ہوم << تعلیمی ادارے انقلاب کے مراکز- ماہین خان

تعلیمی ادارے انقلاب کے مراکز- ماہین خان

صحیح کہاگیا ہے کہ تعلیمی ادارے انقلاب کے مراکز ہوا کرتے ہیں ۔ذرا ہم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں اور تھوڑا پیچھے جاتے ہیں تو 1970 -71 کا زمانہ ہے ،متحدہ پاکستان کو وجود میں آئے تقریبا 23برس گزر چکے ہیں لیکن دشمن کو یہ گوارا نہیں ہے کہ وہ دنیا کے نقشے پہ موجود رہے ۔سوچا جا رہا ہے کہ کیسے پھوٹ ڈالی جائے۔کیسےاندر تک توڑا جائے۔ کیا حکمت عملی ہو کہ بد سے بدنام برا ہوجائے۔۔۔۔ آخر ان اسلام کے نام لیواؤں کو کیسے روکا جائے۔۔۔۔
خیال آیا کہ اگر طلبہ کو نشانہ بنایا جائے اور طلبہ کو سامنے لا کے کھڑا کر دیا جائے تو پوری حکومت کا تختہ الٹا جا سکتا ہے ۔بس پھر کیا تھا ایک زبان قومیت کو پروان چڑھانے والے بنگ بندھو(شیخ مجیب الرحمن)کو تیار کیا گیا اور اس کے زیر قیادت مغربی پاکستان میں تعلیمی اداروں کو وطن پرستی کی وہ زہریلی ڈوز دے دی گئی جس نے بالاخر مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کو جدا کر دیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی نے عبدالمالک شہید کا خون اپنی زمین میں جذب کیا، لاکھوں کی تعداد میں طلبہ شہید ہوئے، کسی کو سمندر کنارے لے جا کے غرق کر دیا گیا کسی کو سرعام جلا دیا گیا کچھ جو بچے ان کو سمندر میں چھوڑ دیا گیا ۔البدر آج بھی ان واقعات کی زندہ مثال ہیں۔ یہ کیا تھا ؟؟؟ کس نے اٹھایا یہ فساد؟؟؟
واپس اپنے آج کے 2024 میں آتے ہیں ۔ ایک مہینے سے طلبہ نے کوٹا سسٹم کے خلاف آواز اٹھائی ہوئی ہے ۔ عوام ٹیکسز اور دیگر عوام دشمن پالیسیوں سے نالاں ہیں۔آخر کون ہیں یہ طلبہ ؟ بڑی بے خوفی کے ساتھ انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیا تھا اور پھر حسینہ واجد کو انہوں نے سروں پہ بٹھایا تھا اور پھر اس کی ساری غلط اور فاشسٹ پالیسیوں کو مانا تھا ۔آج وہی طلبہ اپنی جامعات سے نکل کر اسی حکومت اسی حسینہ واجد کے خلاف کھڑے ہیں۔ صرف دو دن ،دو دن کی تحریک نے حکومت کا پورا تختہ الٹ کے رکھ دیا ۔پوری عوام ان طلبہ کے ساتھ نکل کھڑی ہوئی۔ پوری دنیا دیکھ رہی ہے وہاں آج لوگ شکرانے کے نفل ادا کر رہے ہیں ،مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں ،اپنے خود کے بنائے ہوئے جمود ڈھا رہے ہیں ،فاشسٹ مجسمے میں توڑے جا رہے ہیں۔ آخر یہ انقلاب آیا کہاں سے؟ لانے والے کون ہیں ؟کیسے یہ داستانیں رقم ہوئیں ؟
ادھر فلسطینی عوام اپنی مزاحمت کی اعلیٰ بلندیوں پر پہنچے ہوئے ہیں۔ پورا ایک سال ہونے کو آرہا ہے ۔ پورے پورے خاندان تباہ و برباد ہو گئے، شہید ہو گئے ۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر پوری دنیا میں لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ اسی سپہ سالار اسماعیل ہنیہ کی ایک کال پر پوری دنیا کے مسلمان سڑکوں پر بھی نکل آئے تھے۔ انقلاب ہے کہ اب رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ یہ ہے مزاحمت کے دو رخ ۔۔۔۔ جن سے ہماری عوام کو سیکھنے کی انتہا کی حد تک ضرورت ہے ۔آج لوگ لائنوں میں لگ کر بڑے بڑے بجلی کے بل بھرنے کے لیے تیار ہیں لائنوں میں لگ کر کے- الیکٹرک اور حکومت کو گالیاں دینے کے لئے تیار ہیں لیکن کوئی بھی اس کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے کوئی مزاحمت دکھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔جو آواز اٹھا رہے ہیں ان کے ساتھ کم از کم کھڑے تو ہو جائیں ۔کون کہتا ہے کہ آواز سنی نہیں جاتی ؟کون کہتا ہے کہ آوازیں عرش نہیں ہلاتیں؟ غزہ سے لے کر آج بنگلہ دیش تک کےمسلمانوں کی زبان سے نکلنے والے خوشی کے نعروں کا یہ سفر مزاحمت کی ایک عظیم داستان ہے۔ ایک ایسی تاریخ ہے جو دنیا میں کبھی نہیں لکھی گئی ۔مشرق وسطیٰ سے لے کے جنوبی ایشیا تک آج اسلام کا پرچم سر بلند ہورہا ہے۔ ایک وقت تھا اس امت نے بڑی تعداد میں نماز جنازہ ادا کی تھی ،اس وقت سب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور آج بنگلہ دیش کی اصل آزادی پر بھی پوری امت خوشی سے اشکبار ہے۔
سبحان اللہ۔۔۔۔ الحمدللہ۔۔۔۔ استغفر اللہ ۔۔۔۔اللہ اکبر ۔۔۔۔کے نعرے دل و دماغ میں گونج رہے ہیں۔ ہر طرف مزاحمت ہی مزاحمت نظر آرہی ہے۔ عزیمت کی داستان نظر آرہی ہے۔ دشمن خوفزدہ نظر آرہا ہے ۔حق ابھرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے ۔باطل کے شکنجے کمزور پڑتے نظر آرہے ہیں۔ بس ایک کام کرنا ہے کہ اس کو دبنے نہیں دینا ہے آج بنگلہ دیشی طلبہ نے یہ بات ثابت کر دی کہ اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو کر گزرو ۔ پوری دنیا بھی چاہے تو میں نہیں روک سکتی اگر تم حق پر ہو۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں وہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کہیں اور نہیں اپنے طلبہ پر کام کرنا ہے کیونکہ انہیں سے انقلاب آئے گاوہی ہیں جو قوم کا دھارا بدل سکتے ہیں۔
غلامی میں کام آتی ہیں نہ تدبیر نہ شمشیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

Comments

Click here to post a comment