ہوم << الماس العین خالد کی کتاب"تقدیر امم" پر تبصرہ- صائمہ اختر

الماس العین خالد کی کتاب"تقدیر امم" پر تبصرہ- صائمہ اختر

ڈیکارٹ کہتا ہے۔
"اچھی کتابیں پڑھنا ماضی کے عظیم ترین اذہان سے گفتگو کرنے کے مترادف ہے۔"
کتابیں ہماری بہترین ساتھی ہیں جو کائنات کو روح بخشتی ہیں،ذہن کو پر عطا کرتی ہیں اور ہمارے تخیل کو بلندی کی طرف لے کر جاتی ہیں۔کتابیں ہماری خاموش استاد ہوتی ہیں جو ہمیں جینے کا قرینہ سیکھاتی ہیں۔ان تمام اصول و قواعد کی پیروی کرنا سیکھاتی ہیں جن پر علم پیرا ہو کر ہم معاشرے کے کار آمد رکن بن سکتے ہیں۔
گٹھولڈ لیسنگ کہتا ہے۔
"دنیا اکیلے کسی کو مکمل انسان نہیں بنا سکتی،اگر مکمل انسان بننا ہے تو پھر اچھے مصنفین کی تصانیف پڑھنا ہوں گی۔"
ایک اچھی کتاب کا مطالعہ ہمارے اندر مثبت تبدیلی لاتا ہے۔ہمارے سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کے نقطہ نظر کو بدلتا ہے۔کتابیں ہمارے عقل و شعور میں پختگی پیدا کرتی ہیں۔اس لیے اچھی کتابیں پڑھیں تاکہ اپنے اندر شعور اور آگاہی پیدا کر سکیں۔حال ہی میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی لکھاری الماس العین خالد کی تصنیف "تقدیر امم" پڑھنے کا موقع ملا۔الماس العین خالد شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ مختلف اخبارات طالب نظر،صدائے حق،کرک ٹائمز،بارڈر لائن، ڈیلی کشمیر،افلاک،سسٹم،پاکستان پوائنٹ اور کچھ آنلائن میگزین میں ان کے افسانے،کالم اور شاعری شائع ہوتے رہتے ہیں۔ الماس العین خالد بیک وقت کالم نگار،شاعرہ،افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار ہیں۔انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں کاغذ اور قلم سے رشتہ بنا لیا ۔سکول کالجز میں تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار بھی کرتی رہیں ان کے کالم،اصلاحی مضامین اور شاعری کالجز کے میگزین میں شائع ہوتے رہے۔بہت کم وقت میں اپنی پہچان بنانے والی الماس العین خالد جیو انٹرٹینمنٹ کے ساتھ بطور ڈرامہ نگار 2014ء سے منسلک ہیں۔ انہوں نے جیو انٹرٹینمنٹ کے لیے پہلا ڈراما 2014ء میں "کہاں تم چلے گئے"لکھا،2018ء میں ان کا دوسرا ڈرامہ"کیف بہاراں" کے نام سے منظر عام پر آیا جسے بہت پسند کیا گیا۔2020ءمیں"رمضان ٹرانسمیشن میں مقبول ہونے والی سیریز"دکھاوا "کے لیے بھی دو کہانیاں"لباس"اور"بہو رانی"لکھیں۔"تقدیر امم" مصنفہ کی پہلی کتاب ہے۔ ۔زیر تبصرہ کتاب"تقدیر امم"نےعلم وادب پبلیشرز سیالکوٹ کے زیر اہتمام طباعت کے مراحل طے کیے ہیں۔ 144 صفحات اور 44 مضامین پر مشتمل یہ گلدستہ ادب کے باغ میں اپنی خوشبو بکھیر رہا ہے۔مصنفہ کے قلم سے نکلنے والے پر تاثیر الفاظ کی طاقت نے ادبی حلقوں میں خود کو منوایا ہے۔ان کی تحاریر اصلاحی نوعیت کی ہیں جن سے قاری کو کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ان کی ہر تحریر سوچ و فکر کی دعوت دیتی ہے۔نسل نو کی کردار سازی میں یہ کتاب اہم کردار ادا کرے گی اور ان کے لیے مشعل راہ ثابت ہو گی۔شاندار سرورق اور جاندار تحریروں نے کتاب کی قدر و قیمت کو بڑھا دیا ہے۔