"گریٹر اسرائیل" وہ ٹرک کی بتی ہے، جس کو ایرانی پراکسیز اور 'نجم سیٹھی' جیسے ٹاوٹ جذباتی مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
(موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اسے تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں)
جدید صہیونیت کے بانی "تھیوڈور ہرزل" (Theodor Herzl) نے 1896 میں یورپی ملک آسڑیا کے شہر ویانا سے یہودی ریاست (the jewish state) نامی ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس نے پفلٹ میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ 'اگلے پچاس سالوں کے دوران ایک یہودی ریاست عالمی نقشے پر ضرور وجود میں آجائے گی۔ پھر اپنی عظیم تر صورت میں اس کی سرحدیں دریائے نیل سے لے کر دیائے فرات تک اُن تمام علاقوں پر محیط ہو جائیں گی، جہاں ماضی میں کبھی بھی یہودی آباد رہے ہیں۔'
دلچسب امر یہ ہے کہ 1880ء تک پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد محض 5 ملین تھی۔ ان میں سے 75 فیصد روس، پولینڈ اور بلقان کی ریاستوں میں پائے جاتے تھے، 15 فیصد وسطی یورپ میں رہتے تھے، آٹھ فیصد وسط ایشیا اور ہندوستان میں تھے۔ جبکہ پورے مشرق وسطی میں دنیا بھر کی یہودی آبادی کا دو فیصد سے بھی کم موجود تھے۔ ارضِ فلسطین کی حدود میں انکی ایک بھی مستقل آبادی نہیں تھی۔
مانا جاتا ہے کہ "تھیوڈور ہرزل" کی اس 'یہودی ریاست' کا شوشہ دراصل مغربی استعماری طاقتوں برطانیہ اور فرانس کی جانب سے روس اور خلافت ترکی کو دباو میں لانے کا ہتھکنڈا تھا۔ چونکہ "مجوزہ گریٹر اسرائیل" میں دعویٰ کردہ تمام علاقے ترک خلافت کے ماتحت تھے۔
دوسری جانب زارِ روس نے 1847میں 'بحر ارال' کے شمال کی طرف جس پیشقدگی کا آغاز کیا تھا وہ خیوا، تاشقند، سمرقند، کوکند اور بخارا پر قبضہ کرتے ہوئے 1881 تک 'بحیرہ کیسپین' کو عبور کر کے موجودہ آزربائیجان تک پہنچ چکی تھی۔ جہاں سے دریائے فرات محض چند سو کلومیٹر دور تھا۔
بعد میں اندونی صورتحال کی وجہ سے روس مزید پیش قدمی کے قابل نہیں رہا تو استعماری طاقتیں بھی مجوزہ 'یہودی ریاست' سے کنارہ کش ہو گئیں۔ 1903 میں سویزر لینڈ کے شہر باسل (Basel) میں منعقدہ 'چھٹی عالمی صہیونی کانگریس' میں خود "تھیوڈور ہرزل" نے بتایا کہ برطانوی حکومت مشرق وسطیٰ کے بجائے یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے یوگنڈا میں 6000مربع میل کا ایک بے آباد علاقہ دینے پر بمشکل رضا مند ہوئی ہے۔ (اسے تاریخ میں Uganda Scheme کہا جاتا ہے)۔
کہا جاتا ہے کہ "تھیوڈور ہرزل" اس صورتحال سے اسقدر مایوس ہوا تھا کہ چند مہینے بعد دل کے دورے سے 44 سال کی عمر میں ہلاک ہو گیا تھا۔
البتہ پہلی جنگ اعظیم دوران برطانیہ کو یہودی سرمائے کی ضرورت پڑی تو 2 نومبر 1917 کو برطانوی وزیر خارجہ "آرتھر جے بالفور" نے سرکاری طور پر فلسطین کو یہودیوں کے لئے وطن کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔
اس سے قبل ہی 16 مئی 1916 کو حکومت برطانیہ اور فرانس کے درمیان جنگ عظیم اول کے بعد اور سلطنت عثمانیہ کے ممکنہ خاتمے کی صورت میں اپنے اپنے مقبوضہ علاقوں کے تعین کے لیے خفیہ 'سائیکوس-پیکوٹ معاہدہ' (Sykes–Picot Agreement) طے پا چکا تھا۔
