مسلم لیگ ن کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے انصاف کا تقاضا ہے کہ اپوزیشن کی سب سے اہم اور بڑی جماعت تحریک انصاف کی پرفارمنس کی بات کی جائے ۔ مسلم لیگ ن کی کارکردگی کا پچھلی نشست میں جائزہ لیا تھا، تاہم ان کے طرز سیاست اور الیکشن لڑنے کے ماڈل کا جائزہ لینا ابھی باقی، مگر وہ بعد میں، پہلے تحریک انصاف اور اس کے قائد کی تین سالہ کارکردگی پر بات کرتے ہیں۔
مئی 2013ءکے انتخابات کے بعد تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔عمران خان کے سامنے اس وقت تین آپشنز موجود تھیں۔ سب سے پہلی آپشن یہ تھی کہ وہ صوبائی حکومت بنانے سے گریز کرتے ہوئے بھرپو ر اپوزیشن کا کردار ادا کریں۔ اس آپشن کے حامی کہتے تھے کہ مرکز کی کھلی اور خوشدلانہ سپورٹ کے بغیر خیبر پختون خوا جیسی نسبتاً کم وسائل رکھنے والی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ اس لئے تحریک انصاف کو آل آﺅٹ اپوزیشن پر جانا چاہیے۔ دوسری آپشن یہ تھی کہ عمران خان خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں اورخود وزیراعلیٰ بن کر کے پی کے کو ماڈل صوبہ بنا دکھائیں۔ یہ ایک بڑا چیلنج تھا، عمران ناکام ہوتے تو ان کی سیاست کو بڑا دھچکا پہنچتا ، مگر کامیابی کی صورت میں وہ ایک انقلاب آفرین لیڈر بن کر سامنے آتے ۔ قباحت یہ تھی کہ وزیراعلیٰ بننے کے بعد وہ قومی سطح کی اپوزیشن نہ کر پاتے ۔ بطور وزیراعلیٰ ان کے لئے پنجاب کے مختلف شہروں میں بڑے جلسے کرنا، تنظیم سازی کے لئے پنجاب ، سندھ ، بلوچستان کے مختلف شہروں کے دورے کرنا ممکن نہ رہتا۔ عمران خان نے تیسری آپشن کا انتخاب کیا ۔ صوبائی حکومت بنائی ،مگروزیراعلیٰ کے لئے پرویز خٹک کا انتخاب کیا۔ پرویز خٹک سب سے تجربہ کار شخص تھے، جو سیاسی جوڑ توڑ کر کے باآسانی صوبائی حکومت بنا سکتے تھے۔
انتخابات کے بعد جب عمران خان اسمبلی میں حلف اٹھانے ابھی نہیں پہنچے تھے، ڈاکٹروں کے مشورے پر ابھی وہ آرام ہی کر رہے تھے ، اس دوران تحریک انصاف نے لاہور میں مختلف کالم نگاروں اور سینئر صحافیوں کے ساتھ خان صاحب کی مختصر ملاقاتوں کا اہتمام کیا۔ ایک ملاقات میں روزنامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی اور یہ خاکسار بھی تھا۔ عمران خان خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت کے حوالے سے بہت پرجوش تھے۔ کہنے لگے کہ میں نے ساتھیوں سے کہا ہے کہ ہمیں اس صوبے کو ماڈل صوبہ بنانا ہے۔ یہاں پر ڈیلیور کیا تو اگلی بار ہمیں ووٹ ملیں گے، ورنہ کچھ نہیں ہوپائے گا۔ مختلف آئیڈیاز ان کے ذہن میں تھے کہ جلد از جلد صحت، تعلیم کے حوالے سے اصلاحات کرنی ہیں۔ صوبے کا ایماندار ترین افسر چیف سیکرٹری لگانا ہے، بہترین آئی جی پولیس ہوگا، ہسپتالوں میں ملازمین کی حاضری کے لئے جدید ترین بائیو میٹرک سسٹم لائیں گے۔ پھر خود ہی بتایا کہ شوکت خانم نے یہ سافٹ وئیر ڈویلپ کیا ہے، وہ پانچ ہزار ڈالر میں فروخت کرتے ہیں، مگر ہم مفت صوبے کے تمام بڑے ہسپتالوں میں اسے لگائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اس وقت صوبے کے وزیرخزانہ کے طور پر نامزد ہوئے تھے۔ عمران کہنے لگے کہ مجھے جیسے ہی پتہ چلا کہ جماعت خزانے کی وزارت چاہتی ہے اور سراج الحق کو
