ہوم << داستانِ اندلس – حصہ اول – ڈاکٹر تنویر زبیری

داستانِ اندلس – حصہ اول – ڈاکٹر تنویر زبیری

میڈرڈ کے ہوائی اڈے سے ہم نے گاڑی مستعار لی موسم قدرے خنک۔ مگر خوشگوار تھا۔۔ Toledo (طلطیلہ) جو ایک زمانہ اسلامی سپین کا اہم شہر رہا ۔۔ محض ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہاں دن کا بڑا حصہ گزارنے کے بعد ہمارا اگلا مستقر قرطبہ تھا۔۔۔ وہ افسانوی شہر جس سے بچپن کی یادیں جڑیں تھیں۔۔۔ نسیم حجازی کے لکھے ناولوں کے زندہ کردار ذہن میں از سر نو تازہ ہوگئے۔۔ آج کی نوجوانوں کے کےلئے تو وہ ایک بھولا بسرا لکھاری ہے۔۔۔۔مگر ہماری نسل کے ذہنوں پر انکی تصانیف کے مطالعہ سے اسلاف کی عظمت یورپ میں تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے بڑا مرکز.اندلس (Andalusia)۔کے عروج و زوال کی سبق آموز داستانیں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئیں ۔۔۔ یوسف بن تاشفین ۔ شاہین ۔ کلیسا اور آگ ۔ اندھیری رات کا مسافر ۔۔ جیسی زندہ کتابیں ۔ اندلس میں مسلمانوں کی لاثانی عظمت ۔ اموی خاندان کی شاندار روایات ۔ یورپ کے انتہائی اہم اور زرخیز خطہ ہر سیکنڑوں برس کی لازوال حکومت ۔ سائنس ۔ فن تعمیر ۔ فنون لطیفہ اور علم ودانش میں اوج کمال کا حصول ۔ صلیبیوں کے قصے ۔اپنوں کی غداری۔ محلاتی سازشوں اور کلیسا کی پر پیچ سازشوں کو بے نقاب کرنے میں بے مثال تھیں ۔انہی داستانوں میں رومانیت کا اپنا الگ رنگ تھآ ۔۔ قوس قزح کی مانند ۔۔ تحیر انگیز۔۔۔اور شوخ و شنگ ۔۔۔
سات مارچ 2018 کی قدرے سرد شام تھی۔۔ ابھی موثر وے پر نکلے ہی تھے کہ ساتھ ہی شدید بارش نے آن گھیرا ۔ساڑھے تین سو کلومیٹر کا سفر درپیش تھا۔۔ شام کا دھندلکا ۔۔۔ اجنبی سڑکیں اور ہسپانوی میں لکھے سائن بورڈز ۔۔ سفر کو اور بھی طویل کررہے تھے ۔۔ ہم رات گئے قرطبہ۔۔ اپنے 'ہوٹل الکا زار' پہنچے ۔۔۔ سارا شہر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ ریستوران اور کھانے پینے کی دکانیں ۔۔سب بند ملیں ۔۔ بھوک زوروں پر تھی ۔۔ راستہ بھر شدید طوفانی بارش کے باعث کہیں رکنے کا حوصلہ ہی نہ بن پڑا۔۔ گھڑی دو گھڑی گیس اسٹیشن پر گاڑی میں پٹرول ڈلوایا اور وہیں کافی اور فرنچ فرائز پر اکتفا کیا ۔۔ قرطبہ کی گلیوں میں ۔کچھ بے معنی تلاش اور مٹر گشت کے بعد بے نیل و مرام واپس پلٹ ائے۔۔۔ ہوٹل کا مالک اور ریسپنشسٹ فرڈینینڈ ال گپو۔ تھا۔۔۔اپنے نام کی مانند خوش مزاج اور گپی تھا ۔۔اس نے ہمیں کافی مقدار میں ڈبل روٹی اور دہی کا ایک ڈبہ لا دیا اور بولا ۔۔۔ صبح تک گذارا کر لیں۔۔۔بھلا ہو ہماری بیگم کا۔۔۔ جنہوں نے لاہور سے چلتے ہوئے۔۔۔ میٹرو کیش اینڈ کیری سے پیکیجڈ کھانے کے کئی پیک ساتھ لے لئے تھے۔ رات کے پچھلے پہر مائیکرو ویو میں پالک گوشت اور حلیم گرم کرکے کھانا کسی من و سلویٰ سے کم نہ تھا ۔۔ رات خواب میں بھی میں قرطبہ کی گلیوں میں گھومتا رہا ۔۔۔
