ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں !
مگر لوٹنے سے پہلے تم نے خوب خوب شکر ادا کیا ؟
میں کہتی رہتی ہوں شکر الحمدللہ ۔۔۔
_____________________
اچھا بتائیں ۔۔۔ جو رنگ اس وقت پہن رکھا ہے ، اُسے محسوس کرتے ہیں ؟
میں نے جانا کہ مومن وہ بھی ہے جو لمحہِ موجود کا قدردان ہے کیونکہ جو رب کے قریب بیٹھا ہے وہ گزرے ہوئے کا رنج اور آنے والے کے خوف سے آزاد ہے۔
ہمارا رب شہ رگ سے زیادہ قریب ہے تو یہ کیا ہے جو ہمیں اس دور رکھتا ہے ؟ ہمارا ہم میں ہی نہ ہو پانا۔۔۔۔۔
میں نے آج صبح جب اپنی رضائی سمیٹی تو دیکھا اس پر ان گنت پھول کِھلتے معلوم ہوتے ہیں ، خزاں میں بھی بہار دے دی میں کہتی رہتی ہوں شکر الحمدللہ ۔۔۔۔۔۔
اس وقت میں نے برفیلا سفید اور آسمان سا نیلا رنگ پہنا ہے اور healing کے ان رنگوں کو خود میں بھرتی ہوں ، اللہ نے میرے لیے رنگ اتارے ، وہ اسے بلیک اینڈ وائٹ بھی رکھ سکتا تھا ز اس نے میری آنکھوں کا نور سلامت رکھا تاکہ میں ان رنگوں کو پہچان سکوں اور سکون پاؤں۔۔ میں کہتی رہتی ہوں شکر الحمدللہ۔۔۔۔۔۔
میری پڑھائی لکھائی کی میز پر ایک ہیٹر رکھا ہے ۔ جانے وہ کس فیکٹری میں بنا ہے مگر یہ اللہ ہی ہے جس نے اس میں کچھ ایسا سسٹم رکھا کہ وہ مجھے ٹھنڈ نہیں لگنے دیتا۔میز میرے بیڈ سے دور ہے اور مغرب کے بعد ابو آکر اس میز کو کھینچ کر میرے قریب کردیتے ہیں ، ابو ۔۔۔۔ یعنی تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا زندگی دھوپ تم گھنا سایہ ۔۔۔۔ ابو چھاؤں ہوا کرتے ہیں ، پروٹیکشن ۔۔۔ حفاظت ۔۔۔ سیکورٹی ۔۔۔۔ موسموں کے مطابق یہ یہ چھاؤں سا رشتہ دور میز پر پڑی حرارت کا ساماں کھینچ کر مجھ تک لاتا ہے ۔۔ ابو کو اتنا خیال رکھنے والا کس نے بنایا ؟ جب کوئی ہمارا خیال رکھتا ہے تو یعنی رب کے حکم سے ہمارا خیال رکھتا ہے۔۔۔ میں کہتی رہتی ہوں شکر الحمدللہ
بیڈ سے ذرا اونچائی پر دائیں جانب ایک کتاب موجود ہے۔ اللہ کی کتاب ، اس کا انگریزی ترجمہ ۔۔۔ کل شام میں نے ایک بہت خوبصورت آیت پڑھی نا ۔۔۔۔
" Kind words and forgiving ( of faults ) are better than Sadaqah followed by hurt. "
( Surah 2. Al_Baqarah )
بائیں جانب سرہانے سے ذرا پرے ایک کتاب موجود ہے ، ہم اور توہم ۔۔۔ اسے فرح آپا نے لکھا ہے ، میں نے انہیں موبائل سے پڑھ کر اور سن کر ہمیشہ صحیح اور غلط کی پہچان پائی۔ان کے ذریعے سب صفحات پر کس نے اتارا ؟ یہ اللہ ہی ہے جس کے حکم سے نجانے کس دیس میں بستی میری رہنما ہستی نے اپنے الفاظ محفوظ کاغذوں میں منتقل کیے اور اب جہاں مجھے ماں سی نصیحت ، بڑی بہن سی تاکید ، دوست سی تسلی چاہیے ہو میں اس کا کوئی باب پڑھ لیتی ہوں۔رب کا حکم ہی ہوگا کہ گاؤں کی اک لڑکی کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔یہ نیلے رنگ کی ہے اور اس کے جیسی تین اور کتابیں ۔۔۔میں کہتی رہتی ہوں شکر الحمدللہ ۔۔۔۔
