ہوم << "جب تک ہے زمین "؛ اردو افسانے میں نیا موڑ - الیاس کبیر

"جب تک ہے زمین "؛ اردو افسانے میں نیا موڑ - الیاس کبیر

کسی بھی تخلیقی سرگرمی میں اس وقت انفرادیت در آتی ہے جب اس میں روایت سے اکتساب کرتے ہوئے نیا لب و لہجہ اور کچھ نیا کہنے کا سلیقہ سامنے آئے۔ دیگر اصناف کی مانند افسانے میں بھی قریب قریب یہی صورت حال پیش نظر رکھی جاتی ہے ورنہ افسانہ محض واقعہ نگاری بن جاتا ہے اور غیر معمولی کہانیت کہیں بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔
ناصر عباس نیر نے افسانے کے فسوں کو اپنے غائر اور غیر معمولی مطالعے کی بدولت اپنے اندر جذب کیا اور تب کہیں جا کر افسانے کی تخلیقی فضا میں قدم رکھا۔ اسی لیے انھوں نے افسانوی دنیا میں متعدد تحیر آمیز متون پیش کیے ہیں۔ جن میں اردو افسانے کی روایتی فضا یکسر مختلف اور بے حد اثر انگیز دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے مکالمہ، پلاٹ، اسلوب، کرداروں کی پیش کاری میں بھی اپنے تفرد کو برقرار رکھا ہے۔ ان کے افسانے پہلی بار پڑھنے والے کو متعجب اور متحیر ضرور کرتے ہیں۔ کیوں کہ اردو افسانے کے قاری کی آنکھیں اور زبان ان افسانوں کی چاشنی سے آشنا نہیں ہوتی اور پہلی آشنائی کچھ سوالات کو بھی جنم دیتی ہے۔
‘‘جب تک ہے ز مین’’ ناصر عباس نیر کے افسانوں کا پانچواں مجموعہ ہے۔ اس مجموعے کا نام انھوں نے اپنے ایک اور محبوب شاعر میرا جی کی نظم ‘‘چل چلاو’’ کے اقتباس سے اخذ کیا ہے۔ اس سے قبل وہ مجید امجد کے شعری متن سے افسانوی مجموعے کا نام "ایک زمانہ ختم ہوا ہے" کے عنوان سے پیش کر چکے ہیں۔ شعری متون سے نثری استفادے کی بہرحال ایک معنویت ہے۔ زیر نظر مجموعے کا شعری عنوان میرا جی کے ذیلی اقتباس سے لیا گیا ہے:
جو بات ہو دل کی آنکھوں کی
تم اُس کو ہوس کیوں کہتے ہو
جتنی بھی جہاں ہو جلوہ گری اس سے دل کو گرمانے دو
جب تک ہے زمیں
جب تک ہے زماں
یہ حسن و نمائش جاری ہے
اس ایک جھلک کو چھچھلتی نظر سے دیکھ کے جی بھر لینے دو!