ایک سجدہ بجا لانے کی آرزو بچپن سے میری پیشانی میں مچلتی تھی ۔۔ مسجد قرطبہ میں سربسجود ہونے کی یہ تڑپ میری جبیں نیاز میں نہ جانے کب سے خوابیدہ تھی۔۔شاید سکول کے دنوں کی۔۔جب مرحوم حفظ جالندھری کے یہاں کلام اقبال سے نظم 'مسجد قرطبہ' کی تشریح ان سے سننے کو ملی اور نماز کی ادائیگی کا قصہ سنا ۔۔ ہوٹل کے خؤش مزاج مالک نے ہمارا ناشتہ علی الصبح تیار کروادیا تھآ ۔۔ مسجد قرطبہ دیکھنے کی تمنا تو میرے مرشدِ اقبال کو بھی بہت تھی۔۔۔ میری پیشانی میں کندہ سجدہ تو محض معصوم سی خواہش تھی۔ جبکہ مرشد حضرت بلال حبشی کی مانند اذان بلند کرتا چاہتے تھے ۔۔اور ساتھ ساتھ ۔ نماز کی ادائیگی بھی مقصود تھی ۔1932۔ میں میڈرڈ ایک کانفرنس میں مقالہ پڑھا ۔واپسی پر اندلس کی سیاحت کی ٹھانی خاص طور پر مسجد قرطبہ کی زیارت کے لئے پہنچے۔۔ نماز ادا کرنے کی اجازت چاہی۔ مگر لاٹ پادری نے انکار کر دیا ۔۔ تب قرطبہ میں متعین برطانوی قونصل جنرل سے پروفیسر آرنلڈ کیے توسط سے رابطہ کیا اور بلدیہ نے نماز پڑھنے کی اجازت دی اور سقوط قرطبہ کے سات سو برس بعد قرطبہ کی گلیوں میں ایک مرد قلندر کی گرج و آہن بھری آواز گونجدار اذان بلند ہوئی۔۔۔ اقبال نے دوگانہ نماز ادا کی اور دیر تک سجدہ ریز رہے۔۔۔
ماضی سے حال کا سفر دوبارہ شروع ہوا۔۔
ساڑھے سات بجے ہم مسجد قرطبہ جسے Cathedral Mosque بھی کہا جاتا ہے ۔۔ کے صدر دروازے پر لائن میں کھڑے تھے ۔۔یہ مسجد 751 عیسوی میں خلیفہ عبد الرحمن کے دور میں تعمیر ہوئی ۔ اسکی توسیع اور اور اضافی تعمیرات اگلے ایک ڈیڑھ سو سال جاری رہیں ۔ چودہ سو خوبصورت ستونوں پر ایستادہ یہ عمارت جمالیاتی حسن کا مرقع اور مسلم فن تعمیر کا شاہکار ہے ۔ شاہ فلسطین نے ستونوں کی تعمیر کے لئے ہزاروں من سرخ سنگ مرمر کا قیمتی پتھر بھجوایا ۔۔۔ سونے کے پانی سے خط کوفی میں قرآنی آیات کی کندہ کاری شامی اور کوفی ماہرین کی شبانہ محنت اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔۔
بے ادبی کے خدشہ سے مسجد میں داخل ہوتے وقت جوتے اتارنے کو من چاہا ۔۔مگر وہاں ننگے پاؤں پھرتے کی ممانعت ہے ۔۔ ہمارے گروپ میں چند مسلمان خواتین وحضرات بھی شامل تھے ۔۔۔ ایک راہب انکی طرف متوجہ ہوا اور بولا کہ یہ گرجا گھر ہے اور یہاں نماز کی ادائیگی کی اجازت نہیں ۔۔۔ ان میں ایک قدرے رعب دار اور عمر رسیدہ خاتون یورپی لگتی تھیں ۔۔ انہوں نے ہسپانوی زبان میں ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ داخلہ ٹکٹ پر لفظ Mezquite یعنی مسجد لکھا ہے اور یہ ہمارے اجداد نے تعمیر کروائی ۔۔ اس پر ہمارا بھی برابر کا حق ہے ۔۔ مگر ساتھ کھڑے سیکورٹی گارڈ نے سختی سے منع کردیا ۔۔ اور منتبہ کیا کہ خلاف ورزی پر وہ کاروائی کا حق بھی رکھتے ہیں ۔۔ مسلمان نظر آنے والے سیاحوں کے ساتھ راہب اور سیکورٹی والے گویا چپک گئے۔۔ ہم نے مسجد کے اطراف دیکھے ۔اسکی خوپصورت محرابیں اور منبر۔ مسجد کی تاحد نگاہ وسعت اور آنکھوں کو خیرہ کرتی بلندی کا حسین امتزاج نظر آیا ۔ ۔ بیچ مسجد ۔۔ چرچ کی سروس کے لئے نشستیں مخصوص تھیں اور آرکسٹرا ہلکی دھنیں بجا رہا تھا۔۔۔ اسی دوران ہمارے ساتھ چلنے والی راہبہ کس اور جانب چلی گئی ۔۔ بیگم نے اشارہ کیا اور میں نے نماز کیلئے نیت باندھ لی۔ زبان سے اللہ اکبر اور مالک کی کبریائی بیان کرنے کا اتنا لطف زندگی بھر نصیب نہیں ہوا ۔۔۔ دو رکعت نماز کی ادائیگی میں دو منٹ ہی لگے ۔ میں سجدوں کے بعد حالت تشہد میں تھآ کہ ایک سیکورٹی گارڈ بھاگتا ہوا میری جانب بڑھا اور مجھے اٹھنے کا اشارہ کیا۔۔وہ اونچی آواز میں مجھے ڈانٹ ریا تھا ۔۔میں نے تسلی سے سلام پھیرا اور اس کی کھا جانے والی نظروں کو نظر انداز کر کے باہر کی راہ لی ۔۔ دروازے پر مامور سیکورٹی انچارج کو میری شکایت واکی ٹاکی اور CCTV کیمرے کے ذریعے پہلے ہی ہوچکی تھی ۔۔۔ عمر رسیدہ بھاری بھرکم بھوری مونچھوں والا ناٹے قد کا مالک سارجنٹ مجھے خشمگیں نظروں سے گھور رہا تھا اس نے ایک رجسٹر میں میرے کوائف درج کئے ۔ مجھے یقین تھا کہ اب حوالات کی ہوا کھانا پڑے گی۔ بیگم کو حوصلہ دیا مگر شاید میری عمرِ اور پیشہ کے ناتے سزا میں تخفیف ہوئی ۔۔اور ۔۔ وارننگ دینے کے بعد ہمیں جانے کی اجازت ملی۔۔
