پیڑھی اور منجی کے کمفرٹ زون سے اٹھ کر جب آپ ورزش ، ورک آؤٹ کی شروعات کرتے ہیں تو پہلے پہل وجود اس مزاحمت اور وزن اٹھانے کی مشقتوں سے انکار کرتا ہے ، یوں لگتا ہے جیسے پٹھوں کے ریشے دُکھی ہوکر بکھر رہے ہیں۔
وجود کی اس کہانی میں قوت کی شرکت سے پہلے کمزوری رونق لگاتی ہے لیکن سلیقے اور طریقے سے جڑنا ہو تو پہلے پورا ٹوٹنا پڑتا ہے۔
یوں ہی ہے جب آپ زندگی میں پر جمعہ سورہ کہف کی عادت بنانے لگتے ہیں۔
جمعہ ہے ، نہا لیا ، صاف ستھرا لباس پہنا ، ناخن تراش لیے اور نماز بھی ادا کرلی۔ اب اتنی مشکل روٹین میں سے کس طرح ایک تفصیلی سورت کے لیے وقت نکالیں۔فرض ادا ہوگئے ، ثواب مل گیا۔
لیکن جب آپ سورہ کہف کو اس کے گہرے مفہوم ، خوبصورت اسباق اور عمدہ نصیحت کے طور پر سمجھنے کے بعد پڑھنے لگتے ہیں تو ادراک ہوتا ہے دماغ ۔۔۔ جس سے عقل جڑی ہے ، دماغ بھی وجود کا ایک organ ہے۔
اور اسے گرو کرنے اور پورے سلیقے سے جڑنے کے لیے مزاحمت کی ورزش سے گزارنا پڑتا ہے۔
پہلی ورزش تو ساری روٹین کو نہ کہہ کر لگن سے بیٹھنا اور اس سورت کو پڑھنا دماغ کی ورزش ہے کیونکہ آج کے تیز چلتے دور میں سکون سے بیٹھ پانا بھی ایک ورک آؤٹ ہوا۔۔۔جو مشکل اور ضروری ہے۔
اور پھر اس کے گہرے معانی سمجھنے میں وقت ، توجہ ، غور کرنے کی صلاحیت اور انرجی خرچ کرنا ، عقل کا ورک آؤٹ ہے !
یہ رب کا تحفہ ہے کہ ہم ہر ہفتے خود کو وہ ایک ترین اسباق یاد دلاتے رہیں جو اس سورت میں ملتے ہیں اور پورے ہفتے کی زندگی سے ان کا گہرا تعلق ہے جس میں ہم خوف اور گمان سے ،دلوں کے روگ سے ، مشکل فیصلوں سے، مصلحتوں کو پہچان نہ پانے سے ، خساروں سے ، سوالوں سے ، الجھنوں سے اور کبھی زمانے سے پیچھے رہ جانے کی کیفیت سے گزرتے ہیں !
اس ایک دن سورہ کہف کو پڑھنا ، سلیف کئیر جیسا ہے۔
کونوں میں بیٹھ کر رونے والوں کو تو جمعہ کی سہ پہر کسی پرسکون کونے میں بیٹھ کر اس خوبصورت سورت کو غور سے ضرور پڑھنا چاہیے۔ گزرتے وقت کے ساتھ عادت بنے گی تو روانی آئے گی اور اس کی تاثیر کی چاشنی سے مل پائیں گے بالکل جیسے ورک آؤٹ کی عادت بن جائے تو پھر اسی مشقت میں لطف آنے لگتا ہے۔
تب ادراک ہوتا ہے کہ ہمارے رب نے ہماری عقل کی تندرستی کے لیے بھی قرآن اتارا۔۔۔
کہ ہم اپنی کمزوریوں، قوتوں ، خامیوں ، خوبیوں ، غلطیوں اور کہانی میں اپنے کردار کی اہمیت کو پہچان سکیں۔ اسے پہاڑوں پر نہیں اتارا اور ان خوبصورت اسباق نے ہمارے دلوں کو چُن لیا۔
اور ہمارا رب کتنے کرم والا ، کتنا خیال رکھنے والا ہے۔
پڑھنے والی آنکھ مسکرائے
سائرہ اعوان
تبصرہ لکھیے