ہوم << حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

مسلمانوں کی فوج کے سپریم کمانڈر کے حضور حاضری کا قصہ
جنہوں نے دنیا کی دو سپر پاورز کو شکست دی

حضرت معاذ بن جبل رضی تعالیٰ عنہ کا دیدار کر کے نکلے تو سورج تقریباً نصف النہار پر تھا دھوپ کی شدت اور حدت میں خاصا اضافہ ہو چکا تھا لیکن یہ شدت ناگوار نہیں تھی وادی اردن کے نشیب و فراز میں دور دور تک
پھیلےانگور اور زیتون کے باغات بہت خوبصورت لگ رہے تھے
یہ وادی اپنی خوبصورتی اور سبزے کی بہتات کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے اس سفر کے دوران ابھی تک ہم نے ایسا سر سبز اور خوبصورت علاقہ نہیں دیکھا تھا نہ اسرائیل میں اور نہ اردن میں
حمزہ نے جب یہ بتایا کہ بابا یروشلم یہاں سے صرف بیس پچیس کلومیٹر دور ہے تو مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا
لیکن جب بھی ہماری کار کسی پہاڑ ی کی چوٹی پر پہنچتی تو سامنے دریائے اردن اور بحیرہ مردار کے اس پار مقبوضہ فلسطین نظر آنے لگتا۔
اسرائیلی موبائیل فون کی سم اب پوری طرح کام کر رہی تھی اسی نیٹ ورک network پر میں نے آج صبح میدان یرموک سے اپنی لائیو وڈیو شئیر کی تھی۔
وہ کہہ رہا تھا کہ وادی اردن اس ملک کی خوبصورت ترین اور زرخیز ترین وادی ہے اور اس صحرا کو اس سبزے میں تبدیل کرنے کا سب سے بڑا سہرا ان پاکستانی کاشتکاروں کو جاتا ہے جو بھٹو کے دور میں ایک معاہدے کے تحت سندھ اور بلوچستان سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے آج ان کی دوسری اور تیسری نسل یہاں بستی ہے
پچھلی رات عمان کے واحد پاکستانی ریستوران میں ہمیں جو لڑکا ملا تھا وہ غالباً انہی کاشتکاروں کی تیسری نسل سے تھا۔
اب ہم کہاں جارہے ہیں ؟
میں نے حمزہ سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ اب ہم حضرت ابو عبیدہ ؓ بن جراح کے مقبرے پر جائیں گے تو میں چونک گیا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
ان لمحات کا مجھے جانے کب سے انتظار تھا مجھے یقین نہیں آرہا تھا مجھے اس جلیل القدر صحابی کے حضور باریابی کی سعادت نصیب ہونے والی ہے ۔
جنہیں اللّٰہ نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت سنا دی تھی میرا صبر جواب دینے لگا۔
“ہمیں وہاں پہنچنے میں کتنی دیر لگے گی “
تقربیاً چالیس منٹ میں ہم وہاں ہوں گے اس نے اپنے مخصوص اردو لہجے میں عربی کا ٹانکا لگاتے ہوا کہا
اور میں بے تابی سے ان لمحات کا انتظار کرنے لگا جب میں ان کے حضور حاضری دوں گا ۔
حمزہ اب بلال کو حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی تعالیٰ عنہ کے بارے میں بتا رہا تھا اس کی معلومات کا ذخیرہ بہت وسیع تھا ۔ پتہ نہیں وہ کہاں سے یہ سب پڑھنے کے لئے وقت نکال لیتا تھا ۔ مجھے اس کے علم پر رشک آنے لگا۔
وہ کہہ رہا تھا کہ حضرت ابو عبیدہ رضی تعالیٰ عنہ قریش کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے وہ ۵۸۳ ء کو مکہ میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام عامر بن عبداللّہ بن الجراح تھا ان کے داداقریش کے مشہور طبیب تھے۔
