کہنے والے کہتے ہیں: ’’غالب، غالب ہے، باقی سب مغلوب ہیں!‘‘
یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو رازداں اپنا
خیال کا برتائو تو دیکھیے۔ ویسے غالب کا انداز بیاں تو رازداں کو رقیب بنا سکتا ہے، ہمارا یہ معاملہ نہیں۔ اگر ہمارے بیاں میں کچھ دم خم ہوا، تو سمجھیے، اُسی فسوں گر کے دم سے ہوگا، جو تحریر کا ماخذ بھی ہے، اور محرک بھی۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ گذشتہ دنوں، ساحل پر واقع ایک سرائے میں، جہاں بحیرہ عرب کے پانی آتے تھے، جن پر سمندری پنچھی پرواز کرتے، اور تارڑ کے ناولوں کی یاد تازہ کر دیتے، ملاقات ہماری فکشن کے ایک فسوں گر سے ہوئی، جنھیں دنیا انتظار حسین کے نام سے جانتی ہے۔
ویسے تو بزرگ دعووں سے اجتناب کی نصیحت کرتے ہیں کہ اِس معاملے میں سبکی کا امکان قوی ہوتا ہے، مگر ایک دعوے کی جسارت کرنا چاہیں گے کہ آنے والے، اِس عہد کو ’’انتظار حسین کا عہد‘‘ کہہ کر یاد کریں گے۔
ایک آزاد روح پائی اُنھوں نے، اپنی راہ خود بنائی۔ بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے والا اردو کا پہلا ادیب انھیں کہا جائے، تو غلط نہیں ہوگا۔ ویسے انتظار صاحب کی بابت لکھتے سمے اپنی کم مائیگی کا احساس بڑا ستاتا ہے۔ ان کا قد ہی اتنا بڑا ہے۔ فکشن پر اُن کی گرفت سے متعلق ثقہ اہل دانش کی رائے دست یاب ہے۔ ترجمہ نگار وہ منفرد ہیں۔ کالم نگار بہ کمال۔ خاکسار کے نزدیک اگر اردو کی ہر دل عزیز شخصیت کا کوئی ایوارڈ ہوتا، تو انتظار صاحب کے حصے میں آتا۔ ویسے شہرت مسائل کو بھی ہوا دیتی ہے۔ سکّے کے دو رُخوں کے مانند، مداح اور ناقد ساتھ ساتھ ملتے ہیں، مگر ماننا پڑے گا کہ ناقدین بھی تذکرہ ان کا بڑے احترام سے کرتے ہیں۔
اُن کے ہاں ثقافتوں کا سنجوگ ملتا ہے۔ اِسی سمبندھ سے اساطیری روایات در آتی ہیں۔ کچھ ناقدین کا موقف ہے کہ اِس مشق سے تحریر گنجلک ہوجاتی ہے۔ ہمیں تو ہندی اساطیر بھاتی ہے۔ اور جب انتظار صاحب کو ادبی کانفرنسوں میں چلتا پھرتا دیکھتے ہیں، تو یوں لگتا، جیسے ایک اساطیری کردار چل پھر رہا ہے۔ اچھا لگتا ہے۔
اعزازات یوں تو ڈھیروں ملے، مگر جس کا تذکرہ ضروری ہے، وہ مین بکر انٹرنیشنل پرائز کے لیے اُن کی نام زدگی ہے۔ اُن کی نام زدگی پر ہم نے جشن منایا۔ ارادہ باندھ لیا کہ جُوں ہی اعلان ہوگا، قلم لے کر بیٹھ جائیں گے، ایک بَڑھیا سا مضمون لکھیں گے۔ افسوس، یہ ہو نہ سکا۔
یہاں وضاحت کردیں کہ ہم اُسے قبیلے سے نہیں، جو مُصر ہے کہ ہم نے بین الاقوامی معیار کا ادب تخلیق کیا۔ خوب جانتے ہیں کہ نہ تو اردو میں ٹالسٹائی اور ڈکنز جیسے ناول نگار گزرے، نہ ہی موپساں اور چیخوف جیسے کہانی نویس۔ بین الاقوامی ادب میں ہمارا سراغ کہیں نہیں۔ البتہ مدعا کچھ اور ہے۔ ہم تو اِن بین الاقوامی اعزازات کے باب میں پریشان ہیں۔ اب نوبیل ہی کو لیجیے، جن درجنوں عزت مآب تخلیق کاروں کو اِس اعزاز کے لیے چُنا گیا، اُن میں نہ تو ٹالسٹائی کا نام ملتا ہے، نہ ہی چیخوف کا۔ مارک ٹوین، جیمز جوائس اور بورخیس بھی محروم رہے۔ سارتر نے ایوارڈ لوٹا دیا۔ انتخاب کی کسٹوٹی پر شک و شبہات کا اظہار اوائل سے کیا جارہا ہے۔ کچھ ایسے بھی فاتح ٹھہرے، جنھیں حق دار کے بجائے اِن اعزازات کے لیے تشکیل کردہ کمیٹیوں کی ’’دریافت‘‘ قرار دیا گیا۔ پھر یہ معاملہ بھی عجب ہے کہ اِس خطے کی کچی پکی کہانیاں بیان کرنے والے، اِس خطے کے انگریز لکھاری بین الاقوامی اعزازات کے حق دار، اور اردو کے تجربے کار فکشن نگار نام زردگی تک محدود۔
قصّے کو طول دینے کے بجائے ہم روسی اسکالر، ڈاکٹر لڈمیلا کا ایک جملہ نقل کیے دیتے ہیں۔ بھری محفل میں اُنھوں نے کہا تھا: ’’انتظار حسین کو مین بُکر پرائز نہ ملنا سراسر ناانصافی ہے!‘‘
خیر، اُس سہ پہر ملاقات ہوئی، طویل مکالمہ ہوا۔ مگر یہ اتنا سہل نہیں تھا، سرائے میں ایک ادبی تقریب جاری تھی، سیشنز اور چاہنے والوں میں وہ گھرے تھے۔ خیر، ہم نے بھی تعاقب جاری رکھا۔ بالآخر کامراں ٹھہرے۔ ہمارے دوست، رانا محمد آصف ساتھ تھے، اْن کی کاوش کا تذکرہ نہ کریں، تو زیادتی ہوگی۔ لاہور میں بیٹھے میرے متر، حیران کن مطالعے کے حامل، محمود الحسن وسیلہ بنے۔ انھوں نے ہی تو انٹرویو کی ہماری درخواست انتظار صاحب تک پہنچائی۔
انتظار حسین کے حالات زندگی اور ادبی سفر کا تذکرہ کیا جائے، تو دفتر کے دفتر سیاہ ہوجائیں، سو اختصار کا دامن تھامے رکھنا لازم ہے۔ سوال جواب کا میلہ سجانے سے قبل ذرا اِس ٹکڑے پر نظر ڈال لیں:
سن پیدایش؛ 1925۔ جائے پیدایش؛ ڈبائی، ضلع بلند شہر۔ اُس بستی کی یادوں نے فکشن پر اُن کے گہرا اثرات مرتب کیے۔46 ء میں میرٹھ سے اردو میں ایم اے کیا۔ اسی زمانے میں پروفیسر کرار حسین اور محمد حسن عسکری سے تعلق استوار ہوا۔ پاکستان آکر بھی مذکورہ شخصیات سے رابطہ رہا۔ ادبی اور صحافتی مسافت لاہور میں طے ہوئی۔ اِس شہر کے تذکرے کو ’’چراغوں کا دھواں‘‘ میں بیان کیا۔ ’’قیوما کی دکان‘‘ پہلا افسانہ۔ 48ء میں ’’ادب لطیف‘‘ میں شایع ہوا۔ پہلا افسانوی مجموعہ ’’گلی کوچے‘‘ 52ء میں سامنے آیا۔ دوسرا تین برس بعد ’’کنکری‘‘ کے نام سے چھپا۔ ’’دن اور داستان‘‘، ’’آخری آدمی‘‘، ’’شہر افسوس‘‘، ’’کچھوے‘‘، ’’خیمے سے دور‘‘، ’’خالی پنجرہ‘‘، ’’شہرزاد کے نام‘‘، ’’نئی پرانی کہانیاں‘‘ دیگر مجموعے ہیں۔ افسانے کلیات میں سموئے جاچکے ہیں۔
چار ناول لکھے؛ ’’چاند گہن‘‘، ’’بستی‘‘، ’’آگے سمندر ہے‘‘ اور ’’تذکرہ‘‘۔ یوں تو چاروں ہی کا چرچا ہوا، مگر 80ء میں شایع ہونے والا ’’بستی‘‘ نمایاں قرار پایا۔ فرانسس پریچٹ نے اسے انگریزی روپ دیا۔ آغاز میں اُنھیں انگریزی قارئین میں متعارف کرانے کا سہرا ممتاز مترجم، محمد عمر میمن کے سر ہے۔
’’علامتوں کازوال‘‘ اور ’’نظریے سے آگے‘‘ تنقیدی مضامین کے مجموعے۔ سفر نامے بھی لکھے۔ آپ بیتی ’’جستجو کیا ہے‘‘ کے زیرعنوان شایع ہوئی۔ چیخوف، ترگنیف، ایمل حبیبی، اسٹیفن کرین اور عطیہ سید کی تخلیقات کو اردو روپ دیا۔ صحافت سے مستقل وابستگی رہی۔ ’’امروز‘‘، ’’آفاق‘‘ اور ’’ادب لطیف‘‘ سے جڑے رہے۔ ناصر کاظمی کے ساتھ ’’خیال‘‘ نکالا۔ حلقۂ ارباب ذوق کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ کالم نویسی ایک مستند حوالہ ہے۔ انگریزی اور اردو؛ دونوں زبانوں میں لکھا۔ ’’ذرے ‘‘، ’’بوند بوند ‘‘ اور ’’قطرے میں دریا‘‘ کالموں کے مجموعے۔ بچوں کے لیے بھی لکھا۔ کئی کتابوں مرتب کیں۔
چلیے، اب مکالمے کا آغاز کرتے ہیں:
اقبال: ’’جب دنیا ابھی نئی نئی تھی، جب آسمان تازہ تھا، اور زمین ابھی میلی نہیں ہوئی تھی۔۔۔‘‘ اِن سطروں کے ساتھ اردو کے ایک اہم ناول ’’بستی‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ کہانی تقسیم کے مراحل سے گزرتی ہوئی سقوط ڈھاکا تک پہنچتی ہے۔ یہ فرمائیں، یہ ناول کب لکھنا شروع کیا؟
انتظار حسین: یہ میں نے سن 70 میں شروع کیا تھا۔ ابھی سانحہ نہیں ہوا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بہت شورش برپا تھی۔ ہنگام کی خبریں آرہی تھیں۔ کچھ وارداتیں بھی ہوئیں۔ جو خبریں مل رہی تھیں، اُنھیں سن کر میں نے کہا کہ یہ عجیب صورت حال ہے، پہلے تو جب (سن 47 میں) ایسی خبریں سنتے تھے، تو سمجھتے تھے کہ ہندو اور مسلمانوں کا جھگڑا ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہندو الگ ہیں، مسلمان الگ ہیں؛ یہ دو قومیں ہیں۔ مگر یہ تو (مشرقی پاکستان کے باسی) ایک قوم ہیں۔ مگر خبروں سے یوں لگتا تھا، دو ایسی قومیں آپس میں نبرد آزما ہیں، جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ جس ’’آئیڈیلزم‘‘ کے تحت پاکستان بنا تھا، یعنی بنگالی، پنجابی، بہاری، یوپی والے؛ ہندوستان کے سب مسلمان بھائی بھائی اور ایک قوم ہیں، وہ شکست و ریخت کا شکار ہوتا معلوم ہوا۔ مسلمان دو قوموں میں بٹے ہوئے نظر آئے۔ پاکستان کا جو آدرش تھا، وہ کہاں گیا؟ جب وہ واقعہ گزرا، جسے ’’ڈھاکا فال‘‘ کہا جاتا ہے، تو میں نے کہا؛ یہ ’’ڈھاکا فال‘‘ عجب ہے۔ ڈھاکے ہی میں تو مسلمانوں کی الگ تنظیم قائم ہوئی تھی۔ اور اِس نے جو سفر طے کیا، اس کا انجام بھی ڈھاکے ہی میں ہوا۔ وہ جمعیت، جسے ایک قوم کہا جاتا تھا، الگ ہوگئی۔ اگر کسی نے کہا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو سمندر میں ڈبو دیا، تو میرے نزدیک غلط نہیں کہا۔
اقبال: ’’بستی‘‘ کی تکمیل میں کتنے برس لگے؟
انتظار حسین: سمجھ لیں کہ یہی کوئی پانچ چھے سال۔
اقبال: تکمیل کے سمے کیا احساس تھا کہ جس المیے کی چاپ سن کر لکھنا شروع کیا، لکھت کے دوران ہی وہ دہلیز پر آگیا؟
انتظار حسین: ناول کی شکل تو اُسی وقت بنی۔ ایک زمانے میں تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ سن 47 ء کی فضا دوبارہ زندہ ہوگئی، تو پھر لکھنا شروع کیا۔ جب یہ واقعہ گزر گیا، تو میں نے فوری طور پر دو تین کہانیاں؛ ’’شہر افسوس‘‘، ’’اندھی گلی‘‘، ’’ہندوستان سے ایک خط‘‘ لکھیں، اُسی رو میں یہ ناول لکھا گیا۔ تو یہ کہانیاں اور ’’بستی‘‘ ایک طریقے سے سانحۂ مشرقی پاکستان کا سوگ ہیں۔
اقبال: مسلمان ایک قوم ہیں، اِسی نظریے کے تحت پاکستان وجود میں آیا۔ آپ کے نزدیک وہ کون سا احساس تھا، جس نے اِس ’’ایک قوم‘‘ کو دو حصوں میں بانٹ دیا؟
انتظار حسین: پاکستان بننے کے بعد جو سیاست شروع ہوئی، اس کا محور یہ نہیں تھا کہ نیا ملک کیسے سنبھالا جائے، بلکہ یہ تھا کہ ہم اپنا اقتدار کیسے قائم رکھیں۔ بنگالی اکثریت میں تھے۔ یہاں والوں کے لیے اُن کی اکثریت مسئلہ بن گئی۔ تو یہاں یہ سیاست شروع ہوگئی۔ بیوروکریسی یہاں، فوج یہاں۔ بجائے اس کے کہ اکثریت آپ سے کہتی، آپ جدا ہوجائیں، وہ خود ہی آپ سے الگ ہوگئے۔
اقبال: آپ کے پہلے ناول ’’چاند گہن‘‘ کی اشاعت 53ء میں عمل میں آئی، لگ بھگ چھے عشرے بیت چکے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ تخلیق کار اپنی بعد کی تخلیقات کو زیادہ اہم گردانتے ہیں۔ تو اُس ناول کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟
انتظار حسین: وہ تو ٹھیک ہے۔ ناول لکھا گیا۔ سب میری ہی تحریریں ہیں۔
اقبال: ’’چاند گہن‘‘ کے بعد ناول نگاری کے سفر میں ایک وقفہ آگیا تھا، اس دوران کہانیاں لکھتے رہے۔
انتظار حسین: دو ناولوں کے درمیان وقفہ تو آتا ہے۔ اگر میں کہانیاں نہیں لکھتا، تب بھی وقفہ آتا۔ بڑے ناول نگاروں کا یہی معاملہ رہا کہ ایک ناول لکھا، پھر وقفہ لے لیا۔ ناول تسلسل میں نہیں لکھا جاتا۔ اِس کے لیے ایک پوری دنیا بسانی پڑتی ہے۔ وقت لگتا ہے۔ جو اچھے ناول نگار گزرے، وہ یوں کرتے کہ ایک مسودہ لکھا، پھاڑ دیا۔ دوسرا لکھا، پھاڑ دیا۔ کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔
اقبال: تو آپ کا طریق کیا ہے، لکھنے کے بعد کتنی کاٹ چھاٹ کرتے ہیں؟
انتظار حسین: میں کئی حصے دوبارہ لکھتا ہوں۔ ’’بستی‘‘ کے کئی حصے دوبارہ لکھے۔ اس کے شروع کے حصے میں تو تبدیلی نہیں کرنی پڑی، مگر بعد کے حصوں میں خاصی تبدیلی ہوئی۔
اقبال: تقسیم کے بعد آپ نے لاہور کو مسکن بنایا۔ آپ ہی کے مانند ہجرت کے تجربے سے گزرنے والوں کی بڑی تعداد نے کراچی میں ڈیرے ڈالے۔ اِس شہر کو آپ نے ’’آگے سمندر ہے‘‘ میں موضوع بنایا۔ کیا ہجرت کے مشترکہ تجربے نے اِس ناول کی زمین تیار کی؟
انتظار حسین: ٹرینوں کے ذریعے آنے والے مہاجرین کا راستہ تو لاہور ہی تھا۔ وہ یہاں اترتے، پھر آگے کا سوچتے۔ لاہور پہلے ہی بھر چکا تھا۔ مشرقی پنجاب کے فسادات کے بعد لٹے پٹے پنجابی مسلمان یہاں آکر آباد ہوگئے۔ انھیں کہیں نہیں جانا تھا، اپنا ہی صوبہ تھا۔ ایک حصہ کٹ گیا۔ دوسرے میں آکر بس گئے۔ تو لاہور بھرا ہوا تھا۔ بعد میں آنے والے کچھ روز بھٹکتے۔ پھر کراچی چلے جاتے۔ کچھ براہ راست کراچی پہنچتے۔ کراچی میں گنجایش بہت تھی۔ اِس لیے یہ شہر زیادہ مناسب نظر آیا۔ دھیرے دھیرے وہ ماجہرین کا مرکز بن گیا۔ وقت گزرتا رہا۔ پھر ایک صورت حال پیدا ہوئی۔ کراچی میں آپریشن ہورہا تھا۔ مار کاٹ ہو رہی تھی۔ بوریوں میں لاشیں مل رہی تھیں۔ سوال یہ تھا کہ یہ سب کون کر رہا ہے؟ پولیس کر رہی ہے یا کوئی اور گروہ؟ تو یہ ساری صورت حال میرے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔ اُسی نے ناول لکھنے کی تحریک دی۔
اقبال: اس ناول پر کراچی کے چند حلقوں کی جانب اعتراض بھی کیا گیا؟
انتظار حسین: مجھ تک کوئی اعتراض یا کسی کی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں پہنچا۔ ہاں، اسلام آباد کے ایک دوست نے کہا تھا؛ اس ناول کر پڑھ کر بعض لوگ برہم ہیں، وہ اعتراض کریں گے۔ میں نے کہا؛ خوشی سے اعتراض کریں۔ زبانی باتیں ہوئی ہوں گی، مگر کسی نے کچھ لکھا نہیں۔
اقبال: آپ کے چاروں ہی ناولز میں ہجرت کا المیہ کلیدی رہا، پہلو مختلف تھے۔ آپ کے ہاں ہجرت کا واقعہ مارکیز کی بستی ’’ماکوندا‘‘ کی طرح ہے، یعنی حالات و واقعات کو پرکھنے کے لیے ایک آلہ، ایک نقطۂ نگاہ؟
انتظار حسین: ہوسکتا ہے۔ جب لکھنے والا لکھ رہا ہوتا ہے، تو وہ پہلے سے کوئی نظریہ نہیں بناتا کہ میں اِس نقطۂ نظر کے تحت لکھوں گا۔ نقطۂ نظر تو اُس کے اندر ہوتا ہے، یا لکھتے ہوئے بنتا ہے، مگر اُسے شعور نہیں ہوتا کہ میں کس نقطۂ نظر کے تحت لکھ رہا ہے۔
اقبال: تو ہجرت کا تجربہ ایک نقطۂ نظر کے طور پر آپ کے اندر موجود رہا؟
انتظار حسین: ناول لکھنے سے پہلے مجھ میں احساس موجود تھا کہ آبادی کی بڑے پیمانے پر جو منتقلی ہوئی ہے، اُسے ہجرت ہی کہنا چاہیے۔ ہمارا اسلامی کیلینڈر ہجرت ہی سے شروع ہوتا ہے۔ تو یہ مسلمانوں کا ایک بنیادی تجربہ ہے۔ ہر قوم، ہر نسل کا ایک Behavioral pattern بن جاتا ہے، جسے وہ دہراتی رہتی ہے۔ شاید ہجرت ہماری تقدیر ہے۔ جب رسول کریمﷺ نے پہلی ہجرت کی، تو ہماری تقدیر میں لکھ دیا گیا کہ اب یہ عمل بار بار دہرایا جائے گا۔
اقبال: تو آپ کی نظر کیا دیکھتی ہے، آگے بھی ہجرت ہے یا پھر۔۔۔آگے سمندر ہے؟
انتظار حسین: (ہنستے ہوئے) اب ’’آگے سمندر ہے‘‘ کہ معنی میں نہیں بتائوں گا۔ اس وقت کسی کا کہا ہوا جملہ میرے ذہن میں تھا۔ میں نے کہا؛ اِس کے تو بہت معنی بن رہے ہیں۔ میں نے اُسے عنوان بنا لیا۔
اقبال: آپ نے کہا تھا کہ ایک وقت کشتیاں بنانے کا ہوتا ہے، ایک کشتیاں جلانے کا؟
انتظار حسین: اِس کے پیچھے روایات بھی ہیں۔ جب طارق بن زیاد ساحل پر اترا، تو اس نے کشتیاں جلا دیں کہ اب واپسی کہیں نہیں ہے۔ ہمیں آگے ہی بڑھنا ہے۔ پیچھے نہیں جانا۔ تو میں نے یہی لکھا کہ ایک وقت کشتیاں بنانے کا ہوتا ہے، اور ایک وقت کشتیاں جلانے کا۔ ہم جلا کر تو ہندوستان آگئے ہیں، اب بنا سکیں گے یا نہیں۔ یہ دیکھنا ہوگا۔
اقبال: ’’بستی‘‘ کی طرف پلٹے ہیں۔ اِس ناول کے کردار ذاکر کے لیے بچپن میں دنیا نئی نئی تھی۔ تازگی کا یہ احساس بچپن کی دَین تھا؟
انتظار حسین: بچپن ہوتا ہی ایسا ہے کہ ہمیں ہر شے نئی نظر آتی ہے۔ پرندے نئے لگتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے، جیسے ہمارے ساتھ ہی پیدا ہوئے۔ بڑے ہو کر وہ سنگت نہیں رہتی۔
اقبال: تو پرندوں سے سنگت اب تک ہے؟ آپ نے لکھا بھی تھا کہ آپ درختوں اور چڑیائوں کے لیے کہانیاں لکھتے ہیں۔
انتظار حسین: وہ سنگت تو ہے۔ بالکل ٹھیک ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اُس کے اندر جو بچہ ہے، اُسے زندہ رکھے۔
اقبال: کچھ لوگ لکھنے کے عمل کو ’’کتھارس‘‘ کی ایک شکل قرار دیتے ہیں۔ آپ کئی برس سے لکھ رہے ہیں۔ شاہ کار تخلیق کیے۔ ماضی کی تمام تر یادیں برتی جاچکی ہیں، یا یہ اب بھی مزید لکھنے کی تحریک دیتی ہیں؟
انتظار حسین: وہ یادیں تو ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اب تو خاصا اظہار ہوچکا ہے۔ یہ ادیب کی تخلیقی صلاحیتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ کوئی چھوٹا سا تجربہ بھی بہت کچھ لکھوا سکتا ہے۔ کبھی کبھار کوئی بڑا تجربہ بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ یہ لکھنے والی کی نظر ہے کہ وہ تجربے میں سے کیا کچھ برآمد کرتا ہے۔
اقبال: میرٹھ میں آپ کے ایک دوست تھے؛ دیوتی شرد شرما۔ آپ نے اور انھوں نے ساتھ لکھنا شروع کیا۔ اگر اُن سے ملاقات نہ ہوئی ہوتی، تب بھی کیا اِسی طرز پر، اِسی تسلسل سے لکھ رہے ہوتے؟
انتظار حسین: یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ تقسیم اگر نہیں ہوتی، تو کیا ہوتا۔ میں افسانہ نگار بنتا بھی یا نہیں، یا ہجرت کے تجربے نے مجھے افسانہ نگار بنایا۔ جب میں نے ہجرت کی، تب احساس ہوا کہ میرا اُس زمین سے رشتہ کٹ گیا، جہاں میں پیدا ہوا، جہاں ہوش سنبھالا۔ تقسیم سے پہلے تو ہوش ہی نہیں تھا کہ اردگرد کیا ہورہا ہے۔ پاکستان آنے کے بعد احساس ہوا کہ اُس زمین سے ہمارا کتنا گہرا رشتہ ہے۔ پاکستان آکر بستی کی یادیں آنا شروع ہوئیں۔ کہانی لکھنی شروع کی، تو رفتہ رفتہ اس زمین سے جڑے رشتے کا احساس ہوا، جسے کاٹنا، گویا اپنی ذات کاٹ دینا تھا۔
اقبال: دیوتی شرد شرما سے دوبارہ ملاقات ہوئی؟