اسی معاہدے کے تحت 'برطانوی انتداب' کے تحت "حیفہ سے سینائی تک اور دریائے اردن کے مغربی کنارے سے بحیرہ روم تک کے علاقوں پر مشتمل ریاست فلسطین قائم کی۔ اور اس میں یہودیوں کو آباد ہونے کی آزادی دی۔ پھر 29 نومبر1947 میں اسے دولخت کر کے دو الگ ریاستوں فلسطین اور اسرائیل میں تقسیم کر دیا۔ اس کے بعد 1967 میں اسرائیل نے فلسطین کے سارے علاقے کے علاوہ مصر کے غزہ اور شام کی گولان کی پہلاڑیوں پر بھی قبضہ کر لیا۔
آج 2024 میں اسرائیل کی کل آبادی 93 لاکھ 87 ہزار ہے۔ جس میں یہودی صرف 72 لاکھ ہیں۔ اسرائیل میں فی مربع کلومیٹر صرف 434 لوگ رہتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں یہودی ابادی ڈیڑھ کروڑ تک ہے۔ جن میں تقریبا 15 فیصد آرتھوڈکس یہود 'ریاست اسرائیل' کو خدا سے دشمنی کی علامت سمجھتے ہیں۔
اسرائیل کے پالیسی سازوں نے 1967 کے بعد سے ہی اس خطرے کو بھانپ لیا تھا کہ انتہائی مختصر آبادی کے ساتھ بڑے خطہ زمین پر دائمی قبضہ برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے 1973 میں 'جنگ کپور' کے بعد اسرائیل مصر کے سینائی اور شام کی گولان پہاڑیوں کے بڑے حصے سے دستبردار ہو کر پیچھے ہٹ گیا تھا۔
اس جنگ کے بعد اسرائیلی حکومت نے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ایک "تزویراتی منصوبہ بندی" کی منظوری دی۔ اسرائیلی 'انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانسڈ سٹریٹیجک اینڈ پولیٹیکل اسٹڈیز' کے زیر اہتمام مختلف شعبوں کے ماہرین نے چھ سال کی عرق ریزی کے بعد ایک منصوبہ تیار کیا گیا۔ جس کو 1980 میں اسرائیلی پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا۔ جہاں مزید مسلسل دو سال تک بحث مباحثے کے بعد اس کی منظوری دی گئی۔
فروری 1982 میں اُس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے مشیر اسرائیلی وزارت خارجہ کے سابق سینئر عہدیدار "اوڈید ینن" (Oded Yinon) نے اس منصوبے کے خدوخال 'یوروشلم پوسٹ' اخبار میں چھپنے والے اپنے قسط وار مضمون میں تحریر کیے تھے۔
اسی مناسبت سے اس منصوبے کو "ینون پلان" (The Yinon Plan) کہا جاتا ہے۔
منصوبے کے مطابق۔۔۔۔
1- یہود کے قومی وطن اسرائیل کے مستقل تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ
موجودہ مسلمان ممالک کی حکومتوں سے ہر ممکن طریقے سے ریاست اسرائیل کو تسلیم کرایا جائے۔
2- عرب دنیا اور دیگر مسلمان ممالک کو، نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی پوری کوشش کی جائے تاکہ اسرائل کے مقابلے میں کوئی مضبوط ملک باقی نہ رہے۔
اس سلسلے میں مصر کی شمالی سرحدوں پر ایک عیسائی قبطی ریاست کے قیام عمل میں جائے۔
لبیا کو قبائیلی بنیادوں پر تین ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے۔
لبنان کو شمالا جنوبا شعیہ اور سنی ریاست میں تسیم کیا جائے۔
شام میں شعیہ، علوی اور دروز علاقوں پر مشتمل الگ ریاست قائم کی جائے۔