عبیدہ ان کے بیٹے کا نام تھا گو کہ ان کے والد کا نام عبداللّہ تھا لیکن وہ اپنے دادا اور بیٹے کی نسبت سے ابوعبیدہ بن جراح کہلاتے تھے ۔
ابو قتیبہ نے لکھا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ابو عبیدہ ؓ میری قوم کے امین ہیں لہٰذا تاریخ میں وہ “امین الامت “کے نام سے مشہور ہوگئے ۔
۲۸ سال عمر تھی ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام قبول کیا اور وہ بھی اگلے ہی دن مسلمان ہو گئے اور پھر پوری زندگی رسول اللّہ ﷺ کے لیے وقف کر دی ۔ رسول اللّہ ﷺ نے حکم دیا اور وہ حبشہ چلے گئے ۔ واپس بلایا ۔واپس آ گئے ۔ مدینہ کی طرف رخ موڑا ۔ وہ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔
غزوہ بدر میں والد کفار کی طرف سے سامنے آیا ۔ تلوار کا وار کیا اور اپنے والد کو قتل کر دیا ۔ یہ قربانی ایسی قربانی تھی کہ قرآن مجید کی آیت اتری اور یہ کارنامہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔
غزوۂ احد میں آنحضرت ﷺ زخمی ہوئے اور چہرہ مبارک میں زرہ کی دوکڑیاں چبھ گئیں ۔ محبوب تکلیف میں تھا۔ جب وہ ہاتھوں سے نہ نکل سکیں تو اپنے دانتوں سے کھینچ کر انہیں باہر نکال دیا اس کوشش میں سامنے کے دو دانت شہید ہوگئے ۔ لیکن کسے اپنے دانتوں اور چہرے کی خوبصورتی کی فکر تھی ؟ رسول اللّہ ﷺ کی محبت میں دو دانتوں کی کیا حثیت تھی ان کے لئے جان بھی نثارہوجاتی تو پرواہ نہ تھی۔
نبی اکرمؐ کے ساتھ ہر غزوہ میں شرکت کی ۔ آپؐ کے حکم پر ہر جنگ میں شریک ہوئے اور کام یاب بھی لوٹے ۔ وہ رسول اللہﷺ کے ان دس ساتھیوں(عشرہ مبشرہ) میں شامل تھے جنھیں زندگی میں جنت کی بشارت دی گئی تھی ۔ طبری نے لکھا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد خلافت کا مسئلہ کھڑا ہوا تو سقیفہ بنی ساعدہ کی عمارت میں ہونے والے اجلاس میں جب حضرت ابو بکر صدیقؓ کے نام پر اتفاق ہوگیا ۔ تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے حضرت عمر فاروقؓ یا حضرت ابو عبیدہ ؓ میں کسی ایک کو خلیفہ بنانے کی درخواست کی لیکن دونوں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی اور اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کو ہی خلیفہ بنانے پر اصرار کیا ۔ سقیفہ بنی ساعدہ پیغمبر محمد ﷺ کے دور میں مدینہ کی وہ عمارت تھی جہاں بنو خزرج کی ایک شاخ بنی ساعدہ اپنے اجلاس کیا کرتے تھے ۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں شام جانے والی فوجوں کے سپہ سالار تھے۔حضرت عمر فاروقؓ ان کی سادگی اور جرات کے مداح تھے۔ آپؓ خلیفہ بنے تو انہیں حضرت خالد بن ولید ؓ پر فوقیت دیتے ہوئے شام اور ایران کے اسلامی لشکر کا سپریم کمانڈر بنا دیا ۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوئے اور مسلمانوں نے ان کی کمان میں قیصر اور کسریٰ کی دونوں سلطنتوں کو اپنے گھوڑوں کے سموں تلے روند کر رکھ دیا۔
وہ آخر میں شام اور موجودہ اردن کے علاقے فتح کر رہے تھے ۔ اسلامی لشکر کا بڑا حصہ ان کی کمان میں تھا۔ لیکن پھر شام اور عراق میں قحط پڑ گیا ۔ فوج کشی بند کی اور لوگوں کو قحط اور خشک سالی سے نکالنے میں مصروف ہو گئے ۔ قحط ابھی رکا نہیں تھا کہ شام میں طاعون بھی پھیل گیا یہ عمواس کا طاعون کہلاتا ہے کیونکہ فلسطین کے اس چھوٹے سے گاؤں سے پھیلا جسےعمواس کہتے ہیں
