ہوم << ملتِ اسلامیہ کے محافظ ، حسن البنا - معوذ حسن

ملتِ اسلامیہ کے محافظ ، حسن البنا - معوذ حسن

بیسویں صدی کے آغاز میں ہی مصر میں مغربیت اور سیکولرازم نے اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دی تھیں۔ خلافتِ عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد مصر ، شام اور مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ممالک برطانیہ کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ برطانوی نو آبادیاتی نظام کا اصول یہ تھا کہ وہ جس ملک پر بھی اپنا قبضہ جماتا سب سے پہلے وہاں کی ثقافت اور مذہبی اقدار کا قلع قمع کرتا،یہ غلام بنانے کا پہلا اصول تھا۔ جب کسی قوم کی ثقافتی اقدار کو تباہ کر دیا جائے اور وہاں فاتح اپنی ثقافت نافذ کرنے کی سعی کرے تو وہ قوم آزاد ہونے کے باوجود غلام رہتی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں نو آبادیاتی نظام کے باعث قوم پرستی کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ 14 اکتوبر 1906 کو مصر کے شہر قاہرہ میں ایک ایسا ذہین دماغ پیدا ہوا، جِس نے صحیح معنوں میں امتِ مسلم کو یکجا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔اِسی جرم کی پاداش میں اُنہیں شہید کر دیا گیا، تاہم اُن کے افکار اور نظریات نے پوری مسلم دُنیا کو یک جان و یک قالب کر دیا۔ نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کی سرزمین تک، مسلمان ایک ہی قوم بن گئے۔ اُس عظیم رہنما کا نام تھا "حسن البنا" جِنہوں نے "اخوان المسلمین" کی بنیاد رکھی۔

حسن البنا 14 اکتوبر 1906 کو نیل کے ساحل کے پاس "قاہرہ" کے مضافاتی گاؤں"محمودیہ " میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والدشیخ عبدالرحمٰن البنا ایک مؤذن اور امام مسجد تھے۔ وہ امام احمد بن حنبلؒ کے پیروکاروں میں سے تھے، اپنے وسیع علم کی بدولت وہ نہ صرف قاہرہ بلکہ مصر بھر کے مذہبی حلقوں میں معروف تھے۔حسن البنانے ابتدائی تعلیم گاؤں کے ہی ایک مدرسے سے حاصل کی۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد "دارالعلوم" قاہرہ میں وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے چلے گئے۔ دارالعلوم قاہرہ میں اس زمانے میں جدید علوم پڑھائے جاتے تھے،اسلام کو جدید خطوط پر استوار کرنا حسن البنا کا وژن تھا۔

حسن البنا ابھی 13 سال کے ہی تھے کہ اُنہوں نے ملکی سیاست میں قدم رکھا دیا اور 1919 کے "مصری انقلاب" کا حِصہ بن گئے۔ مصری انقلاب ایک "قوم پرست" تحریک تھی جِس میں حسن البنا نے بڑھ چڑھ کر شرکت کی اورعوام میں آزادی کے جذبے کو پروان چڑھانے کے لیے جریدے اور پمفلٹس لکھنا شروع کیے، حسن البنا مصر کے اعلیٰ خاندانوں سے تو نہیں تھے تاہم اُن کے والد کی ملک بھر میں عزت کی جاتی تھی۔

1924 میں جب اُن کے خاندان کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا تو وہ قاہرہ منتقل ہو گئے اور اپنی تعلیم جاری رکھی۔اُس وقت مصر میں قوم پرستی ،سیکولر ازم اور لبرل ازم کے نظریات پروان چڑھ رہے تھے۔مصر کے مذہبی حلقے اِن نظریات کےخلاف تھے تاہم کسی جانب سے بھی اِس کے خلاف کوئی واضح حکمتِ عملی تیار نہیں کی گئی تھی۔

حسن البنا نے اپنی آنکھوں کے سامنے "خلافتِ عثمانیہ " کے ٹکڑے ہوتے دیکھے تھے، گو خلافتِ عثمانیہ بہت کمزور تھی تاہم وہ مسلم اتحاد کی علامت سمجھی جاتی تھی۔حسن البنا نے جب دیکھا کہ امتِ مسلمہ ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی ہے تو اُنہوں نے قوم پرستی کی تحریک کو خیرباد کہا اور اتحاد بین المسلمین کا نظریہ اپنایا، وہ سمجھتے تھے کہ "لا الہ الا اللہ" پڑھنے والا ہر انسان ایک ہی قوم کا فرد ہے ، اور اُس قوم کا نام ہے "مسلم"۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُنہوں نے اسماعیلیہ کے ایک پرائمری اسکول میں بطور مدرس ملازمت اختیار کی۔ یہ علاقہ نہرِ سویز پر مصر ی ہیڈ کوارٹرز کے پاس واقع تھا، لہٰذا ، دوسرے ممالک کے لوگوں کا یہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اُنہوں نےاپنے اسکول سے ہی چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر "اخوان المسلمین " کا تنظیمی ڈھانچہ تیار کیا اور اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔اُنہوں نے رسالوں، کتابوں اور خطبات کے ذریعے برطانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف عوام کو قائل کرنا شروع کر دیا۔ حسن البنا نے مصر میں پہلی مرتبہ اسٹڈی سرکلز کی روایت کا آغاز کیا، تا کہ مطالعہ کرنے اور ذہنوں میں موجود اشکال کو دور کرنے کا رجحان پیدا ہو۔