اس مجموعے میں گیار ہ افسانے اور سات خواب کہانیاں ہیں۔ ان افسانوں کی قرأت سے معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کے پاس موضوعات کی یکسانیت نہیں بلکہ تنوع ہے۔ اسلوب اور موضوع کی مانند ان افسانوں کے کرداروں میں بھی غیر معمولی نیا پن ہے۔ کرداروں کی نفسیاتی پیچیدگیاں، الجھنیں، سلجھنیں، خدشات، تحفظات، خوف اور وسوسے انسانی تجربے کی بدلتی کیفیات کو ظاہر کرتے ہیں۔ ناصر عباس نیر کے افسانوی کردار محض انسان نہیں بلکہ دوسری مخلوقات چرند، پرند اور نباتات بھی ہیں جو اُن کی ماحول دوستی پر استدلال قائم کرتے ہیں اور شاید اسی لیے اس افسانے کا عنوان بھی ماحولیات سے متعلق ہے۔ اس کائنات میں محض انسان کی اجارہ داری نہیں بلکہ دوسری مخلوقات کو بھی جینے کا پورا حق حاصل ہے۔ گویا بشر مرکزیت کو ردّ کیا گیا ہے۔

سوال قائم کرنا اور اُن کا تہہ در تہہ جواب دینا ناصر عباس نیر کا مخصوص اسلوب ہے جو اُن کی دیگر تحریروں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔‘‘ورغلایا ہوا آدمی’’ کا شعیب تین زبانوں پر دسترس رکھتا ہے: انگریزی، ہسپانوی اور جانگلی۔ وہ اوّل الذکر دونوں زبانوں کی نسبت جانگلی (جو اُس کی ماں بولی ہے) کو بھولتا جا رہا ہے۔‘‘مرکز کی زبان’’ انگریزی سے زیادہ قربت اور اپنی ماں بولی سے غیر محسوس انداز سے فاصلہ اختیار کرنا دراصل اُس مغائرت کی بدولت ہے جو کالونیل قہر کی عطا کردہ ہے۔ یہ قہر دیگر چیزوں کی مانند زبان پر بھی اثر انداز ہوتا ہے کہ مقامی باشندہ رفتہ رفتہ اپنی زبان سے بیگانگی اختیار کر لیتا ہے۔ اور پھر وہ لمحہ بھی آتا ہے جب اسے "متن" سے حاشیے میں پھینکی گئی اپنی زبان کو روزمرہ گفتگو میں برتنے سے بھی شرم دامن گیر ہوتی ہے۔
دیگر اشیا کی مانند زبان بھی اپنی ‘‘جگہ’’ رکھتی ہے۔ لیکن قدرے مختلف انداز میں۔ جب کوئی زبان روزمرہ کی گفتگو اور تحریر کی ‘‘جگہ’’ کھو بیٹھتی ہیں تو دراصل وہ اپنے لیے ‘‘قبرستان’’ میں ‘‘جگہ’’ تلاش کر لیتی ہیں ۔ گویا اس طرح زبانیں معدومیت کی راہ پر چل پڑتی ہیں۔
افسانہ ‘‘اپنے ماضی کے خدا’’ کا موضوع انسانی نفسیات کی ایسی گہری پیچیدگیاں ہیں جن سے قاری گزرتا ہے ۔انسانی جرم کی بو باس پرندوں اور حیوانوں کو بھی محسوس ہوتی ہے تو وہ اُس سے دور بھاگتے ہیں۔ یہ وہی پرندے اور جانور ہیں جنھوں نے اپنے قلب و نظر میں فاطمہ کے لیے ممنونیت کی "جگہ" قائم کی ہوئی تھی۔ لیکن جب فاطمہ ایک جرم کا ارتکاب کرتی ہے تو وہی محبت کی "جگہ" نفرت اور کراہت کی "جگہ" میں بدل جاتی ہے۔ اس صورتِ حال میں فاطمہ میں احساسِ جرم بڑھ جاتا ہے اور وہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو کر ماہر نفسیات کے پاس پہنچتی ہے تاکہ اپنے جرم سے پیدا شدہ نفسیاتی عوارض کا علاج کرایا جا سکے۔ وہ اپنے آلودہ ماضی کو کھرچ کر اسے شفاف بنانا چاہتی ہے۔ ایسا ماضی جس میں کسی جرم کی گنجائش نہ ہو لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتی۔ ماہر نفسیات اُس کی تشفی یہ کہہ کر کرا دیتی ہے :