لشکر دمشق میں تھا
آپؓ نے خود کو چھائونی تک محدود کر لیا ۔ حضرت عمر فاروقؓ شام کے دورے پر آئے ۔ سرحد تک پہنچے تو طاعون کی اطلاع آ گئی ۔ آپؓ نے واپسی کا اعلان کر دیا ۔ یہ خبر دمشق پہنچی تو گھوڑے پر بیٹھے اور سیدھے خلیفہ کے سامنے پیش ہو گئے ۔ مسکرا کر خلیفہ کو دیکھا اور کہا
’’عمرؓ تم اللّٰہ کی رضا سے بھاگ رہےہو‘‘
حضرت عمرؓ نے ان کی طرف دیکھا ۔ تھوڑی دیر سوچا اور پھر فرمایا
’’یہ بات اگر تمہاری جگہ کوئی اور کرتا تو مجھے قطعاً افسوس نہ ہوتا‘‘
وہ رکے اور پھر فرمایا۔
’’ہاں میں اللّہ کی رضا سے بھاگ رہا ہوں لیکن اللّہ کی رضا کی طرف‘‘
حضرت عمر فاروقؓ نے یہ بھی فرمایا۔ ’’رسول اللّہ ﷺ نے وبا کے علاقے میں داخل ہونے سے منع فرمایا تھا‘‘۔
حضرت عمرؓ نے انھیں مدینہ چلنے کا مشورہ دیا لیکن وہ مصیبت کی گھڑی میں اپنی فوج کو اکیلا چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے اور دمشق واپس لوٹ گئے ۔ طاعون دمشق بھی پہنچ گیا ۔ اسلامی فوج اس کی لپیٹ میں آگئی اور سپاہی بڑی تیزی سے لقمہ اجل بننے لگے۔
حضرت عمر فاروقؓ انھیں ہر صورت بچانا چاہتے تھے وہ انھیں اپنے بعد خلیفہ دیکھناچاہتے تھے ان کا خیال تھا پورے عالم اسلام میں ان جیسا تجربہ کار اور سمجھ دار شخص نہیں لہٰذاخلیفہ نے انھیں خط لکھ دیا ۔
وہ خط “ خط “ نہیں تھا ۔ حکم تھا اور اس حکم میں خلیفہ نے فرمایا تھا
’’ یہ خط اگر تم رات کو پاؤ تو صبح سے پہلے روانہ ہو جاؤ اور اگر تمہیں یہ خط دن کو ملے تو شام سے پہلے مدینہ کی طرف روانہ ہو جاؤ ‘ مجھے تمہاری فوری اور اشد ضرورت ہے‘‘
حضرت ابو عبیدہ ؓ کو خط ملا ۔ وہ خلیفہ کی نیت سے واقف تھے۔
وہ جانتے تھے خلیفہ انھیں بچانا چاہتے ہیں لہٰذا خلیفہ کو جواب لکھ دیا ۔
’’ میں جانتا ہوں آپؓ مجھے کیوں بلا رہے ہیں لیکن میں ان حالات میں اپنا لشکر نہیں چھوڑ سکتا‘‘ ۔
ساتھ ہی ایک حدیث بھی لکھ بھجوائی رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ ’’اگر کسی علاقے میں وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے ہرگز نہ نکلو‘‘ ۔
حضرت عمرؓ نے خط پڑھا تو آنسو آ گئے‘ دیکھنے والوں نے پوچھا۔
’’کیا ابوعبیدہؓ انتقال فرما گئے ہیں‘‘
جواب دیا ۔
“نہیں ابھی نہیں لیکن جلد فرما جائیں گے‘‘۔
وہ عشرہ مبشرہ تھے ۔ عالم اسلام کا دماغ بھی تھے اور دل بھی ۔
آپؓ واحد صحابی تھے جنھیں حضرت عمرؓ نے خط لکھ کر موت سے بھاگنے کی دعوت دی تھی لیکن آپؓ نے اطاعت امیر پر یقین کے باوجود خلیفہ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور یہ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری انکار تھا۔ انکار سن کر حضرت عمرؓ رو پڑے اور جوابی خط لکھاکہ
’’ اللّٰہ کے بندے پھر مہربانی کرو اورکسی اونچی جگہ پر منتقل ہو جاؤ ‘‘
یہ حکم مان لیا اور دمشق سے نکل کر جابیہ چلے گئے ۔ یہ علاقہ وادی اردن اور گولان ہائیٹس کے درمیان میدان یرموک کے قریب واقع ہے۔
صحت بخش مقام ہے لیکن موت ان کے تعاقب میں تھی ۔