اُن کی تعلیمات میں مسلم وحدت کا پیغام ملتا تھا، وہ ایک ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے جو آخری پیمبرﷺ کی ریاستِ مدینہ کے خطوط پر استوار کی جا سکے۔ وہ اسلام کو ایک جدید سانچے میں ڈھالنا چاہتے تھے،اور مسلمانوں کو باہم متحد کرنا چاہتے تھے۔

اُن کے مطابق ریاست میں شرعی قوانین کا نفاذ از حد ضروری تھا لہٰذا اُنہوں نے زکوٰۃ ، عشر، اور اسلامی جمہوری نظام کو اپنی تعلیمات میں خصوصی اہمیت دی۔ شروع میں تو اخوان المسلمین میں چند لوگ ہی شامل تھے تاہم اپنے قیام کی 1 دہائی کے بعد ہی اِس میں کم و بیش 5 لاکھ افراد شامل ہو چکے تھے اور متحرک ہو کر کام کر رہے تھے۔ برطانوی نو آبادیات سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اُنہوں نے مسلمانوں کی ایک ایسی خفیہ فوج کے تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل کی جو دُنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے کام کر سکے۔
" اسلام کی دعوت پر لبیک کہو، سپاہی بنو، کیوں کہ اِسی میں ملک کی بقا اور امت کی عزت ہے، بالآخر ہم تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں۔"

اسماعیلیہ میں حسن البنا نہ صرف اسکول بلکہ قہوہ خانوں میں بھی اپنے منشور کو لوگوں کو سامنے رکھا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں مصر کے قہوہ خانے ملک کی سیاست میں ڈرامائی انداز میں متحرک تھا، لہٰذا اُن کے منشور کو بہت جلد تقویت ملی،دوسری جانب اُن سے لوگوں کے اختلافات بھی دِن بدن بڑھنے لگے۔لہٰذا اُن کے بہت سے لوگ دُشمن بھی بن گئے۔ ایسا وقت بھی حسن البنا پر آیا جب اُنہوں نے قہوہ خانوں میں جانا کم کر دیا۔

اخوان المسلمین کا سب سے عمدہ پہلو اِس کا منظم تنظیمی ڈھانچہ تھا ۔ ایسا تنظیمی ڈھانچہ جِس میں کہیں کوئی خلا نہیں تھا،ہر رکن اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں بخوبی آگاہ تھا اور یہی بات حکومت کو مسلسل پریشان کر رہی تھی۔
1948 میں جب عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو اُس میں اخوان کے کارکنان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔برطانوی نواز مصری حکومت نے "اخوان " کو کالعدم تنظیم قرار کر دیا اور کارکنان کے خلاف کاروائیاں تیز کر دیں۔ اُس وقت کے مصری وزیرِ اعظم محمود النقراشی پاشا نے اخوان کے خلاف ریاست کے اداروں کو متحرک کیا۔جہاں ایک طرف اخوان کے سپاہی یہودیوں اور انگریزوں کے خلاف فلسطین میں برسرِ پیکار تھے تو دوسری جانب اخوان کو اپنے ملک میں بھی کئی محاذوں کا سامناتھا۔اِسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے اُن کے قتل کی سازش تیار کی ۔حسن البنا رات کو اپنی گاڑی پر سفر کر رہے تھے جب اُنہیں بے رحمی سے گولیاں ماری گئیں۔زخمی ہونے کی وجہ سے اُن کاخون بہت زیادہ بہہ چُکا تھا تاہم طبی امداد سے اُن کی جان بچائی جا سکتی تھی، لیکن حکومت کی جانب سے اُنہیں جان بوجھ کر طبی امداد فراہم نہ کی گئی جِس کے باعث وہ شہید ہو گئے۔

یہ سانحہ 12 نومبر ، 1949 کو پیش آیا۔ اُس وقت اُن کی عمر بیالیس سال تھی۔ حسن البنا کی شہادت سے اخوان المسلمین تو ختم نہ ہوئی ، تاہم تحریک کا بڑا ستون گر گیا۔ حسن البنا نے مختلف رسالوں میں 2000 سے زائد مضامین لکھے۔اُن کی خود نوشت "مذکرات الدعوة والداعیة" آج بھی دُنیا بھر میں مقبول ہے۔

Comments

Click here to post a comment