ہوم << یہ میرے رب کا فضل ہے-لطیف النساء

یہ میرے رب کا فضل ہے-لطیف النساء

سبحان اللہ!ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ہم نے کتنی قربانی دی کتنی محنت کی مگر نتیجہ کچھ نہیں، بسا اوقات ہم اپنے آپ سے تو کیا اپنے رب سے بھی مایوس ہو جاتے ہیں اور کفریہ کلمات ادا کرنے لگتے ہیں۔ہم سورہ کہف میں پڑھتے ہیں کہ خضر علیہ السلام کے ساتھی نے ان سے کہا کہ ظلم کیا ہے ایسا کیوں کیا کیونکہ وہ حقیقت سے ناواقف تھے مگر جب ان پر حقیقت واضح کر دی گئی کہ میرے رب کا فضل ہے اور میں نے اپنی مرضی سے کچھ نہیں کیا اے موسیٰ! پھر وہ سمجھ گئے اپنی لاعلمی اور رب کی حکمت کو اور جب بھی پیغمبروں نبیوں کو کوئی کامیابی انتہائی مشقت کے بعد نصیب ہوتی تو وہ اللہ کے نیک بندے اللہ ہی کی تسبیح بیان کرتے اور اپنے رب کے آگے جھک جاتے ہیں مطلب جتنی بڑی فتح اتنا عظیم سجدہ شکر ِربی ہوتا!یعنی عبادت کی بہترین شکل" سبحان اللہ"!۔ ارشد ندیم کی وہ ادا جو اپنی کامیابی پر انہوں نے سجدہئ شکر ادا کر کے پوری دنیا کے سامنے مگر پوری دنیا سے لاتعلق ہو کر فوری سجدہئ شکر ادا کیا!اور یہ بات عیاں کر دی کہ "ھٰذا من فضل ربی" یہ میرے رب کا فضل ہے یہ میرے نزدیک سب سے بڑی کامیابی تھی کہتے ہیں نہ کہ Action speaks louder than voice عمل آواز سے زیادہ بلند آواز میں بولتا ہے۔وہی بات تھی ایک عالمی پیغام کہ رب کی ذات عظیم ہے، عطا اسکی ہی ہے، میں عاجز اور لاچار بندہ ہوں اللہ تیرا ہی شکر ہے تو جسے چاہے عزت دے میں تیرا بڑا شکر گزار ہوں کامیابی پر!بے شک دولت، عزت، شہرت، اولاد، صحت،رشتے سب ہی تو اللہ کی عطا ہیں جو شخص نیزہ لینے کی حیثیت نہ رکھتا ہو اور لوگوں کی بھی کوئی سپورٹ نہ ہو مگر ایک تڑپ ہو لگن ہو، کچھ کر جانے کا خالص جذبہ ہو، محنت ہو تو رب کی ذات تو ہے ہی قدردان وہ ضرور اس بندے کو نوازتا ہے جو مخلص ہو بے لوث ہو، لوگ اسے شاید زیرو سمجھتے ہوں مگر قدردان رب جب چاہے جسے چاہے ہیرو تو کیا سپر ہیرو بنا دیتا ہے۔ ایسا ہیرو سجدہئ شکر ادا کر کے مسلمانوں کے احساس کو چار چاند لگا جاتا ہے اور ابھارتا ہے کہ واقعی سجدہ ئ شکر کتنا بڑا اظہار مسرت اور رب کی کبریائی کا خاموش پیغام ہے سبحان اللہ!مبارک ہو میرے ملک کے اس بیٹے کو اس بھائی کو جس نے ہم مسلمانوں کی اس اہم تدریس کو عملی شکل میں دیکھا کر رب کی کبریائی کا اعلان کیا اور کہا کہ:

نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ہوتی ہے خدا کو یاد کرنے سے

بہترین عبادت سجدہ ئ شکر! بچپن کا رٹا رٹایاشعر یاد آگیا اور واقعی انسان کی عظمت کو تولا نہیں جاتا ہر بندے کا معاملہ اس کا خالق خود جانتا ہے۔ارشد ندیم سے کوئی واقف نہ تھا، آج کیسے ہر خاص و عام کو اس کا نام اور کام خوش کر رہا ہے یعنی کہ

انسان کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو
انسان تو ہر دور میں انمول رہا ہے

ایک انعام وہ ہے جو دنیا کے اسٹیج پر دنیا والے دیتے ہیں میرٹ کی بنیاد پر اس کی کامیابی کے لیے کیسے اصول و ضوابط کی پابندی کروائی جاتی ہے،کی جاتی ہے اور جیت پر کیسے خوشیاں منائی جاتی ہیں اور یہ سب خالق کائنات کے لیے کتنا آسان ہے جب ہم دنیا کی کامیابی کے لیے اتنی تڑپ، طلب اور لگن رکھتے ہیں تو اس خالق دو جہاں کے لیے ہمارا عمل کیسا ہونا چاہیے؟جو ہر ادا پر بن مانگے ہمیں نوازتا ہی رہتا ہے!یوم آزادی کے اس مہینے میں ارشد ندیم بھائی کا یہ انعام یہ جیت ہم سب کے لیے لمحۂ احتساب ہے، لمحہ فکر ہے اور لمحہ شکر بھی کہ ہم اج بھی اپنی کھوئی ہوئی حالت کو سدھار کر دنیا جہاں کو جیت سکتے ہیں اور بڑی کامیابی آخرت کی کامیابی کے لیے باعمل ہو سکتے ہیں کیونکہ حقیقی کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے ہار جیت کا معاملہ تو وہاں ہمیں ہی درپیش ہوگا۔ اس کامیابی کے لیے تو رب تعالی نے ہمیں مسلمان بنا کر آزاد ملک عطا کیا، لاکھوں مسلمانوں اور اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں سے حاصل کردہ اس اسلامی ملک کی قدر ہم نے کیا کی؟ آج پھر اس نوجوان نے ہمیں پوری دنیا میں عزت دلوائی ہے اپنی پر خلوص محبت اور محنت سے۔ جب ایک پاکستانی یہ کام کر سکتا ہے تو ہم پاکستانی ایک ہو جائیں،نیک ہو جائیں اور اپنی حیثیت سے اللہ کی مانیں اور اس ملک کی قدر کریں،صبر شکر سے محنت کریں اور امت مسلمہ کے لیے نیک نیت اور پر خلوص ہو کر اپنی اپنی دنیاوی اور دینی ذمہ داری پوری کریں، حق کا ساتھ دیں اور ایمان تجدید کے ساتھ دوبارہ اپنے ملک کے استحکام اور خوشحالی کے لیے اپنے مشن کے لیے کمر بستہ ہو جائیں تو کیا ہم کامیاب نہ ہوں گے،سرخرو نہ ہوں گے؟ ضرورت عمل کی ہے،جدوجہد کی ہے، ایمانی طاقت کی ہے، عمل اور جرأت کی ہے، احساسِ ذمہ داری کی ہے۔ پھر مشکل کوئی مشکل نہیں، ہم اپنی نوجوان نسل سے مایوس نہیں، ہمارا مستقبل انشاء اللہ روشن ہے۔آزادی کے مہینے میں اس نوجوان کا یہ بہترین تحفہ اشارہ ہے سدھار کا، تعمیر کا، اخلاق کا، کردار کا یعنی:

سبق پھر پڑ ھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا