بلدیہ عظمیٰ کراچی کی سٹی کونسل کا 6 ماہ بعد ہونے والا دوسرا اجلاس بھی ہنگامہ آرائی کی نذر ہو گیا جیالے میئر کراچی نے ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی کے دوران عجلت میں 13 مختلف قرار دادیں منظور کرا کر اجلاس ملتوی کر دیا ۔ دوسرا اجلاس بھی پہلے اجلاس کی طرح 20 منٹ میں ہی ختم ہوگیا۔ حکومتی اور حزب مخالف کے اراکین میں پہلے تلخ کلامی ہوئی اور پھر نوبت ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے قابض میئر نامنظور کے نعرے لگانا شروع کر دیے جس پر پی پی پی کے ارکان نے بھی جوابی نعرے بازی کی، اپوزیشن ارکان سے پلے کارڈ چھینے جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما نجمی عالم سمیت کئی جیالے ارکان بدتمیزی پر اتر آئے اور مغلظات بکتے رہے ، جس کی وجہ سے ایوان مچھلی بازار میں تبدیل ہو گیا ،مئیر کراچی اراکین کونسل کے شدید احتجاج اور شور شرابے کے باعث بھاگنے پر مجبورہو گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس جانور کی دم کی مثال ہیں جو بارہ سال بعد بھی جب پائپ سے نکالی گئی تو وہی ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری عادات اور اطوار بہتری کی جانب جانے کی بجائے مزید بگاڑ کی جانب رواں دواں ہیں جو اس بات کے ثبوت کیلئے کافی ہیں کہ ہم کبھی بیٹا جمہوری نہیں بن سکتے اور نہ ایسے اچھے انسان بن سکتے ہیں جو آنے والی نسلوں کیلئے مشعلِ راہ ہوں۔
پاکستان بن جانے کے فوراً بعد سے قوم کو بجائے "اسلامی" بنانے کے اسے بیٹا جمہوری بنانے کی بھر پور کوشش کی گئی لیکن جلد ہی یہ ثابت ہو گیا کہ ہمارے اندر ایسا کوئی بھی خمیر نہیں پایا جاتا جو ہمیں جمہوریت کی ڈگر پر چلا سکے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے خود ساختہ ٹھیکیداروں نے ہمیں جمہوریت کی مشینوں سے گزارنے کیلئے اپنی نگرانی میں لے لیا اور گیارہ بارہ سال شدید سبق پڑھانے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ایک بار پھر پاکستان کی ٹرین کو جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھایا جائے۔ 1970 میں بحالی جمہویت کے امتحان کا یہ نتیجہ نکلا کہ پاکستان دو لخت ہو گیا اور باقی ماندہ پاکستان پر شدید قسم کی جمہوری آمریت مسلط ہو گئی جس کا یہ ہی پتہ نہیں چل سکا کہ جنم لینے والا بیٹا جمہورا "ہی" ہے کہ "شی" ہے۔ بحالی جمہوریت کا یہ تجربہ نہایت خوفناک ثابت ہوا اسی لئے کارخانے داروں نے فیصلہ کیا کہ بنائے جانے والے جمہوری روبوٹ پر مزید کام کر کے اس سے بہتر کارکردگی کیلئے آمادہ کیا جائے۔ ایک مرتبہ پھر اس روبوٹ کی کارکردگی مزید جمہوری بنانے کیلئے گیارہ سال پاکستان کے مستریوں نے اس پر صرف کئے لیکن جب 11 برس بعد اسے دوبارہ میدان میں لیکر آئے تو ان کی مرضی کے مطابق کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ ہر ڈیڑھ دو سال بعد کسی نہ کسی خرابی کی وجہ سے جمہوری ٹرین کو پھر سے چلایا گیا، پھر چلایا گیا اور پھر چلایا گیا لیکن نتیجہ روبوٹ بنانے والوں کی مرضیوں کی مطابق حاصل نہ ہو سکا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اسی دوران پورے پاکستان میں بڑے بڑے سیاسی و عسکری طوفان اور زلزلے آتے رہے۔ ہوا یہ کہ روبوٹ پر تجربوں در تجربوں پر زیادہ توجہ دیتے رہنے کی وجہ سے قوم کی تربیت کی جانب سے توجہ بالکل ہی ہٹ گئی اور یوں پورے پاکستان کی فضا اتنی زہر آلود ہوتی چلی گئی کہ لوگوں کے مزاج ہی بدل کر رہ گئے۔ یوں ایک قوم جو شستہ و شائستہ کہلائی جاتی تھی نہایت بد تہذیب و بیہودہ گو ہو گئی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ صبر و ضبط کا مادہ ختم ہو گیا اور برداشت اتنی کم ہو گئی کہ ایک دوسرے کا مؤقف سننے کا ذرا بھی یارا نہیں رہا۔
گزشتہ کئی دھائیوں سے یہ بات دیکھنے میں آ رہی ہے کہ ہماری ساری اسمبلیاں، بشمول مقامی حکومتوں کی اسمبلیاں، صرف شور شرابے، ایک دوسرے پر تنقید کرنے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور کرسی اقتدار پر سوار ہونے والوں کو کرسی سے کسی بھی طور گرانے میں مصروف نظر آتی ہیں اسی لئے جو بھی اجلاس ہوتے ہیں وہ دست درازی اور چیخ و پکار کی نذر ہوجاتے ہیں اور عوامی مسائل نہ صرف دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں بلکہ ان کے انبار پر انبار بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔
جمہوریت کا مقصد صرف یہی نہیں ہوتا کہ اکثریت، خواہ وہ بہت ہی سادہ ہی کیوں نہ ہو، فرعون پنے پر اتر آئے اور اپوزیشن اپنے آپ کو وقت کا موسیٰ ثابت کرنے میں اپنی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کر دے۔ ہونے والا مقامی حکومت کا دوسرا اجلاس ہمارے غیر جمہوری رویے کا ایک بھرپور شاہکار ہے۔ جب ہماری صوبائی اور قومی اسمبلیاں کسی بھی قسم کے جمہوری رویے کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں تو وہ اسمبلیاں جن میں پہنچنے والے زیادہ تر ممبران بہت عام سے شہری ہوتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ کوئی بہت اعلیٰ جمہوری روایات کا مظاہرہ کر سکیں۔
پاکستان کو مسلسل تنزلی کی جانب لے جانے کے ذمہ دار وہ سب ہیں جو سب سے پہلے اس جرمِ عظیم کے مرتکب ہوئے کہ جو ملک اسلامی اقدار کو فروغ دینے اور نظام کو قائم کرنے کیلئے بنایا گیا تھا، اس پر آکر وہی نظام نافذ کرنے کی مذموم کوشش کی گئے جس سے نجات کیلئے 20 لاکھ سے زیادہ افراد نے جانی قربانیاں دیں۔ وہ رہبران بھی کسی طور معافی کے حق دار نہیں جو آہستہ آہستہ اسی نظام کو قبول کرتے چلے گئے جس سے نجات حاصل کی گئی تھی اور جمہوریت کو پاکستان کا مستقبل قرار دینے لگے۔ آج بھی انتخابات کا جس شدت اور بے چینی کے ساتھ انتظار کیا جا تا ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں جس دھوم دھام سے منانے کی تیاری کی جاتی ہے وہ سب ناقابلِ فہم ہی نہیں دل و جگر پیٹنے کے قابل ہے۔ لہٰذا یہ سب دیکھ کر اتنا ہی کہا جا سکتا کہ
سناہے ہم نے دنیا چاند کی بستی پہ بستی
تم اپنی ریت کی دیوار پر بیٹھے رہو بیٹا
کھستے ہی رہو آگے مگر بیٹھے رہو بیٹا
تبصرہ لکھیے