ہوم << سیدنا امیر معاویہؓ - محمد فہد حارث

سیدنا امیر معاویہؓ - محمد فہد حارث

ہمارے ہاں سیدنا معاویہؓ کو ہمیشہ قصاص عثمانؓ، جنگِ صفین اور حکمرانی کے تناظر میں ہی دیکھا گیا ہے۔ ان کے شخصی احوال پر عموماً کم ہی بات کی گئی ہے۔ چلیں آج آپ کو سیدنا معاویہؓ کا تعارف ایک دوسرے تناظر میں کرواتے ہیں۔

ابن خلکان "وفیات الاعیان" کی جلد دوم میں بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ جناب زیاد بن ابی سفیانؒ کا صاحبزادہ ملاقات کی غرض سے سیدنا معاویہؓ کے پاس حاضر ہوا۔ سیدنا معاویہؓ نے دیکھا کہ زبان بولنے میں اس سے غلطیاں ہورہی ہیں۔ اس پر آپ نے زیاد کو لکھا کہ اپنے لڑکے کو عربی زبان تو سکھادیتے۔ یہ وہ تنبیہ و سرزنش تھی جس نے زیاد کو عربی زبان کے قواعد وضع کروانے کی طرف توجہ دلائی اور اس نے ابو الاسود الد دؤلی کو اس کام پر مامور کیا۔ مسعودی اپنی کتاب "مروج الذہب" کی جلد دوم میں سیدنا معاویہؓ کے حالات میں لکھتا ہے کہ

سیدنا معاویہؓ رات کا تہائی حصہ آرام کرتے، پھر جاگ جاتے، پھر وہ رجسٹر لائے جاتے جن میں گزرے حکمرانوں کے حالات و واقعات، ان کی معرکہ آرائیوں اور جنگی مہارتوں کی روداد درج ہوتی تھی۔ کچھ نوجوان جنھیں ان تاریخی مندرجات کے حفظ و قرات کی تنخواہ ملتی تھی، وہ حالات و واقعات پڑھ کر سناتے۔ یوں ہر روز رات کو کچھ تاریخی روایات، حالات و واقعات اور امورِ جہانبانی سے متعلقہ تفصیلات امیر المومنین معاویہؓ کی سماعتوں سے گزرتیں۔

مسعودی مزید لکھتا ہے کہ
سیدنا معاویہؓ نے یمن کے ایک ماہرِ تاریخ عبید بن شریہ کو دمشق طلب کیا جس نے چند کتابیں سپردِ قلم کیں جن میں ایک کتاب "الملوک و اخبار الماضین" تھی۔ عبید بن شریہ وہ واحد عالم یا مورخ نہیں تھا جسے سیدنا معاویہؓ نے دمشق بلوا کر کتابیں لکھوائیں بلکہ اور بھی کئی اخباری اور مورخ سیدنا معاویہؓ کی خدمت میں دمشق حاضر ہوتے تھے جو قدیم قوموں اور گزرے عربوں کے حالات و واقعات کا علم رکھتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ شاکر مصطفیٰ صاحب اپنی کتاب "التاریخ العربی و المؤرخون" کی جلد اول میں سیدنا معاویہؓ کو علمِ تاریخ اسلامی کا بانی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ پہلے مسلم حکمران تھے جنھوں نے عربی زبان میں تاریخ کی تدوین کروائی جو صرف غزوات نبویﷺ، قصص الانبیاء، انساب یا ایام عرب کی تدوین نہیں تھی بلکہ تاریخ کی یہ تدوین اس کے ہمہ جہت مفہوم کے مطابق تھی جس میں قدیم قوموں کی تاریخ، گزرے حکمرانوں کے حالات و واقعات، معرکہ آرائیوں کی روداد، جہانبانی کے مختلف طریقے اور وہ تمام امور و معاملات درج تھے جو بادشاہوں اور حکمرانوں کے لیے لائقِ مطالعہ ہوتے ہیں۔

البدایہ و النہایہ کی جلد ۸ میں ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا معاویہؓ کی خدمت میں زیاد بن ابی سفیان کا دوسرا بیٹا حاضر ہوا۔ سیدنا معاویہؓ نے اس سے جس موضوع پر بھی سوال پوچھا، لڑکے نے بخوبی جواب دیا۔ لیکن جب شعر و شاعری کی بات آئی تو وہ ایک دم کورا نکلا۔ سیدنا معاویہؓ نے استفسار کیا کہ
شعر کیوں نہیں پڑھتے؟
وہ بولا:امیر المومنین! مجھے یہ بات پسند نہ آئی کہ کلامِ رحمٰن کے ساتھ کلامِ شیطان کو یکجا کروں۔
سیدنا معاویہؓ نے کہا:جاؤ، اپنی شکل گُم کرو۔ بخدا، صفین کے روز مجھے ابن طنابہ کے ان اشعار نے ثابت قدم رکھا تھا:
؎ میری پارسائی اور بہادری نے نفس کے اس مطالبے کو حقارت سے ٹھکرادیا کہ بھاگ چل

اور اس لیے بھی نہیں بھاگتا کہ میں اچھی قیمت دے کر تعریف و ستائش خریدتا ہوں
غربت کے باوجود سخاوت کرتا ہوں،
محتاط اور غیور سورما پر حملہ آور ہوتا ہوں
اور جب دل گبھراتا ہے تو اس سے کہتا ہوں اپنی جگہ ثابت قدم رہ،
چاہے تیری تعریف ہو یا تو آرام پائے۔

اس کے بعد سیدنا معاویہؓ نے زیاد کو لکھا کہ اپنے لڑکے کو شعروشاعری پڑھاؤ۔ سیدنا معاویہؓ کے شعری لگاؤ سے متعلق ابن عساکر بھی تاریخِ دمشق کی چالیسویں جلد میں ایک روایت لائے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ نے شاعر عبدالرحمان بن حکم بن ابوالعاص کو کہا کہ

میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں شعرو شاعری پسند ہے۔ تو جب تم شعر کہنا تو عورتوں کی تشبیب مت کرنا کہ اس طرح تم معزز خاتون کو تکلیف دو گے، پاکدامن عورت پر تہمت لگاؤگے اور اپنے معیوب و عیب دار ہونے کا اعتراف کروگے۔ ہجو بھی مت کہنا کہ اس طرح تم اچھے آدمی کو برہم کروگے اور کمینے شخص کو اشتعال دلاؤگے۔ بے شرمی سے بھی مدح مت کہنا۔ سوال (یعنی بھیک) کی کمائی مت کھانا۔ البتہ اپنی قوم کے قابلِ فخر کارناموں پر فخر کا اظہار کرنا اور وہ ضرب الامثال شعروں میں لانا جن سے تم اور تمہارا شعر آراستہ ہو اور دوسرے لوگ ادب سیکھیں۔