"میرے خیال میں انسان کا پورا جسم، زبان ہے۔ خوف، نفرت، محبت، دکھ، شرمندگی، حسد صرف آنکھوں سے نہیں، دل کی دھڑکن، ہاتھوں، جسم کے بالوں، چہرے سے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ جسم کی زبان میں نہ تو جھوٹ شامل ہوتا ہے، نہ ابہام۔ اس لیے پہلے تم سے جانور دور ہوئے، جو جسم کی زبان کو فورا سمجھ لیتے ہیں۔ آدمی چوں کہ لفظوں کی زبان سیکھ کر اپنے جسم کی زبان بھولنے لگتا ہے، اس لیے اسے دوسروں کے جسموں کی زبان سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔’’ (ص31)"
فاطمہ اپنا ماضی تبدیل نہیں کرسکتی اور نہ ہی ماضی کا خدا بن پاتی ہے۔ اور بالآخر راحیل (خاوند) اُسے ذہنی امراض کے ہسپتال میں داخل کرا دیتا ہے۔ یہیں پر افسانہ نگار کا فن غیر معمولی اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔ اس افسانے کا اختتام کچھ اس طرح ہوتا ہے:
‘‘یہ دنیا مٹی کے خداؤں نے بنائی ہے مگر ساری ذمہ داری مٹی سے بنے آدم پر ڈال دی ہے۔ وہ اس زور سے قہقہہ لگاتی ہے کہ ڈاکٹر دوڑ کر آتے ہیں اور اُس کی آنکھوں میں وحشت دیکھ کر سہم جاتے ہیں اور پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔’’(ص37)
اس مجموعے میں شامل ایک افسانہ ‘‘کچھ ملکوں میں تاریخ خود کو دہراتی ہے’’ کو ‘‘دائرۂ زمانی کی تشکیل’’ کی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ یہ تکنیک ہمیں غلام عباس کے افسانے ‘‘آنندی’’ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
اسی افسانے میں افسانہ نگار نے اتفاقی یا غیر اتفاقی طور پر یک لخت تیس ادیبوں کے سانحہ ارتحال کے موقع پر پیدا ہونے والی صورت حال اور ادیب اور ایوارڈ دینے والی اکیڈمی کو موضوع بنایا ہے۔ یہاں متعدد جگہوں پر کڑوا سچ پوری دیانت داری کے ساتھ بھی بیان کیا گیا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے:
"صفِ اوّل کے دو ہی نقاد تھے اور ایک محقق تھا۔ دونوں نقاد نک چڑھے تھے۔ ایک دوسرے کا نام نہیں سننا چاہتے تھے۔ ایک کانفرنس میں چلے تو جاتے مگر کسی ایک سیشن میں اکٹھے نہ ہوتے۔ اگرچہ دونوں ادب کی تاریخ اور روایت کا وسیع علم رکھتے تھے، مگر ایک کے پاس زبان کا چٹخارہ تھا اور ہر ہر جملے میں استہزاء اور طنز ہوتا۔ لوگ اسے بہت پسند کرتے۔ ان کے جملوں پر اسی انداز میں داد ملتی، جس طرح مقبولِ عام شاعر کو اس کے ایک ایک شعر پر ملا کرتی۔ دوسرا نقاد ادب کا سیدھا سادہ تجزیہ کرتا اور وہ اچھے اور برے ادب کا فرق بتاتا۔ وہ زبان کی بجائے، استدلال سے لوگوں کو متاثر کرتا۔ اسے داد کم، توجہ زیادہ ملتی اور اس کے خیالات پر لوگ باقاعدہ بحث کیا کرتے۔ "(ص 50)
اس ایک اقتباس میں بہت کچھ نکھر کر سامنے آ گیا ہے اور بہت سی تصویریں اور نام ذہن میں گردش کرنے لگے ہیں۔
اس کتاب کے ایک افسانہ" پہلے کھیلی اور بعد میں لکھی گئی تمثیل" میں دو ہمسایہ ملکوں کی سرحد پر پائی جانے والی "حب الوطنی" کو موضوع بنایا گیا ہے۔ لیکن یہ "حب الوطنی" اس وقت کافور ہو جاتی ہے جب دونوں ملکوں کے باسی سرحد پر کھلا ہوا گیٹ دیکھ کر بھاگتے ہوئے ایک دوسرے سے شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ سرحد کی لکیر عبور کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ محض سرحدی نہیں بلکہ خونی لکیر ہے۔ بار بار واپس آنے کے اعلانات کے باوجود وہ واپس نہیں آتے تو اس "قانون شکنی" پر دونوں ملکوں کی سپاہ نے حیران و ششدر اور غصیلی ہو کر سرحدی گیٹ بند کرکے گولیوں کی باڑھ چلا دی۔
"انھوں نے سرحدی لکیر کو پار نہیں کیا، اسے روندا ہے۔ یہ ایک مقدس لکیر ہے جو انسانوں کو تقسیم کرنے کے لیے نہیں، انھیں ان کی مقررہ حدوں میں رہنے کے لیے کھینچی گئی تھی۔ انھوں نے صرف حکم عدولی نہیں کی، قانون شکنی بھی کی اور کسی تیسرے ملک کی شہ پر۔ وہ اپنے اپنے ملک کے غدار تھے۔ غدار کی سزا موت کے سوا کیا ہو سکتی ہے؟ " باہمی طور پر دستخط کی گئی ایک خفیہ خبر میں لکھا گیا اور اسے سر بمہر کر دیا گیا۔ "(ص 79)
افسانہ "پناہ مانگتا ہوں میں۔۔۔۔ " ملا شمس الدین کے خوف سے شروع ہوتا ہے۔ وہ جیسے ہی مسجد سے باہر نکلتا ہے تو اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اس کے آس پاس ہے۔ اور بالاخر اسے ایک دن وہی غیر مرئی مخلوق شیطان کی صورت میں سامنے آتی یے۔ ملا شمس الدین کو جب اس کا پتہ چلتا ہے تو وہ اسے بھگانے کے لیے متعدد دعائیں پڑھتا ہے لیکن شیطان کا مسکراتے ہوئے ایک ہی اصرار ہے کہ گھر بیٹھ کر اس کی بات سنی جائے، کئی دنوں کے بعد وہ ملا شمس الدین کو قائل کر لیتا ہے۔ چناں چہ کافی طویل نشستوں کے بعد شیطان یہ سوال کرتا ہے:
"ملا آپ مجھ سے کیوں گریزاں ہیں؟ میں پہلے بھی تو آپ کے ساتھ ہوتا ہوں۔ آج بس سامنے آ گیا ہوں۔ چلیں مجھے اتنا بتا دیں کہ آپ مجھ سے پناہ مانگتے ہیں۔ میں اگر دعا کروں تو کس سے پناہ مانگوں"؟ ( ص 94)
ملا شمس الدین نے جب یہ غیر متوقع سوال سنا تو خوف زدہ ہو کر توبہ و استغفار کرتے ہوئے تیزی سے مسجد چلے گئے اور پھر کبھی مسجد سے اکیلے باہر نہیں نکلے اور نہ ہی کبھی اکیلے بیٹھے۔ انھوں نے شاید اس مذہبی بیانیے کی عملی صورت دیکھ لی تھی کہ تنہائی شیطان کی آماج گاہ ہے۔
"اپنا عصا اور اپنا اژدہا "نفسیاتی پیچیدگیوں کے شکار ایک ایسے شوہر کی بپتا ہے جو خواب میں دیکھی گئی کیفیت اور مختلف واقعات کو اپنی بیوی سے بے سروپا جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی اس ذہنی کشمکش کو دور کرنے کے لیے پہلے پہل ایک دوست اور بعد ازاں ماہر نفسیات کے پاس مشاورت کے لیے جاتا ہے لیکن جب تشفی نہیں ہو پاتی تو یہ کیفیت اسے روحانی شخصیت سید نفیس احمد کے پاس لے جاتی ہے۔ وہ اس کا ماجرا سن کر کہتے ہیں:
"تم جاننا چاہتے ہو کہ کیا وہ سب خواب سچے ہیں یا جھوٹے، اور جن میں تم نے بیوی اور اس کے رویائی شریک پر اس قدر تشدد کیا ہے کہ جب تم جاگے ہو تو تم ہانپ رہے تھے اور رو رہے تھے؟ حقیقت میں تم چاہتے ہو کہ میں کہوں کہ وہ سب خواب جھوٹے ہیں۔ سب یہی چاہتے ہیں۔ تمھاری بیوی اگرچہ یہ خواب دیکھتی تو وہ بھی یہی چاہتی۔ میں بھی یہ خواب دیکھتا تو یہی چاہتا۔ میں تمھیں بتا چکا ہوں، تم مجھ سے عصا چاہتے ہو۔ کھیل کا اصول یہ ہے کہ کسی دوسرے کے عصا سے، اپنا اژدہا نہیں مارا جا سکتا اور جس کے پاس اپنا عصا ہے، اسے کوئی اژدہا ڈس نہیں سکتا۔ میں اس سے زیادہ کچھ کہہ سکتا ہوں، نہ کر سکتا ہوں۔ "(ص 106)
سید نفیس احمد کے اس "روحانی سیشن" کے بعد اس نے دوبارہ ایسا خواب نہیں دیکھا۔
"جب تک ہے زمین" میں سات خواب کہانیاں بھی شامل ہیں۔ خواب کی شعریات اور خواب کہانیوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ بیداری کی حالت اور خواب کی کیفیت میں بنیادی فرق یہ قرار دیا گیا ہے کہ بیداری کی حالت میں بیان کی گئی کہانی کے کردار اور قارئین دوسرے ہوتے ہیں۔ جب کہ خواب کہانی کا مصنف ہی خود نہیں ہوتا بلکہ اس کا بنیادی کردار اور قاری بھی وہی ہوتا ہے۔ بیداری اور خواب کہانی میں کچھ مزید افتراقات بھی پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر بیداری کی حالت میں کہانی کے آغاز و انجام کو بدلا جا سکتا ہے۔ موضوع میں ضروری اور غیر ضروری ترمیم بھی کی جا سکتی ہے۔ کرداروں پر بھی نظر ثانی ہو سکتی ہے۔ مگر خواب میں دیکھی گئی کہانی میں تو کچھ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن خواب میں دیکھی گئی کہانی کو بیداری کی حالت میں بیان کرتے ہوئے من چاہی اور کہانی کے مزاج کے مطابق تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ ناصر عباس نیر نے بھی کچھ خواب کہانیاں دیکھیں اور انھیں بیان کرتے ہوئے ضروری ترمیمات کر ڈالیں۔
خواب کہانیوں میں سے ایک کہانی "نطشے اور مریل گھوڑا" کا ذیلی اقتباس دیکھیے جس میں لائبریری کو ایک ایسی جگہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے جہاں لوگوں کی شناخت بہ آسانی کی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ روزمرہ کی جگہوں میں سے لائبریری ہی ایسی جگہ ہے جو ان تمام جگہوں سے زیادہ منفرد ہے اور یہاں سے ہی دوسروں جگہوں کو دیکھنے، پرکھنے، برتنے اور جانچنے کا طریقہ بہ ذریعہ کتاب سیکھا جا سکتا ہے۔ اس خواب کہانی کا آغاز لائبریری کی سمت بڑھتے قدموں سے ہو رہا ہے اور مصنف کو اس بات کا یقینِ کامل ہے اور اس کے بقول:
"میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کو پہچاننے کے لیے لائبریری سے بہتر جگہ روئے زمین پر نہیں- آدمی گھر، بازار، مسجد، دفتر، عدالت، اور تنہائی میں اپنی اصل چھپا سکتا ہے، لائبریری میں نہیں-” ( ص 134)
یہ کتاب ملک کے ممتاز ناشر سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے بڑھیا کاغذ، مضبوط جلد بندی اور مناسب سرورق کے ساتھ عمدہ طباعت کی ہے۔

Comments

Click here to post a comment