یہ عہدہ دیا جائے گا تو میں نے فوراً کہا کہ ہاں کر دو ، یہ ایماندار ترین آدمی ہے ۔ دھاندلی کے حوالے سے اس وقت بھی عمران پوری طرح یکسو تھے، انہیں لگ رہا تھا کہ بدترین دھاندلی کے ذریعے انہیں ہرایا گیا۔
آج اس ملاقات کو پورے تین سال گزر چکے ہیں۔ مجھے آج بھی عمران کے فقرے، ان کی آنکھوں کی پرجوش چمک اور چہرے کی سرخی یاد ہے۔ عمران خان نے اس وقت جن عزائم کا اظہار کیا تھا، کاش وہ ان پر فوکس کرتے اور دل وجاں سے اس میں جت جاتے تو جس صوبے نے مئی تیرہ کے انتخابات میں ان پر اعتماد کیا، آج اس کی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی۔ عمران خان کی تین چار کامیابیوں کا میں اعتراف کرتا ہوں۔ان کی پارٹی تین سال سے صوبے کی حکومت چلا رہی ہے، مگر عمران خان جو پارٹی کے آل ان آل ہیں، ان پر مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔ سندھ کے برعکس جہاں جناب زرداری صاحب پر مختلف فرنٹ مین رکھنے ا ور کرپشن کے ناقابل بیان الزامات لگائے جاتے رہے، بعض کی تو نیب اور رینجرز نے بھی تصدیق کی ۔خیبر پختون خوا میں جو الزامات سامنے آئے بھی، ان کا نشانہ وزیراعلیٰ خود یا ان کے بعض وزرا ہیں، یا پھر جہانگیر ترین پر تنقید ہوئی کہ صوبائی امور میں مداخلت کرتے اور اپنے پسندیدہ لوگوں کو ٹھیکے دلواتے ہیں۔یہ الزامات بھی کلیئر ہونے چاہئیں، حکومت کا دامن مکمل صاف اور بے داغ رہنا چاہیے، مگر بہرحال یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے بدترین مخالفین بھی ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگا سکے۔ پولیس کو انہوں نے غیر سیاسی بنا دیا، تاریخ کا سب سے طاقتور آئی جی پولیس صوبے میں ہے، جس کی دیانت داری کے قصے عام ہیں۔پولیس افسروں کی ٹرانسفر ، پوسٹنگ میں کرپشن صفر ہوگئی۔ بعض دوسرے شعبوں میں بھی بہتری ہوئی، دوردراز کے ٹیچروں کی سکولوں میں حاضری یقینی ہوگئی، ہسپتالوں میں اصلاحات کی اگرچہ ڈاکٹرحضرات شدید مزاحمت کر رہے ہیں، مگر چیزیں بہتر ہورہی ہیں۔ ایک صحافی دوست کے بقول صوبے کے پٹواری ، کرپٹ پولیس والے اور غیر حاضر رہنے کے عادی ٹیچر زدن رات عمران خان کو صلواتیں سناتے ہیں۔
یہ مثبت نکات اپنی جگہ مگر عمران خان سے اس سے بہت زیادہ کی توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ یہ تو سٹرکچرل اصلاحات ہیں، جیسے پرانے ٹوٹے ہوئے پائپ کی مرمت کر کے رستے ہوئے پانی کو کچھ دیر کے لئے محفوظ کر لیا گیا۔ عمران خان تواس گلے سڑے نظام کو مکمل بدل دینا چاہتے تھے ۔ کیا آج خیبر پختون خوا میں کرپشن ختم ہوگئی ہے؟ جن وزرا پر الزامات لگتے ہیں، ان کااحتساب ممکن ہوپایا؟ یہ سچ نہیں کہ جن لوگوں کو کرپٹ کہہ کر نکالا گیا، انہیں دوبارہ اپنی حکومت بچانے کے لئے واپس کابینہ میں لے لیا گیا؟