اس ے قرار سجدہ سے سرور ۔ احساس بندگی اور قربت الٰہی کا بے پایاں اطمینان میرے رگ و پے میں سرایت کر گیا۔ آنکھوں سے سپاس وشکر کا سیل رواں جاری تھا۔ سیری کی اس کیفیت کو ۔۔ شاید الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔۔سجدے کے سفر میں۔۔۔ حضوری کی کیفیت مجھے سات سو سال پہلے کے قرطبہ میں لے گئی ۔۔ جب پانچ لاکھ مسلمانوں کے اس عظیم الشان شہر میں میں ان جلیل القدر علماء- ہسپانوی زعماء اور مغربی افریقہ اور مقامی مسلمانوں کے جلو میں ان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہورہا ہوں۔۔ ان بلند ستونوں تلے حجاز مقدس ۔ دمشق ۔ بغداد اور بصرہ کے فارغ التحصیل جید علماء کے اردگرد سینکڑوں طالبعلم زانوئے ادب تلمذ تہ کیے ہوئے تھے۔۔ جب یورپ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا ۔ تب اندلس تہذیب و تمدن کی بلندیوں پر فائز تھا۔۔ مسجد سے کچھ فاصلے پر اموی دور کا ایستادہ باغ hanging garden اور حمام تھے۔۔ انگریزی زبان میں گائیڈ سیاحوں کو بتا رہی تھی کہ ہسپانوی مسلمان ایک ہزار سال قبل عمومی صفائی اور پاکیزگی personal hygiene میں آج کی ترقی یافتہ اقوام سے بھی آگے تھے ۔ ۔۔۔ میں بھاری قدموں سے مسجد قرطبہ کے برابر کے باغ میں ایک بنچ پر جا بیٹھا اور اقبال کی مسجد قرطبہ پر لکھی نظم ذہن میں پھر سے تازہ ہوگئی ۔۔کہتے ہیں کہ اقبال مسجد قرطبہ میں نماز کی ادائیگی کے بعد زاروقطار رونے لگے اور روتے روتے بے ہوش ہوگئے ۔۔
جب آپ ہوش میں آئے تو آنکھوں سے آنسو نکل کہ رخساروں پر سے بہہ رہے تھے اور سکونِ قلب حاصل ہو چکا تھا۔ جب آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو یکایک اشعار کا نزول ہونے لگا، پوری دعا اشعار کی صورت میں مانگی
ہے یہی میری نماز ، ہے یہی میرا وضو
میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو
صحبت اہل صفا ، نور و حضور و سرور
سر خوش و پرسوز ہے لالہ لب آبجو
راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق
ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو
میرا نشیمن نہیں درگہ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تو ، شاخ نشیمن بھی تو
تجھ سے گریباں مرا مطلع صبح نشور
تجھ سے مرے سینے میں آتش 'اللہ ھو
تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ
تو ہی مری آرزو ، تو ہی مری جستجو
پاس اگر تو نہیں ، شہر ہے ویراں تمام
تو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو
پھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کہ میں
ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو
چشم کرم ساقیا! دیر سے ہیں منتظر
جلوتیوں کے سبو ، خلوتیوں کے کدو
تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
اپنے لیے لامکاں ، میرے لیے چار سو
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرف تمنا ، جسے کہہ نہ سکیں رو برو