ملائشیا نے 1970 سے اپنے تعلیمی نظام سے انگریزی میڈیم اسکولوں کو خارج کردیا تھا ۔۔ جس کے نتیجے میں پرائمری اسکول سے لیکر یونیورسٹی کے ابتدائی درجے تک انگریزی کے مضمون کی حدتک رہ گیا ۔ لیکن مجموعی تعلیمی نظام مقامی زبان (بھاشا ملائشیا) میں ہے۔
انگریزی کو تعلیمی نظام سے خارج کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف ملائشیا کے طلبا کا انگریزی کی قابلیت کا معیار کم ہوا اس کے ساتھ ہی میتھ اور سائنس میں بھی ملایشیا کے طلبا پیچھے چلے گئے ۔
اس صورتحال کو سنبھالنے کے لئے 2003 میں اس وقت کے وزیراعظم مہاترے محمد نے حُکم جاری کیا کہ میتھ اور سائنس کی تعلیم کو انگریزی ہی میں دی جائے ، لیکن اسی سال مہاترے وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہو گئے ۔ اور اس حکم پر پوری طرح عمل نہ ہو پایا ۔ چند سالوں کے بعد اسوقت کے وزیرتعلیم محی الدین یسین نے اس حُکم کو منسوخ کردیا ۔
پھر 2016 میں انہی محی الدین یسین جو اسوقت نائم وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھے نے سے یوٹرن لیتے ہوئے حکم جاری کیا کہ صرف ایسے ہی اسکولوں میں جہاں قومی زبان بھاشا ملائییو کے نتائج کم از کم 50 فیصد کے قومی معیار سے بہتر ہوں، وہاں والدین کو اختیار ہو کہ وہ اپنے بچوں کی حساب و سائنس کے مضامین کی تعلیم (انگریزی و بھاشا ملائشیا) میں کسی ایک زبان کا انتخاب کرسکیں ۔یہ پالیسی بھی ناکام ہو گئی کہ نہ تو ملائشیا کے اسکولوں میں انگریزی زبان کی مہارت رکھنے والے اساتدہ رہے۔ جس کے نتیجے میں ( بالخصوص دیہی و کم آمدنی والے علاقوں کے) طلبا کا انگریزی زبان کا معیار بھی انتہائی پست ہو گیا۔
بین الاقوامی ادارہ آرگنائزیشن برائے معاشی تعاون و ترقی OECD کے تحت دنیا بھر کے مختلف ممالک پندرہ سال (نویں یا دسویں ) جماعت کے طلبا کا امتحانات لیکر اُن ممالک کے تعلیمی نظام کی درجہ بندی کرتی ہے اسے (Programme for International Student Assessment) یعنی PISA ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔
یہ امتحان ہر تین سال کے بعد لیا جاتا ہے۔جس کے تحت طلبا کو تین بنیادی مضامین کی مہارت دیکھی جاتی ہے۔ جن میں انگریزی لکھنے اور پڑھنے کی قابلیت، حساب یعنی میتھ اور سائنس ۔ 2022 کے PISA ٹیسٹ کے نتائج میں کورونا کے وجہ سے اسکولوں کی بندش کے دورانیے طلبا کے آن لائن تعلیم سے مانوسیت میں مسائل کی وجہ سے مجموعی طور پر تمام ممالک کے مجموعی اسکور کم آئے ۔
اس کے باجود ملائشیا کے طلبہ ان تینوں مضامین میں تمام ممالک کے اوسط سے بھی کم نمبر حاصل کرکے 55 ویں پوزیشن حاصل کی ۔ PISA ٹیسٹ نتائج کے مطابق سنگاپور نے 560 پوائنٹس کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی ہے جبکہ انگریزی بولنے والے ممالک میں:-
کینیڈا 506 پوائنٹس آٹھویں
آسٹریلیا 497 پوائنٹس گیارہویں
برطانیہ 494 پوائنٹس چودھویں
امریکہ 489 پوائنٹس اٹھارہویں
جبکہ ملائشیا مزید نیچے آکر 404 پوائنٹس کے ساتھ پچپن ویں نمبر پر پہنچ گیا۔2018 میں نے اس ٹیسٹ میں ملائشیا کا اسکور 431 تھا۔
ملایشیا کے گرتے ہوئے تعلیمی معیار نے ہر طرف خطرے کی گھنٹیاں بجانی شروع کردیں ۔ ملائشیا کی وزیر تعلیم محترمہ فضلینہ صدیق نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 2027 میں نافذ ہونے والے نئے تعلیمی نصاب میں PISA کے ٹیسٹ میں سامنے آنے والی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
جس میں خصوصی توجہ پہلی و دوسری جماعت کے طلبہ کو لکھنے, پڑھنے اور گنتی سکھانے پر دی جائے گی ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نیا نصاب سیکھنے کے عمل کو دلچسپ اور پرلطف بنائے گا ۔ توجہ صرف نتائج حاصل کرنے پر نہیں ہوگی، لیکن پڑھانے اور سیکھنے کے عمل کو اساتدہ و طلبا کے لیے بامعنی پرلطف بنانے پر ہوگی۔
