ہمیں ڈاکٹر نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ بیٹی ہے۔ بیوی نے مجھے بتایا اور میں نے خدا سے اپنی دعا کے پورا ہونے پر شکر ادا کیا۔
لیبر روم میں میری بیوی اپنی بڑی بہن کے ساتھ تھی۔ پاکستان میں عام طور پر شوہر ساتھ نہیں ہوتے۔ اجازت ہوتی بھی تو شائد میں نہ جا پاتا ۔ ۔ کہ میں تو باہر بیٹھا بھی خدا کی اس قدرت پر عورت کی عظمت کا قائل ہو رہا تھا کہ جس تکلیف سے گزر کر وہ ایک زندگی کو اس دنیا میں لاتی ہے۔ ۔
میرا دوست خان اپنے سارے کام چھوڑ کر میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ اور مجھے تسلی دے رہا تھا۔ یہ وہی دوست تھا جس نے میری بیگم کو پریگننسی میں چلتے دیکھ کر میرے کان میں کہا تھا، تمہارا بیٹا ہوگا ۔ ۔ میں چال دیکھ کر بتا دیتا ہوں۔ ۔ مجھے تب بھی پتہ تھا کہ بیٹی ہے، میں دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا اس کے اندازوں پر۔ ۔ ۔ اس خان دوست کی اپنی تین بیٹیاں تھیں، اور وہ ان پر جان چھڑکتا تھا۔
کچھ دیر بعد میری سالی لیبر روم سے ملحقہ کمرے سے باہر آئی اور مجھے اشارے سے بلایا۔ اس کمرے میں صرف بچہ (یعنی میری بیٹی) تھا، زچہ (یعنی میری بیوی) ابھی لیبر روم میں تھی۔ میں نے اپنی بیٹی کی پہلی جھلک دیکھی۔ وہ جھلک شائد میری آنکھوں میں اس زندگی کے آخری منظر کے طور پر محفوظ ہو گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے آخری لمحات میں میرے سامنے وہی منظر ہوگا۔
اتنا بڑا گول غبارہ چہرہ ۔ ۔ اور اس چہرے پر شدید غصے کے آثار ۔ ۔ جیسے کسی نے کسی سوتی ہوئی ملکہ کو کچی نیند سے جگا دیا ہو۔ ۔ یہ میری بیٹی تھی ۔ ۔ آج بھی وہ نیند سے جاگے تو میں اس چہرے کی ہلکی سی جھلک محسوس کرتا ہوں۔
بعد میں بیوی نے مجھے بتایا کہ لیبر روم میں نرسوں نے مجھے بیٹی کو دیکھنے کے لیے کہا لیکن میں نے انکار کر دیا کہ میں اپنے خاوند کے ساتھ دیکھوں گی۔ آج تک بیوی کے ساتھ اعتراف نہیں کر سکا، لیکن اس کے اس جملے سے مجھے آج تک پشیمانی ہوتی ہے کہ کاش ہم دونوں ساتھ میں اس کو دیکھتے ۔ ۔ لیکن شائد ایکسائٹمنٹ میں میں بھول گیا تھا ۔ ۔
اگلے چھ روز عقیقے تک میں اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھتا رہتا ۔ ۔ دیکھتا رہتا ۔ ۔ کبھی کبھی وہ نیند میں مسکرا دیتی ۔ ۔ تو میں کیمرہ لے کر کھڑا ہو جاتا ۔ ۔ پہلے چند روز اس کی آنکھیں پیلی ہو گئیں، ۔۔ کسی نے بتایا کہ صبح کی سورج کی پہلی کرن اس کے لیے اچھی ہوتی ہے۔ میں روزانہ صبح کی پہلی کرن کبھی مس نہ کرتا ۔ ۔ جب تک اس کی آنکھیں پھر سے نارمل نہیں ہو گئیں۔
تین ہفتے بعد میں بیگم اور بیٹی کو لے کر سعودیہ واپس اپنی جاب پر چلا گیا۔ وہاں انکے لیے گھر پہلے سے لے رکھا تھا۔ جہاں سوتے میں میں ہڑبڑا کر اٹھتا اور اپنی بیٹی کے اوپر دونوں بازو پھیلا دیتا ۔ ۔ کہ خواب میں کوئی چیز اس پر نہ گرنے پائے ۔ ۔ بیوی ہنستی ۔ ۔ کہ میری نیند اسکی نیند سے بھی کچی ہو گئی تھی۔
زرا بڑی ہونے پر بیگم بیٹی کو جہاں بھی سلاتی، صبح وہ میرے پاؤں کی طرف سوئی ہوئی ملتی۔
ابھی بولنا نہیں آیا تھا۔ کچھ لفظ بول لیتی تھی۔ لیکن بابا ماما ان چند پہلے لفظوں میں تھے جو اس نے بولنے سیکھے۔ اس کے بعد جو لفظ سیکھا وہ پیپسی تھا۔ جہاں کہیں شاپ پر پیپسی کا فریج دیکھتی، وہیں سے بتاتی بابا پیپسی ۔ ۔ ہم کھانے کے بعد اس سے چھپا کر پیپسی کا ٹن کھولتے ۔ ۔ تو ٹن کھولنے کی آواز "ٹھس س س" آتی تو اس کی گردن گھوم جاتی ۔ ۔ فورا ڈھونڈنے لگ جاتی ۔
ایک بار اسکی ماما نے میرے ساتھ کچھ اونچی آواز میں بات کی۔ اس نے ایک ڈیڑھ گھنٹے تک اپنی زبان میں اس سے خوب لڑائی کی۔ ہر تھوڑی دیر بعد درمیان میں لفظ بابا سمجھ آتا، باقی سب انتہائی جذبات میں لڑتے ہوئے کچھ الفاظ تھے ۔ ۔
میری سن دو ہزار میں انٹرنیٹ پر ایک دوست بنی۔ جس کے بچے بڑے بڑے تھے۔ وہ کینیڈا میں رہتی تھی۔ اس نے مجھے کہا، محمود! ان لمحوں کو قید کر لو ۔ ۔ بچے بہت جلدی بڑے ہو جاتے ہیں۔
میں نے کہا، کہاں ۔ ۔ ابھی تو یہ چند ماہ کی ہے۔ میرے بازو پر بیٹھ کر جھولا جھول جاتی ہے۔ ابھی بہت وقت پڑا ہے۔
آنکھ سی جھپکی ۔ ۔ ۔ اور آج وہ یونیورسٹی کے آخری سال میں ہے۔
تبصرہ لکھیے