انتظار حسین: ہاں ہاں۔ جب دلی جانا ہوتا ہے، تو ملاقات ہوتی ہے۔
اقبال: جب دوبارہ اپنی بستی کی جانب گئے، تو کیا احساس تھا؟
انتظار حسین: بڑے عجیب احساسات تھے۔ پریم چند کی صدی منائی جارہی تھی۔ ہمیں مدعو کیا گیا۔ دلی میں سیمینار ہوا۔ پھر علی گڑھ یونیورسٹی والوں نے مدعو کر لیا۔ میں نے کہا؛ میری بستی تو یہاں سے قریب ہی ہے۔ تو میں ایک دوست کے ساتھ نکلا۔ مگر مجھے واپس آنا پڑا۔ یوں لگ رہا تھا، جیسے بستی مجھے راستہ نہیں دی رہی۔ ناراض ہوگئی ہے۔ میرے ساتھی نے کہا کہ کسی سے پتا پوچھ لو۔ میں نے کہا، اب میں اپنے گھر کا پتا غیروں سے پوچھوں (ہنسے ہوئے)۔ خیر، تو اس قسم کا ردعمل ہوا۔ بڑا پریشانی ہوئی۔ ہم واپس آگئے۔ بعد میں بہت پچھتایا۔ سوچا، پھر کبھی موقع ملے گا یا نہیں۔ خیر، پھر موقع ملا، اور میں وہاں گیا۔
اقبال: ’’قیوما کی دکان‘‘ آپ کی پہلی کہانی تھی۔ وہ کون سا احساس تھا، جس نے یہ کہانی لکھنے کی جوت جگائی؟
انتظار حسین: سن 47ء کا وسط تھا۔ مسلمان ملازمین کو Opt کرنے کا کہا گیا۔ اُنھوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کے جو جمے جمائے گھرانے تھے، وہ سامان باندھ رہے ہیں۔ جو دیگر تھے، وہ بھی سوچ رہے تھے کہ اب ہم ہندوستان میں کیسے رہیں گے، فضا بدل گئی ہے، یہاں تو جینا دشوار ہوجائے گا۔ جب فسادات نے زور پکڑا، تو اُس احساس نے شدت اختیار کی۔ میں اُس زمانے میں میرٹھ میں تھا۔ خیال آیا کہ اس پر کچھ لکھنا چاہیے۔ جب لکھا، تو احساس ہوا کہ یہ تو کہانی بن گئی۔ وہاں سے یہ خیال ہوا کہ میں اصل میں کہانی نگار ہوں۔
اقبال: جس زمانے میں آپ نے لکھنے کا آغاز کیا، ترقی پسند تحریک کا شہرہ تھا۔ تو اس کے اثر سے نکل کر اپنی الگ راہ بنانے کا فیصلہ شعوری تھا یا یہ فیصلہ قلم نے خود کیا؟
انتظار حسین: شعوری نہیں تھا۔ دیکھیے، سن 47ء سے پہلے جن نئے ادیبوں کو ہم پڑھ رہے تھے، اُن سے متعلق یہ پتا نہیں تھا کہ اُن میں بھی دو گروہ ہیں۔ ہم تو راشد اور فیض کو ایک ہی تناظر میں پڑھتے تھے۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ فیض ترقی پسند ہیں، اور راشد، ترقی پسندوں کے نقطۂ نگاہ سے، رجعت پسند۔ ہمیں پتا نہیں تھا کہ کرشن چندر ترقی پسندوں میں گنے جاتے ہیں۔ ہم تو بس پڑھ رہے تھے، اور اچھا لگ رہا تھا۔ وہ تو جب میں لاہور آگیا، تب مجھے اُن گروہوں کے اختلافات کا ادراک ہوا۔
اقبال: عسکری صاحب کے اعتراض نے اِس تقسیم کو واضح کیا؟
انتظار حسین: دراصل اُنھیں یہ اعتراض ہوا کہ ترقی پسندوں کے جو افسانے آرہے ہیں، اُنھیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے، جیسے اِس سارے خون خرابے کا ذمے دار پاکستان ہے، محمد علی جناح ہیں کہ انھوں نے تقسیم کا مطالبہ کیا۔ تو اُنھوں نے کہا؛ یہ تو سارا ہندوستان نقطۂ نظر ہے۔ انھوں نے پاکستانی ادب کا نعرہ لگایا۔ اس وقت یہ تقسیم واضح ہوئی کہ کون ترقی پسند ہے، کون رجعت پسند۔
اقبال: عسکری صاحب نے پاکستانی ادب کا نعرہ لگایا، آج ہم 2014 میں موجود ہیں۔ کیا ان برسوں میں پاکستانی ادب جیسی کوئی شے تشکیل ہوسکی؟
انتظار حسین: پاکستانی ادب میرے نزدیک ایک وقتی نعرہ تھا۔ اُس وقت مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں شعور اجاگر کیا جائے۔ البتہ رفتہ رفتہ یہ تقسیم واضح ہوگئی۔ کچھ تخلیقات متنازع بن گئیں۔ فیض صاحب کی نظم ’’یہ داغ داغ اجالا‘‘ اس زمانے میں نئی نئی تھی۔ اُس کے بارے میں یہ تنازع شروع ہوگیا کہ یہ تو پاکستان کے خلاف ہے، وہ کہہ رہے ہیں؛ ’’داغ داغ اجالا‘‘، اور ہم کہہ رہے ہیں کہ ہماری زندگی کا نیا دور شروع ہورہا ہے۔ ادھر ترقی پسندوں سے آواز اٹھی کہ اس میں کوئی Commitment ہی نہیں۔ یہ تو تذبذب میں ڈالتی ہے۔ فیض صاحب پر علی سردار جعفری نے یہ اعتراض کیا۔ مگر رفتہ رفتہ چیزیں نارمل ہوگئیں۔ پھر یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہی کہ یہ پاکستانی ادب ہے یا ہندوستانی ادب۔ پھر ہم نے یہ کہنا شروع کیا کہ دو ملک تو بن گئے، مگر اردو مشترکہ زبان ہے، ادب کی روایت دونوں جگہ پھلی پھولی۔ نئے ادب میں جو لوگ پیدا ہوئے، وہ سب تو پنجاب کے تھے۔ میرا جی، راشد اور فیض؛ اُن کے درجے کا شاعر اُس زمانے میں کوئی نہیں تھا۔ اسی طرح منٹو اور کرشن چندر کے درجے کا کوئی افسانہ نگار نہیں تھا۔ عصمت کو آپ کہہ لیں کہ وہ وہاں کی تھیں۔ مگر مجموعی طور پر نئے اردو ادب کی روایت پنجاب کے خطے میں پروان چڑھی۔ ہم نے کہا، روایت ہماری ایک ہے۔ اب ہم نے میرٹھ میں بیٹھ کر یہ کبھی نہیں سوچا کہ فیض صاحب یوپی کے ہیں یا پنجاب کے۔ یہ نہیں کہا کہ ہمارا شاعر فراق گورکھپوری ہے، کیوں کہ وہ یوپی کا ہے، اور راشد صاحب پنجاب کے ہیں۔ یہ تو یہاں آکر سنا کہ فلاں یوپی کا ہے، اور فلاں پنجاب کا۔
اقبال: اِن تضادات سے خود کو کیسے ہم آہنگ کیا؟
انتظار حسین: میں نے ساری زندگی لاہور میںگزاری۔ اور کبھی پڑھتے ہوئے یہ محسوس نہیں کیا کہ لکھنے والا پنجابی ہے، اور میں مہاجر۔ یا پھر یہ دیکھوں کہ کراچی میں کون اچھا لکھ رہا ہے۔ میرے لیے ناصر کاظمی نہ تو پنجابی تھا، نہ ہی یوپی والا۔ وہ تو میرے لیے شاعر تھا۔ یا پھر احمد مشتاق، جو امرتسر سے ہجرت کرکے آیا تھا۔۔۔ میرے لیے وہ فقط شاعر تھا، اور میرا دوست تھا۔
اقبال: آپ نے ایک انٹرویو میں جدیدیت کو اردو ادب کی اہم تحریک قرار دیا۔ کیا یہ فروغ ادب میں اتنا Contribute کر سکی، جتنا ترقی پسند تحریک نے کیا؟