اور میری سائیڈ ٹیبل پر ایک ننھی سی سفید رنگ کی مسنون دعاؤں کی کتاب ہے جو مجھے کسی نے اس وقت دی جب مجھے اس کی بے حد ضرورت تھی مگر میں اپنی ہی ضرورت سے ناواقف تھی۔ہماری روح کی ضرورت سے کسی دوسرے انسان کو کون آگاہ کرتا ہے اور اسے یہ توفیق دے دیتا ہے کہ جاؤ اس کی اس شے سے مدد کردو ۔۔۔ میں کہتی رہتی ہوں شکر الحمدللہ
ہم خزاں میں ہیں اور خزاں کہتی ہے release کردو ، کبھی کبھی بہت کچھ جانے دینا ، بہت کچھ پانے سے زیادہ ضروری اور صحت بخش ہوتا ہے۔ہمیشہ زیادہ کی چاہ نہ کرو ، تھوڑا تھوڑا کرکے چھوڑو اور ترک کرتے رہو ۔ کسی ایک شے کو ہاں کہنے کے لیے کسی دوسری شے کو نہ کہنے کا فن سیکھو۔جو بھی اٹھانا مشکل ہورہا ہے اسے چھوڑ دو ، ریلیز کرو ۔۔۔
یوں میں نے آج تیسرا دن جرنلنگ میں اللہ تعالیٰ کو ان چیزوں کے بارے میں خط لکھا جو مجھ پر مشکل ہورہی ہیں اور میں نے اللہ تعالیٰ سے تفصیلی تھکن بیان کی ہے ، وہ سب جو دماغ کو بیمار کررہا ہے اسے کاغذ پر اتارا ، دماغ کو تقویت ملی ، میں نے لکھا تو جانا کہ مجھے کیا تھکا رہا ہے۔ یہ لکھنا کس نے سکھایا اور لکھنا کس قدر شفا رکھتا ہے ۔۔۔ میں کہتی رہتی ہوں شکر الحمدللہ ۔۔۔
جب میں بستر سے اٹھی تو پیروں کو ٹھنڈا فرش لگنے سے پہلے ہی میں نے انہیں جرابوں میں محفوظ کردیا اور میرے پیروں کے لیے گرم جوتے موجود تھے۔یہ میرے سر ، دھڑ ، پیر تک کا خیال کون رکھتا ہے۔۔۔ کون ہے وہ مہربان رب جو ریشم کے کیڑے کو فنا کا حکم دیتا ہے اور مجھے پہننے اوڑھنے کو لباس مل جاتا ہے جو مجھے مشکل موسموں سے بچائے رکھتا ہے ، یہ روئی کے ہر ٹکڑے کو کون کسی مزدور کے ہاتھوں بھرتا ہے اور میرے سر ٹکانے کو تکیہ مل جاتا ہے ، جب کسی شب میں بھاری grief سے گزرتی ہوں اور روتے ہوئے اس سے کہتی ہوں میرے رب ! میں تکلیف میں ہوں تو وہ اگلے پچھلے پرچے نہیں کھولتا اور پہاڑوں کے پیالوں میں نیند اتار دیتا ہے ، جب میرے اعصاب سکون سے انکاری ہوتے ہیں وہ اس منکر وجود کو بھی سکینت بخشتا ہے اور میں گہری نیند میں چلی جاتی ہوں اور غم میرے کمرے کی کھڑکی سے نکل کر کسی کھیت کی مٹی میں جا فنا ہوتا ہے ، بہار میں اس پر پھول آتے ہیں۔یہ کون ہے جو ملال کی انرجی کو بہار میں منتقل کرتا ہے۔میں کہتی رہتی ہوں شکر الحمدللہ
میں نے کشمیری شال اوڑھی ، وہ میرے سر کو ڈھک دیتی ہے ، کانوں کو ٹھنڈ سے بچاتی ہے ، میری گردن یخ ہوا سے محفوظ رہتی ہے ، وہ بازوؤں کو ماں کے جیسے سمیٹ لیتی ہے ، میری چادر صرف حفاظت اور حیا کے تقاضے ہی مکمل نہیں کرتی ، وہ خوبصورت بھی بہت ہے۔ اس پر بھی پھول ہیں ، میں کیوں نا اپنے رب کے لیے پھول لے جانے کی خواہش کروں جب وہ ہر طرح مجھے پھولوں میں رکھتا ہے۔میں چادر اوڑھتی ہوں اور کبھی کبھار تو اس سے ناک ڈھک کر بھی زیست کی موج کا لطف اٹھاتی ہوں۔کہتی رہتی ہوں شکر الحمدللہ ۔۔۔۔
جب میں نے روٹی کا نوالہ لیا تو گندم کی ساری کہانی سے واقفیت رکھتے ہوئے زندگی کا احساس مجھ میں بھر گیا ۔۔۔۔ میرا رزق جہاں بویا ، کاٹا ، سمیٹا جاتا ہے میں نے وہ کھیت دیکھ رکھے ہیں ، میں روز ایک سجدہ اس کی اس شان کے لیے کرتی ہوں کہ وہ کیسے زمین کے بطن سے میرے لیے پاک رزق اور میٹھا پانی نکالتا ہے جس زمیں کا میں اتنا خیال بھی نہیں رکھتی وہ اس زمین سے میرا خیال رکھتا ہے۔