۶۳۹ء میں طاعون کی لپیٹ میں آئے۔ چنددن بیمار رہے اور بیماری کے عالم میں ۵۵ سال کی عمر میں انتقال فرما گئے ۔ آپؓ کے بعد حضرت معاذ ابن جبل نے فوج کی کمان سنبھال لی
لیکن چند دن بعد وہ بھی طاعون کا شکار ہو گئے اور اس کے بعد تو جیسے قطار لگ گئی اسلامی لشکر کے آدھے جوان اس ناگہانی مصیبت کا شکار ہو گئے۔ الواقدی سے روائیت ہے کہ پچیس ہزار مجاہد اس موذی وبا کا نشانہ بنے
جس میں بے شمار جید صحابہؓ بھی شامل تھے۔ آج ان صحابہ کی قبریں وادی اردن میں جا بجا پھیلی نظر آتی ہیں جو جہاں شہید ہوا وہیں دفن کر دیا گیا ۔ صبح سے اب تک ہم تقریباً چھ ایسے صحابہ کی زیارت کر چکے تھے ۔ جو اس وبا کا شکار ہوئے ۔ حضرت ابوعبیدہ ؓ کو جابیہ میں دفن کیا گیا۔ جو آج کل عماتہ کہلاتا ہے - حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ دونوں نے رسول اللّٰہ صلعم کی سنت پر عمل کیا کہ وبا کے علاقے میں داخل نہ ہوں اور اگر وبا کے علاقے میں ہیں تو اس سے باہر نہ نکلیں حتیٰ کہ مدینہ بھی نہ جائیں اور آپؓ نے بیماری کے خدشے سے اس رسولؐ کے شہر جانے سے بھی انکار کر دیا تھا جس کی خوشی کے لیے آپؓ نے اپنے سگے والد کا سر بھی اتار دیا تھا ۔ حمزہ بلال کو حضرت
ابو عبیدہ ؓ کے بارے میں بتا رہا تھا اور میں اپنی سوچوں میں غلطاں تھا کہ ہم عماتہ کے قصبے میں پہنچ گئے جہاں وہ عاشق رسول ہمیشہ کی نیند سو رہے تھے
حمزہ نے کار ایک بہت بڑے ہلکے خاکی رنگ کے مسجد نما کمپلکس کے سامنے روکی۔
یہ میرے بچپن کے اس ہیرو کی آخری آرامگاہ تھی جس کا نام پتہ نہیں کتنی دہائیوں سے میرے ذہن ودل کے نہاں خانوں پر نقش تھا
مجھے اپنی قسمت پر ناز آنے لگا۔
میں نے زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ایک دن اس عظیم انسان کے حضور پیش ہوں گا جس نے حب رسول میں اپنے باپ کو قتل کرنے گریز نہیں کیا تھا ۔ جو ان کی محبت میں اپنے سامنے کے دانتوں سے محروم ہوگیا ۔ جس نے رسول اکرم صلعم کے ایک قول کو نبھانے کے لئے اپنی جان قربان کر دی تھی
ہم کار سے اتر کر مسجد میں داخل ہوئے یہ ایک بہت بڑا اور بہت متاثر کن کمپلکس تھا۔
جو موجودہ سلطان عبداللّہ بن حسین نے ۲۰۱۴ ء میں بنوایا تھا گو کہ اس کا انداز اور طرز تعمیر انہی عمارات جیسا تھا جو اردن کے دیگر صحابہ اور پیغمبروں کے مقامات پر تعمیر کی گئی ہیں
لیکن اپنی وسعت اور شان وشوکت میں غالباً سب سے سوا تھا حضرت ابو عبیدہ رضی تعالی عنہ کے شایان شان بھی۔
مقبرے سے ملحقہ مسجد ، لائبیری ، میوزیم اور مدرسہ بھی اپنی مثال آپ ہے
اس کمپلکس کے کئی احاطے تھے ہر احاطہ بہت خوبصورتی سے سجا تھا سر سبز گھاس ترتیب سے لگے سرو کے درخت ، کیا ریوں کے خوبصورت پھول ، سلیقے سے کٹی باڑ ، احاطوں کے وسط میں لگے فوارے یہ سب اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ حکومت اردن نے ان مقبروں کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی
ہم مسجد کے احاطے میں لگے فواروں کے پاس سے گذر کر مقبرے پر پہنچے جہاں شیشے کی دیواروں کے پیچھے سنگ مرمر کے مقبرے کے نیچے حضرت ابو عبیدہ رضی تعالیٰ عنہ آرام فرما تھے میں نے ان کی قبر کو بوسہ دیا۔ ان کی قبر پر ہاتھ پھیرے اورپھر وہ ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگائے
اورجانے کتنی دیر تک ہاتھ اٹھائے دعا مانگتا رہا۔
پتہ نہیں کتنی ان کہی دعائیں لبوں پر آکر رک گئیں۔
دل کے نہاں خانوں میں چھپی کتنی خواہشیں لفظوں کا روپ دھارنے لگیں۔
لیکن شدت جذبات سے لفظ بے ربط ہو گئے تھے ۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی آج اس جلیل القدر صحابی کے دربار میں کھڑے ہو کر ان کے واسطے سے اللّٰہ سے کیا مانگوں۔
کس چیز کی خواہش کروں کون سی دعا مانگوں اور کیسے مانگوں۔
بس میں ہاتھ اٹھائے کھڑا رہا۔ دعائیں ، خواہشیں لبوں پر مچلتی رہیں ۔میری آنکھیں نم تھیں۔
بہت دیر ہوگئی۔ تو اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا وہ بلال تھا ۔ شائد شدت جذبات سے لرزتے میرے ہاتھوں ، چہرے کی دھوپ چھاؤں اور پلکوں پر لہراتے آنسوؤں نے اسے پریشان کر دیا تھا وہ پوچھ رہا تھا۔
کہ “بابا آپ ٹھیک تو ہیں ؟”
ہاں میں ٹھیک ہی تھا۔
اتنا ٹھیک تو میں کبھی نہیں تھا۔
مجھے اپنی قسمت پر رشک آ رہا تھا۔
میری آنکھوں کے سامنے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بیان کیا گیا ان کا حلیہ گھوم رہا تھا۔
دبلے پتلے ، لمبا قد ، گورا رنگ ، ہلکی چھدری داڑھی ،سامنے کے دو دانتوں سے محروم پر نور چہرہ جس پر ایک نگاہ پڑھے تو جم کر رہ جائے
دور تک اتر جانے والی عقابی نظر
کم گو ، بے حد شرمیلا ، شجاع ، غنی ، شائستہ ، سادہ
منکسر المزاج اور عاجز دکھنے والا
جسے میرے پیارے نبی ﷺ نے “ القوی الامین “ اور
“ امین الامت “کہہ کر پکارا تھا۔ ایسا شخص قرار دیا تھا جس پر اُمّہ آنکھیں بند کر کے اعتماد کر سکتی تھی۔
حضرت عبداللّہ بن عمر رضی تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ
“ قریش میں تین لوگ سب سے زیادہ اہم ، نمایاں ، بہترین کردار کے حامل اور قابل اعتماد ہیں
اور وہ حضرت ابو بکر رضی تعالی ٰ عنہ حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی تعالیٰ عنہ ہیں “
ایچ اے آر گبز
H A R Gibbs
نے لکھا ہے کہ
Abu Ubayda "was clearly a man whose personality impressed his contemporaries, but he is presented by later traditions in a rather
colourless fashion"
انہوں نے ہمیشہ بہت سادہ زندگی گزاری۔
جنگوں میں ملنے والے مال غنیمت کا اپنا سارا حصہ ضرورت مندوں اور غریبوں میں بانٹ دیتے اپنے لئے کچھ نہ رکھتے۔
امین امت کی خاکساری ، درویشی اور سادگی کا یہ عالم تھا کہ فوجوں کا سپہ سالار اعظم ہونے کے باوجود انہیں جاہ و حشم اور شان وشوکت سے کبھی کوئی سرورکار نہ تھا ۔ رومی سفراء جب کبھی اسلامی لشکر گاہ میں آئے تو انہیں ہمیشہ سالار فوج کی شناخت میں دقت پیش آئی ۔ ایک دفعہ ایک رومی قاصد آیا، وہ یہ دیکھ کر متحیر ہو گیا کہ یہاں سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔ سالار ، کمانڈر ، عام سپاہی ، آقااور غلام کی کوئی تفریق نظر نہیں آتی تھی ۔ بالآخر اس نے گھبرا کر پوچھا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ لوگوں نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کی طرف اشارہ کیا، دیکھا تو بہت سے عرب ایک ہی وضع قطع کے معمولی لباسوں میں فرش خاک پر بچھی ایک ہی چٹائی پر بیٹھے نظر آئے قریب جا کر اس نے اک بار پھر استفسار کیا تو لوگوں نے بتایا کہ درمیان میں بیٹھا وہ شخص جس کے سامنے کے دو دانت نہیں ہے وہی ہمارا سپہ سالار ہے ۔