کیا میانوالی کی نمل یونیورسٹی کی طرح کی کوئی ایک بھی ماڈل یونیورسٹی صوبے میں قائم ہوئی؟ عمران خان سے یہ توقع تھی کہ وہ صوبے کے تعلیمی معیار کو اتنا بہتر بنائیں گے کہ دوسرے صوبوں کے لوگ داخلوں کے لئے اپنے بچوں کو ادھر بھیجیں۔ ٹھیک ہے تین سال زیادہ عرصہ نہیں، مگر کیا اس سمت میں پہلا قدم اٹھا لیا گیا ہے؟جواب نفی میں ہے ۔ ہسپتالوں میں اصلاحات لانے میں اتنا وقت کیوں لگ گیا ؟یہ ٹھیک بات ہے کہ دہشت گردی نے صوبے کو مفلوج کئے رکھا، مرکزی ایجنسیوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، مگر کیا صوبائی پولیس کی صلاحیت، کارکردگی اور نتائج میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا؟ ایسی تبدیلی جو فوری نظر آئے.... جواب ایک بار پھر نفی میں ہے۔
اگلا سوال ہے کہ کیا پشاور جو صوبے کا چہرہ ہے، اسے ایک صاف ستھرا ، خوبصورت شہر کہا جا سکتا ہے ؟ ایسی تبدیلی جو فوری نظر
آئے....جواب ایک بار پھر نفی میں ہے۔ پشاور میں کچھ بہتری ہوئی ہے۔ٹریفک وارڈنز کے آنے سے کرپشن کا خاتمہ ہوا، ایک دو اچھے پراجیکٹ بھی بنے ، مگر پشاورکانقشہ نہیں بدلا جا سکا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان پشاور سے قومی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھتے، ان کا اس شہر، صوبے سے گہرا تعلق رہتا، وہ ہفتے میں کم از کم دو دن پشاور گزارتے، ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرتے، خود شہر یوں سے ملتے جلتے رہتے، صوبائی حکومت کی کارکردگی اپنی آنکھوں سے جانچتے۔ پھر اپنے ویژن، بیرون ملک تعلقات اور تحریک انصاف کے لئے ہمدردی رکھنے والے اوورسیز پاکستانیوں سے رابطہ کرتے اور ان کی سرمایہ کاری، ان کے مشوروں سے صوبے کو یکسر بدل دیتے۔ وہاں جانے والا ہر شخص خود یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا کہ خان صاحب کوملک بھر کے معاملات چلانے کی ذمہ داری سونپی جائے ۔
اب خبر آئی ہے کہ آزاد کشمیر کا انتخاب ہارنے کے بعد عمران خان کے پی کے میں تیز رفتاری سے کام کرنے کے لئے یکسو ہوگئے ہیں۔ انہوں نے صوابدیدی فنڈز ختم کر کے بلدیاتی اداروں سے ترقیاتی کام کرانے کا انقلابی اعلان بھی کیا ہے۔ عمران خان کے پاس وقت کم رہ گیا ہے، انہیں بہت تیزرفتاری سے چلنا بلکہ دوڑنا ہوگا۔ کاش کہ وہ پہلے تین برس ضائع نہ کر تے اور تعمیر وترقی کو اپنا فوکس بناتے تو آج نقشہ مختلف ہوتا۔
محترم ؑعامر خاکوانی صاحب ۔۔۔۔۔۔ ا چھی کاوش ھے کہ آپ نے مختلف پارٹیوں کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم شروع کیا ھے۔ میرا خیال ھے مسلم لیگ ن کی کارکردگی پر محض ایک کالم شائید مبنی بر انصاف نہ ھو۔ کیونکہ یہ پارٹی مرکز سمیت دو صوبوں میں براہ راست حکومت کر رھی ھے لہذا اگر مناسب سمجھیں تو انکی سیاست اور الیکشنز میں نام نہاد کامیابی سے پہلے انکی پنجاب اور بلوچستان میں کارکردگی پر مزید گہری نظر ڈالیں ۔ عمران خان اس قوم کا وہ مجرم ھے جس نے بھٹو صاحب کے بعد اس قوم کو خواب دکھاۓ ہیں (ورنہ یہ قوم تو پچھلے تیس سالوں سے قیمے والے نان بریانی کی ایک پرات اور بے نظیر انکم سپورٹ کی خطیر امداد پر اپنا مستقبل بیچتی آئی ھے) عمران خان نے اس قوم کو ورغلایا ھے کہ وہ ہمیں انصاف پر مبنی معاشرہ دیگا، تعلیم یافتہ ترقی یافتہ اور مہذب ملک بناۓ گا جیسا ترکی ملائیشیا اور کوریا ہیں، صحت مند اور باشعور پاکستان بناۓ گا ۔۔۔۔ لہذا میرا استدلال اور تقاضا ھے کہ عمران خان اور اسکی صوبائی حکومت کا اتنا سظحی سا تجزیہ آپکے قارئین سے زیادتی ھوگی۔ آپ نے صحیح فرمایا ھے کہ عمران خان کے پاس کیا آپشنز تھیں 2013 کے الیکشن کے بعد اور اس نے کس طرح حکومت کرنے کا منصوبہ بنایا ھے لیکن کاش آپ یہ بھی تجزیہ کرتے کہ عمران خان کو ایک تباہ حال اور برباد صوبہ جس نیک نیتی کیساتھ دیا گیا تھا اس پر ہم سب انصافینز کو بیشمار خدشات تھے کہ یہ دراصل ایک بوبی ٹریپ ھے۔ لیکن سیانے منصوبہ ساز عمران خان جیسے اکھڑ لیکن بامقصد اور اپنی نیت سے کھرے رہنما کا شخصیاتی تجزیہ کرنے میں چوک گئے۔ عمران خان روز اول سے ایک چیلنج ایکسپٹر اور خطرات کیساتھ پنجہ آزمائی کرکے سرخرو ھونے والی ایک محیر العقول شخصیت کا نام ھے۔ آپ سے تو امید نہیں تھی کہ عمران خان کی زندگی کا یہ پہلو آپ جیسا زیرک اور ہوشیار صحافی اگنور کردیتا۔ مجھے نہی معلوم کہ آپ کی راہ میں کوئی پروفیشنل مجبوریاں حائل ھوتی ہیں یا نہی۔ آئیے اگلی بات کرنے سے پہلے صوبہ خیبر پختونخواہ کا 2013 کے وسط تک کا ایک طائرانہ طواف کرتے ہیں۔ یہ صوبہ دہشت گردی قدرتی آفات بدترین گورننس اور اپنی پیچہدہ ترین معاشرتی ساخت کیوجہ سے اس بری طرح برباد تھا کہ پشاور مردان نوشہرہ صوابی کے ہزاروں خاندان اپنی جائیدادیں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ کر محض چند کلومیٹر دور اٹک سے شروع ھوکر لاھور تک میں تیزی سے آباد ھورھے تھے۔ 2008 تک مولانا حضرات کی ایم ایم اے اور بعد ازاں بابا ایزی لوڈ کی حکومتیں محض اپنی املاک میں اضافے اور عوام الناس کو بم دھماکوں بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کے رحم کرم پر چھوڑ کے موج مستی میں مشغول تھے۔ (جاری ھے)
سرکار یہ وہ حالات تھے جس میں عمران خان نے اپنی طبیعت کے عین مطابق چیلنج قبول کرتے ھوۓ زمام حکومت سنبھالی تھی۔ مجھ سمیت تمام انصافینز محض دعاء کرسکتے تھے کہ ہم اسی سرزمین کے باسی ہیں اور اس طرح کئ بچھاۓ جانے والے جال سے بخوبی واقف تھے۔ آپ نے صحیح نشاندھی فرمائی ھے کہ جن وزراء کو مالی بدعنوانی پر پکڑا گیا کیا انکے خلاف کاروائی ھوئی ۔۔۔۔ بظاہر لگتا ھے نہیں ھوئی لیکن کیا انکا زہر نکال دینے کے بعد ان مین سے کوئی ایک بھی اس قابل رھا کہ دوبارہ ایسی پوزیشن میں ھو کہ عوام کو بیوقوف بنا سکے۔ کیا ان میں سے کوئی بھی اپنا منحوس چہرہ لیکر اقتدار کے ایوانوں میں منمناتے نظر آیا۔۔۔ آپ مجھے حکم دیں میں آپکو ایسے کئی حرام خور پنجاب اور سندھ کی حکومتوں میں سے نکال کے دکھا دیتا ھوں جنکو سرعام میڈیا پر ذلیل و رسوا کرکے رکھ دیا گیا لیکن وہ پوری ڈھٹائی سے اپنے لعنت زدہ تھوبڑوں کیساتھ آج بھی خلق خدا کا کون چوس رھے ہیں۔ مجھے افسوس ھوا آپ نے روائیتی طور پر جہانگیر خان ترین پر من پسند افراد کو ٹھیکے دلانے کا الزام بنا کسی تحقیق یا شبوت کے لگا کر تنقید فرمائی۔ گو کہ آپکو اسکا حق ھے لیکن آپ جیسے بلند قامت صحافی سے ہم امید کرتے تھے کہ آپ ناحق کسی پر الزام دھرنے سے پہلے تحقیق ضرور کریں گے۔ چلیں راستہ میں آپکو دکھاتا ھوں امید ھے آپ اسے اپنا کر حق ضرور ادا کریں گے ۔ سرکار کے پی کے پاکستان کا پہلا صوبہ ھے جہاں Right to Information کا بل پاس ھونے کے بعد پوری عملیت کیساتھ نافذ ھے۔ اس قانون کا سہارا لیجئے اور ترین صاحب کو کٹہرے میں کھڑا کردیں ہم سب آپکا ساتھ دیں گے۔ آپ نے پشاور شہر کا عمومی جائیزہ لیا ھے لگتا ھے آپ ایک لمبے عرصے سے وہاں نہیں گئے۔ آئیے میرے مہمان بنیں میں آپکو لیکر چلتا ھوں اور آپ کو بتاؤں گا کہ 2006 سے 2014 تک جس شہر میں سانس لینا مشکل تھا وہ اب الحمدللہ پہلے سے بہت بہتر ھوچکا ھے اور جگمگا رھا ھے۔ کاش آپ نے تزکرہ فرمایا ھوتا کہ جس شہر میں پیدل چلنا دوبھر تھا وہاں سیاسی مفادات کو بلاۓ طاق رکھ کر جس طرح تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا ھے وہ اس سے پہلے کی نام نہاد نمائیندہ حکومتوں کے بس میں نہی تھا۔ لیکن میں آپکی اس بات سے اتفاق کروں گا کہ پشاور ہماری معاشرتی اور ملکی دہلیز ھے اسکو مزید خوبصورت بنانا چاہیے لیکن حضرت وہاں اور یہاں کی حکومتی سوچ میں واضع فرق ھے کہ تمام فنڈز لاھور پر لگا دئیے جائیں اوراحمد پور شرقیہ والے محض ووٹ لیتے وقت یاد آئیں 🙂 ۔ پشاور شہر میں ماس ٹرانزٹ منصوبہ کیوں دیر سے شروع ھورہا ھے آپ کو حق ھے کہ وہاں کی حکومت سے سوال کریں۔ پشاور میں نکاسی آب کا نظام ابھی تک کیوں نہی ٹھیک کیا جاسکا آپ ضرور پوچھیں۔ پشاور میں قدرتی آفات سے نمٹنے میں کیوں دیر لگتی ھے اسکا جواب یقینا" لینا چاھیے لیکن زہن میں رکھیں کہ پشاور سے پولیو کا خاتمہ تمام تر خطرات کے باوجود اسی حکومت کا کارنامہ ھے جسے بل گیٹس نے بھی تعریفی نظروں سے دیکھا ھے۔ پشاور کے رہائیشیوں کو اعتماد اور سکون دلا کر یہیں رہنے کی ترغیب اسی حکومت نے دی ھے۔ 2014 کے بعد زرا نظر تو ڈالیں نقل مکانی کی ریشو کیا رہ گئی ھے اور پہلے کیا تھی۔ ڈیفینس یا بحریہ ٹاؤن لاھور کے کسی پراپرٹی ڈیلر سے تذکرہ کیجئے دیکھیں ماضی کے گزرے دنوں کا تذکرہ وہ کن حسرت بھری یادوں سے کرے گا
آئیں اب پشاور سے باہر نکلتے ہیں اور آپ کو یاد کراتا ھوں کہ کے پی کے حکومت محض پشاور کو فوکس نہی کر رھی بلکہ پورے صوبے کو یکساں مواقع فراہم کرنے کی سعی کر رھی ھے ۔ تمام تر مساعی کے باوجود انکی راہ میں کیا رکاوٹیں ھیں جو راستہ کھوٹا کرتی ہیں۔ 2010 کے سیلاب مسلسل دہشت گردی اور بعد میں آنے والے قدرتی آفات نے سب سے ذیادہ اس صوبے کو متاثر تو کیا ھی تھا لیکن کیا آپ بھول گئے کہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ آئی ڈی پیز کا کہہ کر اس صوبے پر گیارہ لاکھ لوگوں کا بوجھ ہم نے ڈال دیا تھا۔ کیا ان سے کئے گئے وعدوں کا ایفا کیا گیا کہ انکو جو رقم ملنی تھی وہ ملی یا محض وعدے رھے۔ لاھور اور پینڈی ھو یا ملتان میٹرو بس جیسی شوبازی کے لئے تو سرمایہ ہر جگہ سے مل جاتا ھے لیکن کیا کے پی کے کو این ایف سی ایوارڈ بجلی گیس اور کوئلے کی رائلٹی سمیت آئی ڈی پیز کی امداد کے نام پر ملنے والی رقم بھی پوری ملی کہ نہیں کاش آپ تحقیق فرماتے۔ لیکن تماتر نامساعد حالات کے باوجود سلام ھے اس حکومت پر جس نے اپنے راستے کھوٹے ھونے سے بچاۓ رکھے۔ کیا آپ ٹی وی نہیں دیکھتے 80 سے زائد دیہات سرکاری خرچ پر لودشیڈنگ کے عذاب سے آزاد اسی حکومت نے کرواۓ ہیں اور یہ منصوبہ 2018 تک 350 دیہات کو اس مصیبت سے ہمیشہ کے لئے آزاد کردے گا۔ 900 سے زائد تباہ حال سکولوں میں سے 760 سکول دوبارہ تعمیر کرکے آپریشنل اسی حکومت نے کرواۓ ہیں۔ موبائل کورٹس اور موبائل ڈسپنسریز کے ذریعے دور دیہاتوں میں اسی حکومت نے عوامالناس کو ریلیف پہنچائی ھے۔ کسی بھی صوبے میں پہلی بار اقلیتی خاندانوں کو تحفظ اسی حکومت نے دلوایا ھے اور پہلی بار اقلیتی بیواہ حواتین کو سرکاری خزانے سے وظائف اسی حکومت نے مہیا کرکے سنت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ زندہ کی ھے
بنیادی تعلیم کے مراکز میں نئے بچوں کی انرولمنٹ اسی صوبے کی سب سے ذیادہ نظر آئی ھے۔ تعلیم کے یکساں نظام کا نفاذ اسی تباہ حال صوبے میں کیا گیا ھے۔ صحت کا انصاف پروگرام پوری آب و تاب سے اسی صوبے میں ہر ممکن شفافیت سے چلایا جارہا ھے اور کوئی فرزانہ راجہ یا ماروی میمن اسے ذاتی یا سیاسی مقاصد کےلئے اسے استعمال کرنے کی جرات نہی کر سکتی۔
پولیس کے محکمے کی سرسری تعریف تو آپ نے فرمائی ھے کیا اچھا ھوتا ذرا تٖفصیلی جائیزہ پیش کرتے۔ پولیس کی بہترین کارکردگی کا سہرہ حکومت کے پی کے کے وژن کو ضرور جاتا ھے کہ اسے کسی بھی سیاسی مداخلت سے دور رکھا گیا ھے وہاں آئی جی ناصر خان درانی صاحب کی شبانہ محنت کو بھی سلام ھے لیکن کاش آپ نظر مارتے کے یہ سب کچھ راتوں رات نہی حاصل ھوا بلکہ انتھک محنت رنگ لا رہی ھے۔ ابتدا سے ہی راستہ سیدھا رکھا گیا تھا ۔ ایس ایس پی حضرات سے لیکر نیچے سپاھی تک کو نہیں بخشا گیا اور سزاؤں سے لیکر نوکریوں سے برخواستگی تک ہیں ھوئی ھے۔ سینکڑوں کی تعداد میں گھوسٹ استاذہ اور دور دیہات میں جانے سے منکر ڈاکٹروں کی چھٹی یہاں ھوئی ھے۔ ڈاکٹرز کا دیرینہ مطالبہ کہ سروس سٹرکچر کا آغاز یہیں سے ھوا ھے اب ڈاکٹر ہل کے دکھاۓ۔ ٹمبر مافیا کے قدیم ترین اثر کو اسی صوبے میں ختم کیا گیا ھے جس سے اب حکومت کو اربہا روپے کی بچت ھورہی ھے ۔ سال 2015 -2016 میں سب سے ذیادہ ٹیکس محصولات میں اضافہ اسی صوبے میں نظر آیا ھے۔ تمام ملکی اور غیر ملکی ادارے اس صوبے کی مثالیں دینے پر کیوں مجبور ہیں کہ گورننس اور کارکردگی میں یہ سب سے اوپر یا سب سے بڑے صوبے کی ہم پلہ کیوں نظر آتا ھے۔ آپکا کیا خیال یہ سب کمالات بلاوجہ ھوگئے ہیں۔ اسکے پیچھے ایک مربوط لائحہ عمل ایک نظام اور ایک مسلسل جاری رہنے والا چیک & بیلنس کا نظام ھے اور یہ اس ملک میں صرف ہم عمران خان کے منہ سے سنتے آرھے تھے۔
