ہوم << ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورۂ پاکستان – خلیل الرحمٰن چِشتی

ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورۂ پاکستان – خلیل الرحمٰن چِشتی

مغرب اور بھارت کی اقتصادی و عسکری بالادستی کے گٹھ جوڑ کے ماحول میں
حکومت پاکستان کا سرکاری طور پر ڈاکٹر ذاکر نائک کو تین شہروں میں خطابات کی دعوت دینا ایک تاریخی اور جراءت مندانہ فیصلہ ہے۔

ایک ایسے ماحول میں جب کہ پاکستانی معیشت آئی ایم ایف کے پاس گروی ہے ،
سودی قرضوں کے بوجھ میں گرفتار ہے ،
بھارت بلوچستان میں گندا کھیل کھیل رہا ہے ، خیبر پختون خواہ کے صوبے میں طالبان کے خوارج کو افغانستان اور بھارت کی سرپرستی حاصل ہے ،
مغرب پاکستان کو توڑنے کے لیے پر عزم ہے ،
ایٹمی اثاثے داو پر ہیں،
سپریم کورٹ داخلی طور پر منقسم ہے ،
الیکشن کمیشن کو بے وقعت اور بے حیثیت کردیا گیا ہے ، سیکیولر لابیاں فعال و متحرک ہیں ،
رشوت اپنے عروج پر ہے،
اور
سیاست دان ، جرنیل ، جج ، بیوروکریٹ سبھی اس حمام میں ہیں،
علاوہ ازیں
امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کو سامنے کرکے ، اخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اخری کتاب قران مجید اور اخری امت کی دشمنی میں
فلسطین ، لبنان وغیرہ میں امت محمدیہ کی نسل کشی کا بالاقساط فیصلہ کرچکا ہے ،

ڈاکثر ذاکر نائک کو خطابات کی دعوت دینا بہت معنی خیز ہے۔
دیکھتے جائیے کہ اس دورے پر اسلام دشمن اندرونی اور بیرونی قوتوں کے سینے پر کس طرح سانپ لوٹے گا ؟
ہماری دعا بھی ہے اور قوی امید بھی ہے کہ
اس سے ہمارے تعلیم یافتہ طبقے پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اسلام پر اعتماد بڑھے گا، نوجوان شرمندگی سے بچیں گے۔ احساس کہتری سے باہر نکلیں گے۔
وہی سبق جو مولانا مودودی نے دیا کہ اس زمانے میں بھی پورا اسلام قابل عمل ہے۔
اللہ تعالیٰ ناممکن کا حکم نہیں دیتا۔
یہ شریعت نامردوں اور بزدلوں کے لیے نازل نہیں کی گئی ہے۔
صرف اسلام ہی دین حق ہے۔
اللہ کے نزدیک یہی دین ہے۔ ( ال عمران: 19)
اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قبول نہیں کیا جائے گا۔ ( ال عمران :85 )

حکومت اور ایجنسیاں ڈاکٹر ذاکر نائک کو پہلے سے بریف کرچکیں ہوں گی کہ
کیا کہنا ہے ؟ اور کیا نہیں کہنا ہے ؟

سوال وجواب کی نشستوں میں پہلے سے وضع شدہ سوالات کیے جائیں گے
لیکن کچھ سوالات اور جوابات فی البدیہ اور بے ساختہ بھی ہوں گے۔

اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ کالج اور یونیورسٹی کے نوجوان طلبہ و طالبات کو اردو اور اردو میں موجود عظیم اسلامی لٹریچر سے محروم کردیا گیا ہے۔
انگریزی میں طاقتور اسلامی ادب تا حال موجود نہیں۔
سوشیل میڈیا کے دور میں لوگ بڑے علماء کے بجائے ،
لال بجھکڑ "موٹیویٹرز " میڈیا اسٹارز ، شہرت پسند ریا کار خطیب ، کم علم داعی جو علماء اور صالحین کی صحبت سے محروم ہیں ،
بے لگام مفتی اور سطحی اینکرز معلم و مربی بن گئے ہیں ، جس کی وجہ سے تشکیک و الحاد میں اضافہ ہورہا ہے۔
لوگ فرقہ پرست متعصب مولویوں سے تنگ ہیں۔

ایسے میں اگر ڈاکٹر ذاکر نائیک نسٹ NUST اور دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو توفیق الہی سے اسلام پر غیر متزلزل اعتماد عطا کرسکیں تو یہ اس ملک پر بڑا احسان ہوگا۔
وما تشاءون الا ان یشاء اللہ رب العالمین

Comments

Click here to post a comment