انتظار حسین: Contribute تو اس تحریک نے کیا۔ اُس وقت اس کی ضرورت بھی تھی۔ ترقی پسند تحریک کی Range بہت تھی۔ اس کے ساتھ سماجی اور سیاسی پروگرام لگا تھا۔ نظام کو بدلنے کی کوشش تھی۔ اس میں اپیل بہت تھی۔ وہ بین الاقوامی تحریک تھی۔ بہت سے ممالک اس سے وابستہ تھے، جو بعد میں مایوس ہو کر الگ بھی ہوگئے۔ ایک زمانہ وہ تھا، جب یورپ کا دانش وَر طبقہ اِس تحریک سے وابستہ تھا۔ پھر اسٹالن آگیا۔ اُس کے طرز حکومت کی وجہ سے یورپی ادیب، جو آزاد فکر رکھتا تھا، اُس سے ٹوٹنا شروع ہوگیا۔ ہمارا ہاں ترقی پسندوں نے پہلے ٹھپے لگائے۔ کہا؛ راشد جو کچھ لکھ رہا ہے، وہ ترقی پسندی نہیں۔ اب راشد نے تو نہیں کہا تھا کہ میرا ترقی پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے کہا؛ میرا جی کی مریضانہ ذہنیت ہے، یہ رجعت پسندی ہے۔ تو یوں اُنھوں نے مہریں لگانا شروع کیں۔ پھر ایک نئی تحریک شروع ہوئی۔
اقبال: جدیدیت کے بعد اردو ادب میں کوئی بڑی تحریک پیدا نہیں ہوسکی۔
انتظار حسین: یہ ضروری نہیں کہ ایک تحریک ختم ہو، اور دوسری آجائے۔ خاص قسم کے حالات ہوتے ہیں، جن سے بغاوت جنم لیتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ پہلی بغاوت ہوئی۔ بغاوت کرنے والوں نے کہا؛ شاعری کو قافیے اور ردیف میں باندھ رکھا ہے۔ غزل پر حملے ہوئے۔ یہ بغاوت حالی اور مولانا آزاد نے شروع کی تھی۔ اُس وقت اِس کی ضرورت تھی۔ تو اس لحاظ سے ترقی پسندوں نے بھی دُرست کیا، اور ن م راشد نے بھی درست کیا۔ ترقی پسند تحریک اِن زاویے سے ہمارے لیے بامعنی تھی کہ معاشرہ جس فرسودگی میں گرفتار تھا، اس کے پیش نظر ایسے افراد کی ضرورت تھی، جو کہیں کہ یہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ دُرست نہیں۔ سرسید کے زمانے ہی سے اصلاحی تحریک شروع ہوگئی تھی۔ ترقی پسند تحریک ایک اصلاحی تحریک بھی تھی، اور انقلابی تحریک بھی تھی۔ یہ ایک قسم کی بغاوت تھی۔
اقبال: اردو ادب میں ایک اور بغاوت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟
انتظار حسین: بغاوت کی تو ضرورت ہے، لیکن اب معاشرے میں اتنی سکت نظر نہیں آتی کہ کوئی تحریک شروع ہوسکے۔
اقبال: اِس کا سبب؟
انتظار حسین: دراصل مخالف عناصر اتنے طاقت وَر ہیں کہ اُن کے سامنے لبرل حلقے خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ وہ اسلحے سے لیس ہیں۔ اب تشدد کا دور آگیا ہے۔ جب ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تھی، اُس وقت تشدد کا دور نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ کتاب ضبط کر لیتے۔ ’’انگارے‘‘ ضبط ہوگئی، مگر کسی نے یہ تو نہیں کہا کہ ہم تمھیں قتل کر دیں گے۔
اقبال: آج تشدد کا دور ہے، قتل تک بات پہنچ چکی ہے، ایسے میں ادبی کانفرنسیں اور سیمینار کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟
انتظار حسین: میرے خیال میں اِن کا اثر پڑے گا۔ اِن کی آج بہت ضرورت ہے۔ ’’وہ‘‘ اپنا کھیل تو کھیل رہے ہیں، مگر ہماری سرگرمیوں پر انھیں فی الحال اعتراض نہیں۔ ممکن ہے، مستقبل میں وہ اِس پر بھی اعتراض کریں، لیکن فی الحال ایسا نہیں۔ دراصل ہم براہ راست انھیں چیلینج نہیں کر رہے۔ اور اچھا کر رہے ہیں۔ اگر براہ راست چیلینج کریں، تو یہ سارا سلسلہ ابھی ختم ہوجائے گا۔
سوال: ادیب کو لکھنے کی تحریک کہاں سے ملتی ہے، معاشرے سے یا اندرون سے؟
انتظار حسین: دونوں ہی طریقے ہیں۔ سب کچھ باہر نہیں ہوتا، آدمی کے اندر بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ آدمی فقط خارجی سطح پر زندہ نہیں رہتا۔ جدید نفسیات بتاتی ہے کہ آدمی کے اندر کتنا کچھ ہے۔ آدمی جتنا باہر پھیلا ہے، اتنا ہی اندر گہرا ہے۔ انسانی تخیل میں پوری کائنات آباد ہے۔ لکھنا، خارجی اور داخلی، دونوں سطحوں پر ردعمل کا نام ہے۔
سوال: اِس ’’ردعمل‘‘ میں آپ مقصد کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟
انتظار حسین: نہیں، جس طریقے سے مقصدیت کا پرچار کیا جاتا ہے کہ افسانے کا ایک مقصد ہونا چاہیے، میں اُس کے خلاف ہوں۔ ہم مقصد پیش نظر رکھ کر نہیں لکھتے۔ ہم تو کہانی لکھ رہے ہیں، مقصد اُس میں خود بہ خود برآمد ہوتا ہے۔ کہانی پر مقصد مسلط نہیں کرنا چاہیے۔ لکھتے ہوئے ہمارا شعور اس میں Contribute کرتا جاتا ہے۔ جو کچھ ہم سوچتے ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح اظہار پاتا ہے۔ تو مقصد ازخود آئے گا۔
سوال: کیا فقط تفریح طبع کے لیے لکھا جاسکتا ہے، کیا ادیب کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ صرف ذاتی خوشی کے لیے لکھے؟
انتظار حسین: یہ بھی ہوتا ہے۔ لکھنے والے کا مزاج ہے۔ آدمی کہتا ہے کہ مجھے کسی کے معاملات سے مطلب نہیں۔ اچھا لگتا ہے، اِس لیے لکھ رہا ہوں۔ تفریح طبع سے مطلب یہ ہے کہ انسان میں لکھنے کی خواہش ہے۔ وہ خوشی کے لیے لکھ رہا ہے۔ ہم قافیے ردیف میں کھیل رہے ہیں کہ ایک شعر ہوگیا۔ ہمیں وہ اچھا لگا۔ انسان اپنے بچپن کے اثرات قبول کرتا ہے۔ ہم بچپن میں دیکھتے ہیں کہ مشاعرہ ہورہا ہے، شاعر کو داد مل رہی ہے۔ خواہش ہوتی ہے کہ ہم بھی لکھیں۔ تو انسان کا جی چاہتا ہے، کوئی مقصد پیش نظر نہیں ہوتا۔
اقبال: آپ کے نزدیک قاری، لکھاری سے کیا تقاضا کرتا ہے؟ کیا وہ فقط ادبی ذوق کی تسکین کے لیے پڑھتا ہے یا کچھ سیکھنے کا بھی آرزو مند ہوتا ہے؟
انتظار حسین: ادب پڑھنے کا معاملہ بھی لکھنے کے ابتدائی تجربے جیسا ہے۔ آپ کو شاعری اچھی لگتی ہے، تو آپ اُسے پڑھتے ہیں۔ کہانیوں سے آپ محظوظ ہوتے ہیں۔ پڑھتے پڑھتے آپ کا ادبی شعور پختہ ہوتا جاتا ہے۔ آپ اچھے برے میں تمیز کرنے لگتے ہیں۔ یہ عمل ازخود ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ ادبی ذوق کی تسکین کے لیے پڑھتے ہیں، اور اِس سے آپ کا شعور بھی بلند ہوتا ہے۔