جب سالن کا پہلا ذائقہ میری حسیات سے جا ملتا ہے تو میں اس کے کرم پر حیران ہوجاتی ہوں۔اس نے مجھے بنایا اور پھر اپنے رزق سے میٹھا ، تیکھا ، ترش چکھایا ۔۔۔ کہتی رہتی ہوں شکر الحمدللہ۔۔
میں نے امی ابو کا چہرہ دیکھا ، یہ میری بینائی ۔۔ شکر شکر۔۔۔یہ رب ہی جس نے مجھ پر اتنا کرم قائم رکھا ہوا ہے کہ میں ہر صبح امی کے کان کی بالیاں دیکھ پاتی ہوں وہ ہنستی ہیں تو وہ بالیاں جھول سی جاتی ہیں ، میں بھول جاؤں یا بیمار ہوجاؤں تو ابو میرا بستر سمیٹ دیتے ہیں ، کتابیں ترتیب سے رکھتے ہیں ، انہیں بس ایک بار معلوم ہوا کہ مجھے بھنے ہوئے چنے بہت پسند ہیں اک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ قصبے جائیں اور میری سائیڈ ٹیبل پر چنے نہ رکھے ہوں ، یہ انسان کو ایک شرارتی بچے سے ضدی نوجوان اور نوجوان سے کسی ہیرو سا رحم دل اور احساس سے بھرپور باپ کون بناتا ہے۔۔۔ وہ اللہ ہی ہے جو یہ کرتا ہے۔
کبھی دل چاہے تو امی سے کھانا کھانے کے بعد یہ فرمائش کی جاسکتی ہے کہ امی ذرا میٹھی روٹی تو بنا دیں ، آج دل چاہ رہا ہے اور وہ بنا دیتی ہیں ، وہ روٹی میٹھی ہی نہیں aesthetically بھی بہت خوبصورت ہوتی ہے کیونکہ رب نے ماں کو ایسا بنایا کہ اک ماں ہی ہوتی ہے جو ہمارے دل کا خیال رکھتی ہے۔ کوئی ہمارے گھر ، لباس ، سواری سے لے کر ہماری کتابوں ، سر کے کیچر تک کا خیال رکھ سکتا ہے لیکن صرف ماں ہمارے دل کا خیال رکھتی ہے۔
یوں ہوگا کہ امی کو رب نے بانو دی مگر میں اس احساس سے شکرگزار رہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے امی دیں ۔۔۔ کہتی رہتی ہوں شکر الحمدللہ ۔۔۔۔
لمحہِ موجود کے عرق کا اک اک قطرہ ایسا سمندر ہے جس پر شکر کرتے ہوئے میں بوڑھی ہوجاؤں اور ابھی اک قطرے پر بھی مکمل شکر ادا نہ ہوا ہو۔۔۔۔ ہمارا رب ایسا ہے !
وہ اتنا مہربان ہے کہ کبھی بے پناہ تکلیف میں میری ساری حسیات سُن ہو جائیں تو بھی صرف لمحہِ موجود کا شکر مجھے زندگی کی جانب کھینچ لاتا ہے۔وہ ہوں ہمیں اندھیروں سے روشنی میں لاتا ہے۔
یہ شکر ایسا ہے کہ زندگی ہو جیسے ! موت کا متضاد ۔۔۔ ہونے کا احساس ۔۔۔ شکرگزاری مجھے اپنا آپ محسوس کرواتی ہے جب میں کھو جاتی ہوں۔۔۔۔
یوں ہے کہ جب میں اس دنیا سے رخصت ہورہی ہوں تب بھی میری اس سے یہی گفتگو چل رہی ہوں ، کچھ ایسی ۔۔۔
میرے پیارے اللہ ! آپ کتنے پیارے ہیں نا ۔۔ یہ جو میرے ہاتھوں میں تازہ میٹھے پانی کی کٹوری ہے اور یہ جو میں نے جامنی رنگ زیب تن کر رکھا ہے ، سر میں ہلکے درد کے باوجود یہ جو میں اپنے بھائی کے بچوں کے شرارتی قہقہے سن رہی ہوں اور جو دھوپ اتر اتر کر میرے صحن میں پھیل رہی ہے ۔۔کتنا خیال رکھتے ہیں میرا ۔۔۔۔
یہ میری جرابیں کتنی پرسکون ہیں ، میرے پیروں میں گرماہٹ اتار رہی ہوں مگر وہ آہستہ آہستہ ٹھنڈے پڑ رہے ہیں ، آپ تو مجھے ٹھنڈ نہیں لگنے دیتے نا تو یعنی میں پھول اکٹھے کرلوں ؟
یعنی اب ہمیں ملنا ہے ۔۔۔۔
اے سب مہربانوں سے زیادہ مہربان !
میرے پیارے اللہ !
پڑھنے والی آنکھ مسکرائے
تبصرہ لکھیے