شام، عراق، ایران اور ترکی کے کرد علاقوں پر مشتمل ایک الگ ریاست قائم کی جائے۔
ایران کے عرب علاقون کو عراق میں شامل کر کے ایک الگ شعیہ ریاست قائم کی جائے۔
سعودی عرب میں حجاز پر مشتمل ویٹیکن طرز کی ایک خود مختار ریاست قائم کی جائے۔
ایرانی اور پاکستانی بلوچستان پر مشتمل الگ بلوچ ریاست بنائی جائے۔
پاکستانی اور افغانی پشتون علاقوں پر مشتمل ایک ریاست بنائی جائے۔
3- اس بات کو یقینی بنایا جائے عرب دنیا اور دیگر مسلمان ملکوں میں ایسے حالات پیدا کیے جائیں اور قانون سازی کرائی جائے تاکہ وہاں کوئی اسرائیل مخالف حکومت قائم نہ ہو سکے۔ اگر کوئی خطر ناک حکومت قائم ہو جائے تو جس قدر جلد ممکن ہو اُس کے خاتمے کو یقینی بنانے کے پیشگی اقدامات لازمی ہونے چاہیں۔
4-مسلمان ممالک میں جدید ٹیکنالوجی اور بلخصوص عسکری ٹیکنالوجی کی مہارت کو منتقل ہونے سے روکا جائے۔ بلخصوص ایٹمی میدان میں مہارت کو روکا جائے۔ ایٹمی پروگرام کی پیش رفت کو روکنے کے لیے سبوتاژ کی کاروائیوں اور براہ راست حملے سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔
5- اسلامی ذہن رکھنے والے نوجوانوں کی حساس شعبوں میں اعلیٰ تعلیم اور وظائف کے حصول میں حوصلہ شکنی کی جائے۔ مہارت حاصل کر لینے والوں کو فوری 'ختم' (eliminate) کر دیا جائے۔
6- عرب اور مسلمان ممالک کو مسلسل داخلی انتشار میں مبتلا رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس سلسلے میں سخت گیر انتہا پسند اور اعلیحدگی پسند گروہوں کی مدد کی جائے۔
7- مسلمان ملکوں کو معاشی طور پر کمزور اور یہودی سرمایہ دار اداروں کا دست نگر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ انکی ریاستی پالیسیوں کو عالمی اداروں کی پابندیوں اور معاشی ادروں کے اثر و رسوخ سے کنٹرول کیا جائے۔
8- تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کو سائنسی ترقی بلخصوص حساس ٹیکنالوجی میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر سرمایہ لگانے سے روکا جائے۔ کوشش کی جائے کہ یہ صرف کنزیومر اکانومی ہی رہیں۔
9- یوروشلم (بیت المقدس) کو ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔
10- فلسطین نام کی ریاست کو اقوام عالم اور عالمی اداروں میں قانونی حیثیت ملنے کی ہر صورت کو روکا جائے۔ کوشش کی جائے کہ فلسطینیوں کا زیادہ سے زیادہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سے انخلا ہو سکے۔
سال 1980 سے یہ منصوبہ ریاست اسرائیلکی آفیشل پالیسی کا حصہ ہے۔ بعض تحقیق کاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ نے سویت یونین کے خاتمے کے بعد جارج بش کے دور میں اس "Yinon Plan" کو اپنی آفیشل پالیسی کا حصہ بنایا تھا۔ جس پر تیزی سے عمل درامد جاری ہے۔ 1980 اور پھر 1992 کے بعد کے عالمی حالات کا مشاہدہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔
ایسے میں اگر 1886 کے عملا ناممکن "گریٹر اسرائیل" کو کچھ افراد اور ادارے ہائی لائیٹ کر تے ہیں تو وہ دراصل ۔۔۔۔ موجودہ وقت میں جاری "Yinon Plan" کو مسلمانوں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے