فیکٹری میں تیار ہونے والی پروڈکٹس میں سب سے زیادہ اس بات کو اہمیت دی جاتی ہے کہ ہر یونٹ دوسرے یونٹس جیسا ہو اور یونٹس کی کوالٹی میں کوٸی فرق نہ رہ جاۓ لیکن اللہ تعالی کی بناٸی ہوٸی سب سے افضل پروڈکٹ ”انسان“ کی خوبی ہی یہ ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ پھر بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اللہ کی بناٸی ہوٸی اس پروڈکٹ پر ہم اپنی مرضی کے ٹھپے لگا رہے ہوتے ہیں۔ ان کی کیٹگریز بنا کے ان خانوں میں نہ صرف انھیں مقید کر رہے ہوتے ہیں بلکہ ان کے ”ہاٸی یا لو کوالٹی مال“ ہونے کا فیصلہ بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔
مثالیں تو اس کی بہت سی ہیں مثلاً خواتین کا مظلوم ہونا ، مرد حضرات کا ظالم و جابر ہونا، مولوی کا بے عمل ہونا، شاعر کا نکھٹو ہونا، پڑھے لکھے لوگوں کا بددماغ ہونا وغیرہ لیکن فی الحال ہم گھر سے باہر نکل کے کام کرنے والی خواتین کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن پر ایک نہیں کٸ قسم کے لیبل چسپاں کیے جاتے ہیں مثال کے طور پر دین سے بے بہرہ ہونا، آزاد خیال اور ماڈرن ہونا، تیز و طرار ہونا، اکھڑ اور زبان دراز ہونا وغیرہ وغیرہ۔
پہلی سچاٸی تو یہ ہے کہ کم از کم ہمارے ملک میں خواتین ٹاٸم پاس کرنے کے لیے ملازمت نہیں کرتیں۔ اس ملک میں ملازمت کرنا اتنا آسان نہیں جتنا شاید لوگ اسے خیال کرتے ہیں۔ یہاں ٹاٸم پاس کرنے کا بہترین طریقہ نیلم پری اور مینا بےبی کے نام سے جعلی سوشل میڈیا اکاٶنٹس بنا کے دوسروں کے ساتھ گھنٹوں گّپیں لڑانا ہے نہ کہ صبح سے شام تک خشک کاموں میں سر کھپانا!
دوم یہ کہ ڈراموں اور افسانوں میں دفاتر کا جو رنگین و سنگین ماحول دکھایا جاتا ہے، حقیقت میں یہ ماحول اس سے یکسر مختلف ہے۔ باالفاظ دیگر یہ ہیرو، ہیروٸین کا میٹ اپ پواٸنٹ نہیں بلکہ ایک ایسی پروفیشنل جگہ ہے جہاں مرد اور خواتین بلا کسی صنفی تخصیص کے بطور انسان ٹریٹ کٸے جاتے ہیں۔ لیکن کیا کیجٸیے اس perception کا جس کے ذہن میں آتے ہی بہت سے لوگ جھرجھری لے کے کہتے ہیں ”اوہ۔۔یہ دفتروں کا ماحول! ہم تو اپنے گھر کی خواتین کو کبھی کام نہ کرنٕے دیں۔“ اس بیانٸے میں بین السطور دفاتر کے ”اس ماحول“ میں کام کرنے والی بیبیوں کی شرافت بھی سوالیہ نشان بن کے رہ جاتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اچھے، برے لوگ دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنے گلی، محلے، خاندان اور سوشل میڈیا پر خواتین کو ہراس کرتے ہیں وہ آخر کسی نہ کسی جگہ ملازمت بھی کرتے ہوں گے اور وہاں بھی ان کی حرکتیں وہی ہوں گی جو دفتر سے باہر ہوتی ہیں۔ ہم سارے دفاتر پر اچھے ماحول کا ٹھپہ نہیں لگاتے لیکن دوسرے بھی تمام دفاتر پر برے ماحول کا ٹھپہ لگانے سے گریز کیا کریں۔ کسی جگہ بھی ملازمت کا فیصلہ خواتین ہمیشہ ماحول کو ٹھونک بجا کے کرتی ہیں۔ برے ماحول والے اداروں میں ان کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔
لوگوں پر لیبل لگانے کی بنیاد ہمیشہ ”بد سے بدنام برا“ کے اصول پر رکھی جاتی ہے۔ یقیناً ایسی گھریلو خواتین بھی ہوں گی جو رمضان کے سوا ایک وقت کی نماز پڑھتی ہوں گی نہ قرآن پاک کھول کے دیکھتی ہوں گی لیکن دین سے بےبہرہ ہونے کے الزام کا طوق ملازمت پیشہ خواتین کے گلے میں ہی ڈالا جاتا ہے۔
بعض گھریلو خواتین اپنی گھریلو سیاست سے خاندان میں آگ لگاتی رہتی ہیں، لیکن اس سے کوٸی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بد لحاظ اور تیز طرار تو باہر نکل کے کام کرنے والی خواتین ٹھہریں!
گھر میں رہ کے ٹک ٹاک پر وقت گزاری کرنے والوں اور اجنبیوں سے گپیں لڑانے والوں کو کون کچھ کہے کیونکہ ”بولڈ“ تو صرف جاب کرنے والی خواتین ہیں۔
یہ لیبل کہیں کسی کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں کیونکہ اس کی آڑ میں وہ جا و بےجا کچھ بھی کر گزرتے ہیں اور بہت سوں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیتے ہیں۔
یاد رکھٸیے کہ لیبل لگانے کا اختیار صرف اللہ تعالی کے پاس ہے اور اس کا معیار بھی انسانوں کے معیار سے جداگانہ ہے۔ قیامت سے قبل ”مومن“ اور ”کافر“ کی یہ مہریں دابةالارض، اللہ کے حکم سے ہر کسی کی پیشانی پر ثبت کرۓ گا جس سے پہلے اور جس کے علاوہ کسی کو یہ مہریں اپنے ہاتھ میں رکھنے یا استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہے!!!
تبصرہ لکھیے