سرورق پہ لکھا وحدتِ اسلامی کے پروردہ،زبانِ عجم،ترجمان حقیقت،فلسفی،شاعرِ مشرق،مصور پاکستان اور حکیم الامت حضرت محمد علامہ اقبال کا شعر اس کتاب میں موجود تمام موضوعات کی ترجمانی کرتا ہے۔ان کے لکھے تمام مضامین میں ایک ربط اور تسلسل ہے جس نے ہر تحریر کو دوسری تحریر کے ساتھ بڑی خوبصورتی سے جوڑ دیا ہے۔انہوں نے موضوعات سے مطابقت رکھنے والے فارسی،عربی اور اردو اشعار کے نگینے سجا کر اپنی تحریروں میں جان ڈال دی ہے۔قرآن و احادیث کے خوبصورت حوالے دل کو چھو جانے والی شاعری اور اپنی پختہ فکر اور تخلیقی صلاحیتوں سے" تقدیر امم" کو ایسے ترتیب دیا ہے کہ قارئین پر سحر سا طاری کر دیا۔ نامور صحافی اور کالم نگار اوریا مقبول جان کے تاثرات کتاب کے آغاز میں درج ہیں مصنفہ کے اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"اسلوب تحریر میں جادو ہے اور نثر کی خوبصورتی کہیں بھی موضوع کی سختی اور سنجیدگی سے متاثر نہیں ہوتی،بلکہ جہاں کہیں بھی تحریر میں معاملات کی جدیدیت اسے بوجھل بنا سکتی تھی،انہی مقامات پر مصنفہ نے اپنی نثر کی جادو گری کو مزید خوبصورت بنایا ہے"۔
پی ایچ ڈی سکالر،ماہر تعلیم،محقق،نقاد اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر نعمت اللہ ارشد گھمن صاحب نے مصنفہ کی کتاب کو بصیرت افروز مرقع قرار دیا ہے اور ان کی کتاب کا نہایت خوبصورت الفاظ میں تجزیہ پیش کیا ہے۔پیش لفظ مصنفہ نے خود تحریر کیا ہے۔ جس میں انہوں نے اپنی بچپن سے اب تک کی اپنی شخصیت سازی میں جو عوامل کار فرما رہے ان کا ذکر کیا۔ان کی شخصیت سازی میں ان کے والدین کے کردار پر بات کی اور امت مسلمہ کی کامیابی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کو قرار دیا۔"تقدیر اُمم"الماس العین خالد کے کالموں پر مشتمل رشحاتِ قلم کا شاہکار ہے۔الماس العین خالد نے اپنی کتاب میں بصیرت و بصارت کی ایک کہکشاں بکھیر دی ہے جس میں ہم وطنوں کے لیے ہمدردی کے جذبات بھرے ہوئے ہیں۔دین سے دوری،بدحالی کے اسباب،حقوق کی عدم دستیابی،رشتوں کے تقدس کی پامالی،سیاست،جھوٹ و فریب،تجارت،بچوں کی تربیت،سماجی برائیوں غرضکہ زندگی سے جڑے تمام معاملات اور مسائل کو موضوع سخن بنایا ہے۔ان کے یہ کالم مختلف علاقائی اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔جس میں مُصنفہ نے رب کی ودیعت کردہ قلم کی طاقت کو نیکی و ہدایت کی روشنی پھیلانے کا ذریعہ بنایا ہے اور قلم کے ذریعے جہاد کرنے کا صِلہ روزِ محشر گناہوں کا پلڑہ ہلکا اور نیکیوں کا پلڑہ بھاری ہونے کی صورت میں ملنے کی طرف نشاندھی کی ہے۔قلم کے مثبت استعمال کو اُخروی نجات کا سبب بننے کا مستند ذریعہ قرار دیا ہے۔انہوں نے اہم اور حساس موضوعات کو ایک لڑی میں موتیوں کی طرح پرو دیا ہے کہ ہر موتی کی چمک ہمارے دل اور دماغ کے دریچوں کو روشن کرتی دکھائی دیتی ہے۔ان کی ایمان افروز تحریریں ان کے پختہ علمی ذوق اور گہرے مشاہدے کی عکاس ہیں۔نسل نو کی کردار سازی اور فکری و عملی تربیت ان کا اولین مقصد ہے۔اپنے منفرد اور دلکش اسلوب سے مصنفہ نے حقائق سے روشناس کرایا اور اسلام سے وابستگی کو آخرت میں کامیابی و کامرانی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
کچھ موضوعات انتہائی مہارت اور ہنر مندی کے متقاضی تھے جسے ان کے قلم نے خوب نبھایا۔انہوں نے بار بار اپنے ہم وطنوں کو تلقین کی کہ جنہوں نے سست روی،کاہلی،عیش و آرام،راحت نفس کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا وہی لوگ کامیاب اور سرخرو ہوئے۔اس کے برعکس جس قوم نے تن پسندی اور نفسانی خواہشات کے تابع اپنی زندگیاں بسر کیں ان کا ستارہ اقبال غروب ہو گیا اور وہ تاریخ کے اوراق میں قصہ پارینہ بن کر رہ گئے۔مصنفہ نے اپنے قلم کو دین کی تبلیغ اور معاشرے کی اصلاح کے لیے استعمال کیا ہے۔مصنفہ حساس دل کی مالک لکھاری ہیں وطن اور ہم وطنوں کی محبت ان کی تحریروں سے واضح ہوتی ہے۔وہ اپنی قوم کی بھلائی اور بہتری کا سوچتی ہیں۔انہوں نے ہر موضوع کو بڑی ایمانداری اور کمال ہنر مندی سے بیان کیا ہے۔خفیف سے خفیف پہلو کو بھی بڑی مہارت سے قاری کے سامنے رکھا ہے۔انسان کو ترغیب دی کہ وہ غور وفکر کرے کائنات پر، تخلیق کائنات کے مقاصد پر، خالق کائنات پر ،عرفان خودی پر۔مصنفہ نے احکامات خداوندی اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کی پیروی کو نجات کا ذریعہ قرار دیا ہےلیکن آج کا انسان غفلت اور گمراہی میں مبتلا ہو کر اسلامی اصولوں سے روگردانی کر رہا ہے۔سیاست ہو یا تجارت،خانگی زندگی کے معاملات ہوں یا کاروباری معاملات ہم نے اپنے دین کو چھوڑ دیا ہے۔ہم آخرت کو بھول بیٹھے ہیں۔مغرب کی تقلید نے ہمیں دین سے دور کر دیا ہے۔انہوں نے ان تمام محرکات کی نشان دہی کی جو معاشرتی برائیوں کی وجہ بن رہے ہیں اور اس کے حل کی طرف بھی توجہ دلائی۔
ایک بہترین لکھاری وہ ہے جو اپنے عہد کے تمام مسائل کو بیان کرے،حقائق کو بیان کرنے میں کسی مصلحت سے کام نہ لے، پوری ایمانداری سے اور زمہ داری سے حقیقت کو قارئین کے سامنے رکھے۔الماس العین نے پوری کوشش کی ہے کہ وہ حقائق کو جانچ پرکھ کر پوری ایمانداری سے پیش کریں۔ان کی تحریر بناوٹ سے بالکل پاک ہے۔قلم کی روانی اور تسلسل قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔مصنفہ نے حقوق العباد،رشتوں کا تقدس،جبر و استحصال،سوشل میڈیا کے بڑھتے منفی اثرات،سیاست،بچوں کی تربیت،مذہب،روایات کی پاسداری،سائنس ،نسائیت،تجارت،خانگی زندگی کے معاملات،کاروبار کے اصول و ضوابط جیسے موضوعات پر قلم فرسائی کی۔زندگی سے جڑے ہر پہلو کو دین کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ہر موضوع کو کسی نہ کسی واقعہ سے جوڑ کر کمال مہارت سے بیان کیا ہے۔تاکہ قاری کی دل چسپی برقرار رہےاور اسے سیکھنے کا موقع ملے۔ان کا ہر کالم اثر انگیز ہے۔مصنفہ کا اسلوب سادہ لیکن جاندار ہے۔انہوں نے اپنے منفرد انداز میں سماجی مسائل کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ان کی یہ کتاب اردو ادب میں ان کے روشن مستقبل کی بشارت دیتی ہے۔ امید ہے ان کا یہ علمی و تحقیقی سفر جاری رہے گا ۔اللہ تعالیٰ ان کے دامن کو ڈھیروں کامیابیوں سے بھر دے۔ آمین یارب العالمین