات بیدار ہو گئی۔ مولای صل و سلم سے لے کر احمد شوقی کی ولد الھدی فالکائنات ضیاء اور مابعد تک پورے پورے دیوان بھر گئے اور اب چشمِ ہائے اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھتی ہی چلی جائیں گی۔

Comments

Avatar photo

ابوالحسین آزاد

ابو الحسین آزاد عربی اور اردو ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ ہمہ جہت وسعت مطالعہ اور منفرد اسلوب تحریر کی وجہ سے علمی حلقوں میں جانے جاتے ہیں۔ کالج میں علوم اسلامیہ کی تدریس سے وابستگی ہے، ایم فل کے طالب علم ہیں۔ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل ہیں۔

Click here to post a comment