یہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نئے نظم کی تقریب حلف برداری تھی. سابقہ نظم الوداع کہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نئے نظم کو سونپتے ہوئے خوش وخرم اور ساتھ ساتھ اپنا تعاون مہیا کرتے ہوئے الوداع کر رہا تھا۔ سابقہ ناظمہ ضلع شکیلہ زین العابدین صاحبہ نئی ناظمہ کو دل و جان سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں. ساتھ ساتھ سمجھ میں آ رہا تھا یا اللہ یہ کیسے رشتے ہیں۔ قاصرہ الطرف نائب ناظمہ ضلع خود مہمان نوازی کا فرض نبھا رہی تھیں ۔ ہر آنکھ نئی ناظمہ کے حلف پہ اشک بار تھی ۔ دل میں احادیث مبارکہ اور آیات قرآنی زندہ ہو رہی تھیں ۔
کہیں سورہ نساء کی آیت نمبر 59میں رب العالمین فرما رہے ہیں: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہوں . پھر اگر کسی بات پر تمھارے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے تو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو تم اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو(یعنی قرآن مجید اور حدیث مبارکہ سے فیصلہ کرو)یہ ہی طریقہ زیادہ بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے.
کہیں پہ یاد آیا: دین انبیاء کی وراثت ہے. ہم نے یہ میراث پائی ہے کہ ہم دین اسلام کے وارث ہیں الحمدللہ۔ کہیں کہ تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے نائب کی حیثیت سے ہو. رب العزت فرما رہے ہیں سورہ بقرہ میں کہ میں نے تمھیں خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا ہے.
کہیں پہ حدیث مبارکہ یاد آئی، حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کسی حبشی غلام کو جس کا سر انگور کی طرح چھوٹا ہو گورنر مقرر کردیا جائے تو تم اس کی بات سنو اور اطاعت کرو (مشکوٰۃ شریف ،3663). کہیں پہ یاد آیا حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ بتا رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی . (صحیح البخاری ،2957)
ہمیں رب العالمین اپنے دین کے یےے پسند کر لے اور ہم سب سے اپنے دین کا کام اپنی رضا کے لیے لے لے ۔ پھر یاد آیا کہ رب العالمین تو دین کے رستے میں پڑنے والی پاؤں کی مٹی کو بھی ضائع نہیں کرتا، ہم کیوں پریشاں ہیں، مطیع و فرمانبردار لوگوں کے لیےتو خوش خبریاں ہی خوش خبریاں ہیں. حضرت ابو عبس جن کا اصل نام عبد الرحمن بن جبر ہے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے دونوں قدم اللّٰہ کے رستے میں غبار آلود ہوں گے اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ کو حرام فرما دیں گے. نبوی دور بھی یاد آ رہا ہے ، سیرت النبی بھی یاد آتی جا رہی ہے ، ذہن کے خانوں میں نبوی دور کی یادیں تازی ہوتی جا رہی ہیں ۔
یہ اک بھاری ذمہ داری ہے. یہ پھولوں کی سیج نہیں، ہم اپنے نئے نظم کا استقبال دعاؤں اور نیک تمناؤں سے کرتے ہیں۔ دلوں میں وسعت پیدا کریں اور اک دوسرے کو ہنستے مسکراتے چہروں سے ملیں ۔ ہم نظم کی اطاعت کرنے والے ہوں بلا چوں و چراں ۔کہیں پہ پھر وہ دور نبوی یاد آیا جب آپ نے ایک صحابی کی ڈیوٹی لگائی کہ جاؤ فلاں علاقے کی طرف جنگی ہتھیار سے لیس ہو کر ۔سپہ سالار نے لشکر تو روانہ کر دیا مگر خود سوچا میرے پاس تیز رفتار گھوڑا ہے کل جمعہ ہے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز جمعہ ادا کر کے نکل جاؤں گا ۔ جمعے کے دن نماز کے بعد نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نظر اس صحابی پر پڑی، فوراً آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پوچھا : تم کو تو میں نے لاؤ لشکر دے کے روانہ کیا تھا تم یہاں کیسے؟؟ جواب میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں نے سوچا کہ آپ کی امامت میں نماز جمعہ ادا کر کے چلا جاؤں گا ،،ہاں مگر لشکر کو تو روانہ کر چکا . نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو وہ اجر عظیم سمیٹ چکے تم وہ ساری زندگی نہیں حاصل کر سکتے. یعنی تم کو اطاعت امر کرنی تھی مگر تم نے ذاتی نیکی کو ترجیح دی . تو سمجھ میں آیا جب امیر کا حکم ہو ذاتی ترجیحات معانی نہیں رکھتیں ۔ اللّٰہ رب العالمین ہمیں اطاعت قبول کرنے اور ساتھ دینے والوں میں رکھے ۔ اللّٰہ رب العالمین آپ سب کو ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق دے ۔
یہ نظم ہمارا خادم بن کے رہ جاتا ہے ، نہ ان کی کوئی ذاتی ترجیح ہوتی ہے، نہ ذاتی خوشی، پھر یاد آگیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آگاہ ہو جاؤ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر اک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا پس امام لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے سوال کیا جائے گا مرداپنے گھر والوں پر نگہبان ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے سوال کیا جائے گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے سوال کیا جائے گا اور کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا . آگاہ ہو جاؤ تم میں سے ہر اک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا ۔ (صحیح البخاری حدیث نمبر7138). حضرت عمر فاروق راضی اللّٰہ عنہ اکثر اوقات رات کو گشت پہ نکل جایا کرتے اپنی رعایا کے حالات واقعات معلوم کرنے ۔
ہمیں اک دوسرے کا دست بازو بن کے اس ذمہ داری کو بانٹنا ہے اور مل کے کوشش کرنی ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ آسانیاں ہوں گی ۔ ہمارا صوبائی نظم (شائستہ عمر) صاحبہ بھی موجود تھیں جو بار بار ناظمہ اور نائب ناظمات کو تسلی تشفی دے رہی تھی ۔۔ صوبائی نظم کو دیکھ کے یاد آیا۔ ماشاءاللہ یہ اتنے اچھے لوگ چہرے کسی میک اپ سے پاک اور پر نور مسکراتے چہرے کسی اور ہی جہاں کا نظارہ کروا رہے تھے ۔ بار بار دل میں خیال آیا کہ یا اللہ یہ آج کے دور کے ہی لوگ ہیں یا کسی اور جہاں سے کچھ عرصے کے لئیے اتارے گئے ہیں ۔ الحمد للّٰہ پھر تسلی ہوئی کہ للہیت کے رستے اتنے ہی پر نور اور ہمہ وقت چاک وچوبند ہوتے ہیں ۔ اللّٰہ رب العالمین ہمارے سابقہ نظم سے خوش ہو اور نئے نظم کی قدم قدم پہ حفاظت کرے اور لمحے لمحے پہ ساتھ دےآمین ثم آمین۔
حق نے کی ہیں دوہری دوہری خدمتیں تیرے سپرد
خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے
تبصرہ لکھیے