۶۳۶ء میں فلسطین فتح ہوا ۔ حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ عیسائی پادریوں کے مطالبے پر یروشلم تشریف لے گئے تو ان کا استقبال کرنے والوں میں حضرت خالد بن ولید ؓ حضرت ابو عبیدہ ؓ اور حضرت معاویہ بن ابو سفیان ؓ بھی شامل تھے
حضرت خالد بن ولید ؓ اور حضرت عمرو بن العاص ؓ اور حضرت معاویہ بن ابو سفیان ؓ نے ریشمی کپڑے پہن رکھے تھے حضرت عمر ؓ نے زمین پر سے مٹھی بھر ریت اٹھا کران کی طرف اچھالی اور کہا ابھی ایک سال نہیں گزرا تم لوگوں کو یہاں آئے ہوئے اور تم عرب کے چرواہے اپنی ساری سادگی اور اصلیت بھول کر روم اور ایران کے شہنشاہوں کی طرح بن گئے ہو
پھر وہ حضرت ابو عبیدہ ؓ کی طرف مڑے اور کہا “ ابو عبیدہ ؓ تم آج بھی ویسے ہی ہو جیسے پہلے تھے”۔
حضرت عمر ؓ ابو عبیدہ ؓ کی رہنمائی میں روزانہ مختلف محاذوں کا معائنہ کرنے لگے۔ کافی دن بعد حضرت عمر ؓ نے محسوس کیا کہ ابو عبیدہ ؓ مجھے ہر جگہ لے جاتے ہیں، لیکن آداب میزبانی اور قربت کے برخلاف اپنی رہائش گاہ نہیں لے جاتے۔ عمر ؓ اس معاملے میں بہت حساس تھے، کئی دن گزر گئے تو ابو عبیدہ ؓ سے شکوہ کیا۔ ابو عبیدہ ؓ بھی عمر ؓ کے مزاج سے واقف تھے، بولے آج لے چلوں گا۔ دن کی مصروفیت سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو عبیدہ ؓ خلیفہ وقت کو اپنی رہائش گاہ پر لے گئے۔
ایک بوسیدہ سی عمارت تھی، جس پر کوئی محافظ کھڑا تھا نہ دروازہ لگا ہوا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ایران عراق اور مصر کی فتوحات سے سارے مسلمان مالامال ہوچکے تھے۔ اندر داخل ہوئے تو مسلمانوں کے سپہ سالار اعظم جس نے دنیا کی دو سپر پاورز کو دھول چٹائی تھی اس کے گھر میں صرف زمین پر سونے کیلئے ایک چٹائی اور چادر پڑی تھی۔ ایک کونے میں پانی کامشکیزہ اور کٹورہ، دوسرے کونے میں چند اینٹوں پر مٹی کی ہانڈی رکھی تھی- ایک دیوار پر چند کپڑے لٹکے تھے۔ دوسری کچی دیوار کے ساتھ کھو نٹے کے ساتھ ایک تلوار اور ڈھال ، اونٹ کا کجاوہ ، گھوڑے کی زین اور لگام لٹک رہی تھی ۔ دروازے کے ساتھ دیوار میں بنے طاق میں مٹی کا ایک دیا پڑا تھا ۔
حضرت عمر ؓ نے یہ دیکھ کر ان سے پوچھا اے ابو عبیدہ ؓ کچھ اپنے آرام و سکون کا سامان بھی کر لیا ہوتا
جس پر انہوں نے بے نیازی سے فرمایا !
“یا امیرالمومنین ؓ میرے لئے یہ بھی بہت ہے۔ “
عمر ؓ نے کمرے کی یہ حالت دیکھی تو روتے ہوئے ابو عبیدہ ؓ سے لپٹ گئے اور انہیں چومنے لگے ۔ واپسی میں یہی جملہ ان کی زبان پر جاری تھا
کہ “سب بدل گئے!
ابو عبیدہ ؓ نہیں بدلے ۔ “
اور آج میں اسی عظیم شخص کے سرہانے کھڑا عقیدت کے پھول پیش کر رہا تھا اور اپنی قسمت پر نازاں تھا کہ میرے اللّٰہ نے مجھے ان کا دیدار کرنے کی توفیق دی ہے
(یہ مضمون میری کتاب “ اہل وفا کی بستی “ میں شامل ہے )

Comments

Click here to post a comment