امید ھے آپ بور نہیں ھوۓ ھونگے میری اس بے ربط تحریر سے ! عمران خان ہمارا رشتے دار یا پیر نہی ھے جب غلط کرتا ھے ہم تنقید کرتے ہیں اور میرا ایمان ھے وہ اسے مثبت لیتا ھے۔ آپ جیسے اعلی پاۓ کے صحافی سے امید کرتا ھوں کہ تمام صوبائی اور قومی اسمبلی کی کارکردگی کا ایک بھرپور جائیز ہ ضرور لینگے۔ مجھے فرمائیں کہ سب سے ذیادہ کس اسمبلی نے آجتک قانون سازی کی ھے ۔ رائیٹ ٹو انفارمیشن ، رائیٹ ٹو سروسز بل ، احتساب بل، کانفلکٹ آف انٹرسٹ بل جیسے درجنوں دیگر قوانین اور ا نگریز کے دور کے قوانین میں بنیادی تبدیلیاں کس حکومت نے سب سے پہلے کی ہیں۔ بلین ٹری نامی منصوبہ جسے عالمی پزیرائی ملی کس نے شروع کیا اور کامیابی سے چلا رھا ھے ؟ شاہراؤں کی کشادگی اور ان پر ھونے والے جرائم میں نمایا ں کمی کس حکومت مے دور میں آئی۔ بنیادی صحت کی عام عوام کو فراہمی اور انصاف کے فوری حصول کےلئے آن لائن ایف آئی آر اور ماڈل تھانوں کے قیام کا شاندار منصوبہ کس نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ مجھے پورا یقین ھے یہ تمام گذارشات آپکی تیز نظروں سے چپھی نہیں رہ سکتیں پھر آپ نے اس حکومت کی کارکردگی کا اتنا معمولی سا تجزیہ پیش کرکے ہمیں کیوں مایوس کیا ؟ عمران خان میں بہت سی خامیاں ھوسکتی ہیں لیکن ہمیں اتنا معلوم ھے کہ وہ اس قوم سے مخلص ھے بہادر اور نڈر ھے اور اسے اللہ پاک نے نے شمار صلاحیتوں سے نوازا ھے اور جب تک وہ ذندہ ھے اپنے اصولوں اور اقدار پے سودے بازی نہی کرے گا اور انشاء اللہ جب بھی اسے اللہ نے موقع فراہم کیا وہ اس قوم کو مایوس نہی کرے گا اور ہمٰیں ترکی ملائیشیا اور کوریا کے پہلو میں کھڑا کردے گا۔ (ختم شد)
خان صاحب کے پاس خ پ خ کی تقدیر بدلنے کا اگر کوئی فارمولا ھے بھی تو بھی وہ دو سال میں مکمل نہیں کر پائیں گے ۔۔ پہلے زرداری صاحب پر تنقید اور اب ن لیگ پر تنقید بس یہی فارمولا ھے جو کام کرے گا۔۔
صوبے میں تعلیمی نطام اور نصاب کے ساتھ ساتھ خزانہ جماعت کو دے رکھا ھے۔ جلسوں میں ڈھول ڈھمکے نا ہوں تو جلسوں کی تعداد پر بھی غور کر لیجیے گا۔۔
بہرحال خان صاحب سے جو امیدیں تھیں اور ان پر پورا نہیں اتر پائے۔۔
لیکن ذاتی طور پر کرپشن سے پاک ہونے کی وجہ سے آج بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔۔
اصل کام ھے قوم کی سوچ کی تبدیلی ۔ جس پر انہیں کام کرنا ھو گا۔۔
لیکن یہ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں لگتا ۔۔ موجودہ پارٹی کی صورت حال سے مجھے خان صاحب وزیر اعظم بنتے بھی نظر نہیں آتے۔۔
عمران خان ایک پختہ عزم کے مالک انسان ہیں۔انہیں بجائے تنقید کے تعمیر پہ توجہ دینی چاھیے