میں سن شعور سے تا دم تحریر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ”عوام“ کا مطلب کیا ہو تا ہے۔ کتابوں میں بڑھو تو مطلب اچھا ہی درج ہے، یعنی کسی بھی ملک میں رہنے اور بسنے والے لوگ۔ ان کے ساتھ ”خواص“ کاذکر بھی آتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو رہتے تو اسی ملک میں ہیں لیکن ذہنی طور پربہت ہی ”مفلس“ اور ”معذور“ ہوتے ہیں۔ مفلس اور معذور ہونے کی وجہ سے ان کو’’بھیک“ مانگنے کے لئے عوام کے ”سہارے“ کی ضرورت پڑتی ہے۔
بھیک تو یہ کئی سال کے بعد مانگتے ہیں بالکل ان گدا گروں کی طرح جو ”جمعرات کے جمعرات“ آتے ہیں لیکن ان کو ”بسبب معذوری“ عوام کے سہارے کی ہر لمحہ ضرورت درکار ہوتی ہے، آپ اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ قریب قریب تمام ”گداگر“ سوانگ رچانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ بھی کوئی کم ”بہروپیئے“ نہیں ہوتے عوام کو مسلسل دھوکے میں رکھنے کے لئے نت نئے ”ماسک“ اور بیوقوف بنانے کی نئی نئی تدابیر سوچتے اور ایجاد کرتے رہتے ہیں۔
بجلی کا بہران چھ ماہ میں حل ہوجائے گا، لاکھوں غریب غربا (ہم جیسے) کو روز گار مل جائے گا، ملک کو یورپ بنا دیں گے (وہ شوق میں ننگے پھرتے ہیں ہم کپڑے تک اتر والیں گے)، سڑکوں کا جال بچھا دیا جائے گا (کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں جو اپنے اور بچوں کے لئے خریدی ہیں آخر ان کو چلانا اور دوڑانا بھی تو ہے) وغیرہ وغیرہ۔
عوام کے سامنے جب اپنی غربت اور معذوری کا پرچار کرنا ہوتا ہے تو یہ عوام کے آگے ہوتے ہیں اور عوام جلوسوں اور ریلیوں کی صورت میں میلوں تک ان کے پیچھے قطار در قطار چل رہے ہوتے ہیں اور ان سے بھی کہیں بڑھ کر ان کی ”مفلسی اور معذوری“ کا رونا رورہے ہوتے ہیں اور جب یہ عوام سے بھیک (ووٹ) مانگ رہے ہوتے ہیں تو ان کا چہرہ عوام کے سامنے ہوتا ہے، جلوس تھم جاتا ہے، ریلیاں رک جاتی ہیں، آس پاس کے گھروں سے بھی عوام باہر نکل کر ان مفلس گداگروں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ گدا گر اس زور سے اپنے مفلس اور معذور ہونے کا رونا روتے ہیں کہ سامنے کھڑے عوام غم سے نڈھال ہوجاتے ہیں اور ماحول سسکیوں اور آہوں سے گونج اٹھتا ہے۔
امید بہت بڑا سہارا ہوتی ہے، ان کو بھیک (ووٹ) دینے کے بعد عوام کبھی بجلی کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، کبھی اپنی گلی میں ابلتے ہوئے گٹر کو دیکھ کر سوچ رہے ہوتے ہیں کہ یہ بس اپنا پانی کچھ ہی دیر میں ”نگل“ لیں گے، چولہوں میں گیس آجائے گی، بچوں کو مناسب روز گار مل جائے گا، تعلیم مفت ہوجائے گی، کارخانوں کے کارخانے تعمیر ہوجائیں گے، کھانے پینے کی اشیا سبزی والا گھر پر مفت فراہم کررہا ہوگا، ٓسمان سے ”من و سلویٰ“ اتر رہا ہوگا، گٹر کی بجائے دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہونگی، ہائے ہمارے ”معصوم“ عوام، صابر عوام، خوش فہم عوام، جذبہئ حسن ظن سے سر شار عوام، بڑے سے بڑا دھوکا کھانے کے بعد بھی جھوم جھوم کے، لہرہا لہرہا کے اور ناچ ناچ کے، سب ہم آواز ہوکر یہ نظم گا رہے ہوتے ہیں۔
ابھار کر مٹائے جا، بگاڑ کر بنائے جا
کہ میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا
تری بہار کا مدار اگر ہے میرے خون پر
ہنوز سینہ چاک ہوں ہنوز اسیر خاک ہوں
ہنوز سینہ چاک ہوں ہنوز اسیر خاک ہوں
فغاں کہ مجھ غریب کو حیات کا یہ حکم ہے
سمجھ ہر ایک بھید کو مگر فریب کھائے جا
تبصرہ لکھیے