اقبال: عسکری صاحب کے ساتھ آپ کا خاصا وقت گزرا۔ ’’بستی‘‘ کا انتساب بھی اُن ہی کے نام ہے۔ اُن کے نظریات میں جو تبدیلی آئی، آپ اُسے کیسے دیکھتے ہیں؟
انتظار حسین: ہمارے ہاں صحیح معنوں میں اگر کوئی نقاد گزرا ہے، تو وہ محمد حسن عسکری تھے۔ آپ اُس تنقید کو پڑھ کر دیکھیں، جو 40 اور 50 کی دہائی میں لکھی گئی، پھر عہد حاضر کی تنقید دیکھیں۔ گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، شمس الرحمان فاروقی، وارث علوی کی تنقید پڑھیں، اور جو کچھ احتشام الحق اور آل احمد سرور نے لکھا ہے، اُسے پڑھیں۔ اور دیکھیں کہ اِس تنقید اور اُس تنقید میں کتنا فرق ہے۔ وہ ابتدائی زمانہ تھا۔ مولانا حالی کی کتاب ’’شعر و شاعری‘‘ اِس لحاظ سے اہم ہے کہ اُس سے اردو تنقید کا آغاز ہوتا ہے، وہ ’’لینڈ مارک‘‘ ہے۔ وہ نہیں ہوتی، تو ہمیں کتنے ہی عرصے انتظار کرنا پڑتا، مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ وہ کتاب تنقید کے اعتبار سے کوئی اعلیٰ معیار پیش نہیں کرتی۔ یہی معاملہ ابتدائی ناقدین کا ہے۔ اُنھوں نے زمین ہم وار کی، اُن میں چند اچھے نقاد بھی مل جائیں گے، مگر جو پہلا نقاد ابھر کر آیا، وہ محمد حسن عسکری ہی تھے۔
اقبال: کیا اردو تنقید میں پاکستانی سیکشن کچھ کم زور رہا؟
انتظار حسین: شروع میں ہمارے ہاں بہت اچھے نقاد تھے، مگر وہ ایک ایک کرکے جوانی ہی میں گزر گئے۔ سلیم احمد تھا۔ پھر سجاد باقر رضوی، سہیل احمد اور سراج منیر تھے۔ یہ سب بہت ہونہار تھے۔ پتا نہیں آگے چل کر کیا رنگ نکلتا۔ اُس کھیپ میں مجھے سہیل احمد کی شکل میں ایک بڑا نقاد نظر آرہا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ عسکری کی ٹکر کا نقاد بنے گا، مگر زندگی نے وفا نہیں کی۔ تو وہی پرانے نقاد رہ گئے۔ ہندوستان میں تنقید کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ شاعری کا عمل تو وہاں بالکل پٹ گیا۔ سارے شاعر یہاں آگئے۔ اگر قرۃ العین حیدر ہندوستان نہ جاتیں، تو وہاں کوئی بڑا افسانہ نگار نہیں ہوتا۔ ایک قرۃ العین کے جانے سے ہندوستان میں اردو افسانے کی تھوڑی ساکھ بنی۔
اقبال: کچھ نقاد فکشن میں پاکستانی برتری کی بات کرتے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
انتظار حسین: ہندوستان میں بھی اچھی کہانیاں لکھی گئیں، لیکن شاید ہمارا ریکارڈ بہتر ہے۔ البتہ میں اِس بحث میں نہیں جائوں گا۔ میں کہہ چکا ہوں کہ یہ ایک روایت ہے۔ مثلاً جب تجریدی اور علامتی افسانہ لکھا جارہا تھا، تو ہمارے ہاں یہ توجیہہ دی جاتی کہ حقیقت نگاری ممکن نہیں، کیوں کہ مارشل لا لگا ہوا ہے۔ اظہار پر پابندی ہے۔ مگر اُسی رنگ میں ہندوستان میں بھی افسانے لکھنے جانے لگے۔ بلراج مین را، سریندر پرکاش پیدا ہوگئے۔ تو تقسیم نے اِس رجحان کو روکا نہیں۔ یہ ایک ہی وقت میں ہندوستان اور پاکستان میں آیا، کیوں کہ روایت ایک تھی۔
اقبال: آپ نے ایک بار کہا تھا کہ آپ کی کہانی علامتوں تک تو گئی، مگر تجرید تک نہیں گئی۔ البتہ یہاں تجریدیت کا بھی تجربہ ہوا۔ اور کچھ کو شکایت ہے کہ اِس سے قاری بھاگ گیا۔
انتظار حسین: تجریدیت کا تجربہ بھی ہونا چاہیے تھا۔ ممکن ہے، مجھے اپنا کوئی ایسا افسانہ نظر آجائے، جس میں تجرید کا رنگ غالب آگیا ہو۔ البتہ یہ میرا کام نہیں ہے کہ اپنی تخلیق کو اس زاویے سے دیکھو۔ یہ نقادوں کا کام ہے۔
اقبال: تو یہ رنگ آنا چاہیے تھا؟
انتظار حسین: بالکل۔ دراصل حقیقت نگاری ایک پورا سفر کر چکی تھی۔ پریم چند سے یہ تحریک شروع ہوتی ہے۔ وہاں سے سن 50 تک آجائیں۔ لمبا سفر ہے۔ اتنے عرصے بعد تبدیلی نہیں آتی، کوئی ردعمل نہیں ہوتا، تو جمود آجاتا۔ ہمارا افسانہ ٹھہر جاتا۔ تو ایک بغاوت ہوئی، ایک نئی طرز پر افسانہ لکھنے کی کوشش ہوئی۔
اقبال: انورسجاد نے جو تجریدی ڈھنگ اپنایا اُسے آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
انتظار حسین: انور سجاد کو کریڈٹ یہ جاتا ہے کہ اُس نے اُس اسلوب سے، جو روایت بن چکا تھا، بغاوت کی۔ اُس کا افسانہ کیسا ہے؟ یہ بعد کی بات ہے، مگر بغاوت کا، ایک نئے اسلوب کی نشان دہی کا کریڈٹ اُسے ہر صورت جاتا ہے۔ حالاں کہ وہ ترقی پسند تھا، لیکن ایک باغی کی حیثیت سے اپنے لیے وہ اسلوب چنا، جسے ترقی پسند تحریک نے منظور نہیں کیا تھا۔
اقبال: اِس اسلوب کا مستقبل آپ کو نظر آتا ہے؟
انتظار حسین: اُس کے بعد اچھے افسانے بھی لکھے گئے۔ ہندوستان میں اچھے افسانہ نگار پیدا ہوئے۔
اقبال: آپ کے ہاں ہمیں گنگا جمنی کلچر ملتا ہے۔ اس خطے کی اساطیر، جاتک کتھائیں، دیومالائی قصّے آپ نے بازیافت کیے، اِس تجربے کا کیا سبب رہا؟
انتظار حسین: دیکھیں، تقسیم ہند کے بعد تاریخ ہمارے لیے مسئلہ بن گئی۔ فوراً یہ سوال کھڑا ہوگیا کہ نیا ملک بن گیا ہے، آگرہ اور دلی وہیں رہ گئے، اب اُن سے ہمارا کیا تعلق۔ ادبی حلقوں میں پہلے یہ سوال کھڑا ہوا۔ ایک گروہ نے کہا؛ ہماری تاریخ موئن جودڑو سے شروع ہوتی ہے۔ وہ گروہ، جو مذہبی انداز میں سوچتا تھا، اُس نے کہا؛ ہماری تاریخ تو محمد بن قاسم سے شروع ہوتی ہے۔ تو یہ تنازع چلا۔ ہماری شناخت گنگا جنمی تہذیب بنی، جس کا یہاں آکر عسکری صاحب نے نام تھوڑا بدل دیا، اور اِسے ہند اسلامی تہذیب کہا۔ دراصل جب مختلف خطوں سے عربی، فارسی اور تُرکی بولنے والے فاتحین کی حیثیت سے اِس علاقے میں آئے، تو شروع میں انھیں یہاں کی تہذیب اجنبی لگی۔ سنکھ کی آواز، بھجن، مندر کا گھنٹا، بت؛ یہ سب اُن کے لیے نیا تھا۔ ایک جانب میدان جنگ میں مقابلہ، دوسری جانب تہذیبی سطح پر چپقلش۔ مگر جب آپ ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں، تو بیرونی سطح پر جہاں چپقلش ہوتی ہے، وہیں اندرونی طور پر ایک تہذیبی مکالمہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ آپ اُن سے، وہ آپ سے اثرات لیتے ہیں۔ بہ ظاہر تو یہاں آنے والے فاتحین ہندوستانی تہذیب پر اثر انداز ہورہے تھے، اور اِس موضوع پر ڈاکٹر تارا چند نے ’’ہندو تہذیب پر اسلام کا اثر‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی، جسے دستاویزی حیثیت حاصل ہے، البتہ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اُنھوں نے (ہندوستانی کلچر نے) بھی ہم پر اثر ڈالا ہے۔ (ہنستے ہوئے) ہاںِ، اِس کی نشان دہی ہمارے ہاں مُلائوں نے کی کہ فلاں رسم کافرانہ ہے، ہندوئوں سے آئی ہے۔ تو یہاں ڈاکٹر تارا چند کا کردار مُلا نے ادا کیا۔ ہم نے یہ کہا کہ یہ تو تہذیبی عمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ خالص اسلامی تہذیب کہاں ہے؟ مصر میں؟ ترکی میں؟ یا سعودی عرب میں؟ خطۂ عرب میں جنھیں عہد جاہلیت کی رسمیں قرار دیا گیا، کیا اُنھیں مکمل طور پر رد کر دیا گیا؟ نہیں، بلکہ انھیں غسل دے کر اپنا لیا گیا۔ اِس طرح ہم نے یہاں کیا۔ بہت سی ہندو رسومات پر چھڑکائو کر اُنھیں اپنا لیا۔
اقبال: آپ جاتک کتھائوں، رامائین اور مہابھارت کو اپنی تہذیب کا حصہ سمجھتے ہیں؟
انتظار حسین: میں تو سمجھتا ہوں۔ فکشن رائٹر کی حیثیت سے پہلے ہم خیال کرتے تھے کہ جو مغرب سے اصناف آئی ہیں، یعنی افسانہ اور ناول، ان ہی میں اظہار ہوگا۔ ہمارے اکابرین نے داستانوں کو خرافات کہہ کر رد کر دیا۔ ’’ریشنل ازم‘‘ کی تحریک بھی ساتھ میں آئی۔ سرسید بہت بڑے ریشنلسٹ تھے۔ پریوں، جن، دیو؛ اُنھیں قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ پھر حقیقت پسندی کی تحریک کے نتیجے میں ہمیں ٹالسٹائی، دوستوفسکی اور فلائبر جیسے دیوقامت ادیب ملے۔ مغرب بہت عرصے تک جن پریوں کی اساطیر سے لاعلم رہا۔ وہاں یہ بہت بعد میں آیا، جب اُنھوں نے ’’میجک رئیل ازم‘‘ کی تحریک شروع کی۔ میں نے اُس زمانے میں لکھنا شروع کیا، جب ترقی پسند تحریک عروج پر تھی۔ میں اپنی بستی کو یاد کر رہا تھا۔ یادوں میں یہ ذکر بھی آیا کہ ہمارے گھر میں ایک ایسا کمرہ تھا، جس کے متعلق کہا جاتا کہ وہاں سایہ ہے۔ کوئی عورت کہتی، جب میں محلے سے گزر رہی تھی، مجھے وہاں چڑیل دکھائی دی۔ لوگوں پر جن آجاتے تھے۔ میں نے ’’الف لیلہ‘‘ بھی بچپن میں پڑھی تھی۔ تو جب میں نے اپنی یادداشتوں کے تحت افسانہ لکھا، تو یہ چیزیں اُس میں آئیں۔ ترقی پسندوں نے کہا؛ یہ رجعت پسندی ہے۔ اب میں نے یہ سوچ کر نہیں لکھنا شروع کیا تھا کہ میں ترقی پسندوں کے خلاف افسانہ لکھ رہا ہوں۔ مگر جب اُنھوں نے ٹھپا لگا دیا، تو مجھے بھی سوچنا پڑا۔ میں نے کہا؛ اگر یہ رجعت پسندی ہے، تو میں رجعت پسند ہوں۔ کہانی تو میں ایسی لکھ سکتا ہوں، اور ایسی ہی لکھوں گا۔
اقبال: آپ کے اِس رویے پر خاصی تنقید کی گئی۔ ترقی پسند نقاد، ڈاکٹر محمد علی صدیقی مرحوم نے بھری محافل میں آپ پر تنقید کی۔ تنقید برداشت کرنے کے لیے کتنا حوصلہ چاہیے؟
انتظار حسین: جو اچھے اور بڑے ترقی پسند نقاد تھے، جب میں نے اُن کی تنقید قبول کر لی، تو محمد علی صدیقی کی تنقید کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ تقابل کیا جائے، تو آل احمد سرور اور احتشام حسین کی تنقید ان سے بہت بلند تھی۔ یہاں سلیم احمد جیسے نقاد بھی گزرے۔ محمد علی صدیقی ایسی تنقید لکھ رہے ہیں، جو تقسیم سے پہلے طالب علم لکھا کرتے تھے۔
اقبال: اردو فکشن کا مستقبل آپ کو کیسا دکھائی دیتا ہے؟
انتظار حسین: سوال یہ ہے کہ مجھے اپنے ملک کا مستقبل کیسا دکھائی دے رہا ہے۔ جب مجھے اپنے ملک کے مستقبل کا نہیں پتا، تو ادب کے مستقبل کے بارے میں کیا بتا سکتا ہوں۔ آپ یہی لکھ دیجیے۔
اقبال: اردو زبان محدود ہوتی جارہی ہے، رسم الخط کا مسئلہ جنم لے رہا ہے، ایسے میں موجودہ ادیب کے لیے اپنا Impact پیدا کرنا، شناخت کا حصول بڑا چیلینج نہیں؟
انتظار حسین: ادب میں جان ہوگی، تو اس کا اثر ہو کر ہی رہے گا۔ Impact ضرور ہوگا۔ اتنا بڑا برصغیر تھا، کیا آپ اعتبار کریں گے کہ اردو ترقی پسند تحریک تمام تحریکوں پر غالب تھی۔ ہمارا ترقی پسند ادیب، دیگر زبانوں کے ادیبوں کو کمانڈ کرتا تھا۔ پورا ہندوستان ان کے زیرنگیں تھا۔ پھر تقسیم ہوئی، تو ہم نے دیکھا کہ ہندی والوں میں منٹو کا چرچا بہت ہے۔ وہاں منٹو پر سیمینارز ہوتے ہیں، کتابیں چھپتی ہیں۔ ہم تو سجھتے تھے کہ برصغیر میں سب سے معروف شخصیت فیض صاحب ہیں، مگر پھر اندازہ ہوا کہ منٹو تو ان سے آگے نکل گئے۔ تو ہمیں اس پر رشک ہونا چاہیے کہ اردو کا کوئی ادیب مقبولیت کی اِس انتہا کو بھی چھو سکتا ہے۔ منٹو صاحب تو ہجرت کرکے یہاں آگئے، اور عسکری صاحب نے یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستانی ادب کا سب سے بڑا نمونہ منٹو کے افسانے ہیں، اِس کے باوجود اُنھیں اِس قدر قبولیت ملی کہ کرشن چندر جو میرے زمانۂ طالب علمی میں ہندوستان کے سب سے بڑے افسانہ نگار تھے، ان سے پیچھے رہ گئے۔ پریم چند ہمارا افسانہ نگار تھا۔ جب اردو میں یافت نہیں ہوئی، تو گزر بسر کے لیے ہندی میں لکھنے لگا۔ ورنہ ہندی لکھنے کی اُسے کیا ضرورت تھی۔ اب بھی اگر یہاں (پاکستان) سے ایسا ادب پیدا ہوگیا، تو اُسے قبول کیا جائے گا۔ میں تو یہاں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں، میرے افسانہ وہاں ہندی اور دیگر زبانوں میں چھپتے ہیں۔ حالاں کہ میری ابتدائی شناخت تو یہ تھی کہ پاکستانی یا اسلامی ادیب ہے۔ (قہقہہ!)
اقبال: ’’مین بکر انٹرنیشنل پرائز‘‘ کے لیے آپ کی نام زدگی اردو داں طبقے کے لیے ایک اعزاز ہے۔ آپ جیسی چند اور روشن مثالیں بھی ہوں گی، مگر مجموعی طور پر آپ کیا دیکھتے ہیں، اردو فکشن کیا بین الاقوامی ادب کے سامنے کھڑا ہوسکتا ہے؟
انتظار حسین: اردو ادب کا بین الاقوامی دور اب شروع ہوا ہے۔ پہلے ہم بین الاقوامی ادبی دنیا کا حصہ نہیں تھے۔ محکومی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ نوآبادیاتی دور میں تھے۔ جب ہم نے انگریزی سیکھی، تو فقط ڈکنز اور ہارڈی کو نہیں پڑھا، بلکہ فلائبر اور ٹالسٹائی کو بھی پڑھ لیا، کیوں کہ اُن کا انگریزی میں ترجمہ ہورہا تھا۔ انگریزی کے ذریعے ہمارے ادب کی بین الاقوامی ادب کی جانب کھڑکی کھلی۔ پھر ہم آزاد ہوگئے۔ وہ معاشرے جو پہلے ہمیں نوآبادیات کے طور پر Treat کر رہے تھے، اب ہمیں ترقی پذیر ممالک کہنے لگے۔ اُنھوں نے رفتہ رفتہ ہمیں قبول کیا۔ انگریزوں نے یہ سوچ کر ہم انگریزی میں ادب تخلیق کر رہے ہیں، اعزازات کا سلسلہ شروع کیا۔ اِس پر ہم نے اعتراض کیا کہ افرو ایشیائی ادب کیا فقط وہ ہے، جو انگریزی میں لکھا جاتا ہے؟ نہیں۔ اس خطے کی دیگر زبانیں بھی تو ہیں۔ تب اُنھوں نے یہ گنجایش پیدا کی کہ ایسا انعام رکھ دو، جس میں دیگر زبانوں میں لکھنے والوں کو بھی نام زد کیا جائے۔ اور اتفاق سے اردو کے جس پہلے ادیب کو منتخب کیا گیا، وہ میں ہی تھا۔
اقبال: تو آپ اِسے ایک نئے سفر کے آغاز کے طور پر دیکھتے ہیں؟
انتظار حسین: میرے نزدیک جب یہ منزل آگئی کہ ایک اردو ادیب کو اُنھوں نے بین الاقوامی سطح پر قبول کر لیا، ایوارڈ نہیں ملا، یہ الگ بات ہے، لیکن اگر قبول کر لیا، تو وہ مستقبل میں بھی دیکھیں گے کہ اردو میں کون کون لکھ رہا ہے۔ کیسا لکھ رہا ہے۔ اگر اچھا لکھنے والا یہاں نہیں ہوا، ہندوستان میں ہوا، تو وہ نام زد ہو گا۔
اقبال: نوجوانوں ادیبوں کو کوئی مشورہ؟
انتظار حسین: یہی مشورہ ہے کہ دیکھیں دنیا میں کیا لکھا جا رہا ہے۔ کھڑکی کھلی رکھیں۔ ہم نے جو سیکھا، اپنی نانی اماں کو بعد میں یاد کیا، پہلے تو ہم نے چیخوف سے سیکھا۔ انگریزی کی شدبد ہوئی، تو ڈکنز اور ہارڈی کو پڑھا۔ اِس کے وسیلے انگریزی فرانسیسی، جرمن اور روسی ادیبوں کو پڑھا۔ تو ہمیں کھڑکیاں کھلی رکھنی چاہییں۔ مشرق کی بے شک ایک روایت ہے، مگر جو مرکز ہے، وہ مغرب میں ہے۔ ان کی طرف سے ہم آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔
اقبال: اِس عمر میں اتنے متحرک، کیا راز ہے؟
انتظار حسین: پتا نہیں کیا راز ہے (ہنستے ہوئے)۔ یہ تو خود بہ خود ہوتا ہے۔ میری کسی اور شے میں Involvement نہیں رہی۔ ہاں اخبار نویسی کرتا رہا ہوں، وہ میری مجبور تھی۔ میں اخبار نویس نہیں بننا چاہتا تھا، مگر میرے لیے کوئی دوسرا پیشہ نہیں تھا۔ ایم اے اِس نقطۂ نگاہ سے کیا تھا کہ تدریس کے پیشے میں چلا جائوں، مگر کسی انٹرویو میں کام یاب نہیں ہوا۔ اخبار نویسی کی جانب آگیا۔ البتہ میں نے اخبار نویسی کو افسانہ نویسی سے بالکل الگ رکھا۔ آج جو سیاسی تجزیہ کار ہیں، کالم نگار ہیں، وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ ان کی یافت اور رسائی بہت ہے۔ ہم تو سماج پر اور ادب پر کالم لکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔
اقبال: آپ بیتی آچکی ہے، اب مزید جستجو کیا ہے؟ مستقبل کا کوئی خاص منصوبہ؟
انتظار حسین: مستقبل کا کسے معلوم۔ میں تو اپنے بکھرے کام سمیٹ رہا ہوں۔ کوشش ہے کہ جو تحریریں بکھری پڑی ہیں، جو تنقیدی مضامین ہیں، انھیں یک جا کیا جائے۔ افسانہ کیسے لکھیں، سیمینار آجاتے ہیں، مضمون لکھنا پڑتا ہے۔ کچھ ڈرامے لکھے تھے، وہ جمع کر رہا تھا۔ کچھ خاکے لکھے تھے، اُنھیں اکٹھا کر رہا ہوں۔ بس، اب یہی معاملہ ہے۔
فکشن کے اِس فسوں گر سے ملاقات کے بعد جب ہم دھواں دیتی چائے کا کپ لیے بحیرہ عرب کے کنارے کھڑے تھے، تو عجیب لمحہ اترا۔ پنچھیوں کے جھنڈ میں ایک پکھیرو نے پر پھیلائے، اور وسعتوں کی سمت اڑان بھری۔ وہ اوروں سے الگ تھا کہ اُس کی روح آزاد تھی۔۔۔
وہ نئے آسمانوں کی تلاش میں تھا۔۔۔
ہوم << لکھا، تو کہانی بن گئی ۔ عہد ساز فکشن نگار، انتظار حسین سے خصوصی مکالمہ - اقبال خورشید
تبصرہ لکھیے