سنگاپور و ملائشیا کے تعلقات ویسے تو دوستانہ ہیں پھر بھی کہیں نہ کہیں باہمی رقابت کی جھلکیاں بھی محسوس ہوتی ہیں ۔سنگاپور کو ملائشیا سے اس کی مرضی کے خلاف نکالا گیا تھا۔ اس لئے سنگاپور کی قیادت میں کہیں نہ کہیں چھپی ہوئی تلخی، بالخصوص سنگاپور کی کامیابیوں کو ملائشیا پر طعن کے طور پر دکھاوا کرنا۔۔ ملائشیا کی طرف سے بھی کہیں نہ کہیں حسد کی اظہار ہوتا ہے۔
مہاترے محمد تو اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی منہ پھٹ تھے لیکن بعد آنے والی قیادت کا رویہ تھوڑا ڈپلومیٹک ہے۔ پھر بھی آگ تو تھوڑی بہت سُلگتی ہی رہتی ہے ۔ ملائشیا کے لئے قومی افتحار کے لئے سرکاری طور پر سنگاپور کی برتری کو تسلیم کرنا بھی قومی سانحہ سمجھا جاتا ہے ۔
لیکن ملائشیا کے گرتے ہوئے تعلیمی معیار پر حکومت کی بڑھتی ہوئی تشویش کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ گذشتہ ماہ سنگاپور کے ملائشیا کے وزرائے اعظم کی ملاقات کے دوران وزیراعظم انور ابراھیم نے سنگاپور کے وزیراعظم سے درخواست کی کہ سنگاپور اپنے انگریزی اساتدہ ملائیشیا بھیجے ۔۔
دلچسپ بات یہ ہے اس بات کا انکشاف سنگاپور کی طرف سے نہیں بلکہ ملائشیا کے وزیراعظم نے مزاکرات کے بعد اپنی پریس بریفنگ میں کیا۔
“دونوں وزرائےاعظم کے مزاکرات کے دوران ان (انور ابراھیم) کی درخواست کہ سنگاپور انگریزی و دیگر مضامین پڑہانے کے لئے اپنے اساتدہ کو ملائشیا کے مختلف حصوں میں بھیجنے کے امکانات پر غور کیا گیا۔
انہیں یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ سنگاپور کے وزیراعظم نے ہمارے طلبا کی انگریزی و دیگر مضامین میں مہارت کے اضافے کے لئے مدد کی درخواست پر غور کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
یہ معاملہ (مزاکرات کے ) طے شدہ ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا اس لئے ہم نے وزارتی و محکمہ جاتی سطح پر کوئی پیشگی تیاری نہیں کی تھی ، لیکن ہم اس یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کبھی کبھار وزرائے اعظم متعلقہ وزارتوں کو مطلع کئے بغیر بھی فیصلے کرسکتے ہیں ۔”
حسب توقع اس بیان ملائشیا میں سنگاپور سے مدد کی درخواست کو پسند نہیں کیا گیا ۔ملائشیا کی تنظیم اساتدہ نے بھی اس خیال کو مسترد کردیا ہے اور کہا کہ ملک میں اس کام کے لئے کافی اساتدہ موجود ہیں ۔لیکن ان کی صلاحیتوں کی کمی کا بھی اعتراف کیا گیا۔
ایک مقامی اخبار پر ایڈیٹر کی ڈاک میں یہ پوچھا گیا۔۔۔۔کیا اب واقعی ہم پاتال کی اس گہرائی تک پہنچ چُکے ہیں کہ ساڑھے تین کروڑ کی آبادی والا ملک اپنے طلبا کے لئے انگریزی کے اساتدہ نہیں ڈھونڈ پارہا اور پڑوس کے ساٹھ لاکھ کی آبادی والے ملک سے مدد کی درخواست کررہا ہے۔ یہ بھی کہا کہ طویل عرصے سے حکام کو ملک کے تعلیمی نظام میں انگریزی کے گرتے ہوئے معیار کی طرف توجہ دی جارہی تھی۔۔ لیکن کسی کے کانوں میں جوں ہی نہیں رینگی۔
وطن واپسی کے وزیراعظم انورابراھیم نے ایک وضاحتی بیان میں سنگاپور سے اساتدہ کی فراہمی کی درخواست کی تصدیق کرتے ہوئے کہا:-
“میں نے وزیراعظم لارنس وانگ سے کہا ہے کہ اساتدہ کو سنگاپور حکومت کے اخراجات پر بطور “رضاکار” ملائشیا کے دیہی، غریب اور دور دراز علاقوں (بالخصوص ملائشیا کی ریاستیں صباح و سرواک ) میں انگریزی و دیگر مضامین پڑہانے کے لیے بھیجا جائے۔”
(عذر گناہ بدتر از گناہ ایک قوم پرست اور فخر کرنے والا ملک ایک ایسے ملک سے تعلیمی امداد کی اپیل کررہا ہے جسے پچاس سال قبل خود لات مار کر نکالا تھا ۔ پھر قومی افتخار (پرائڈ) کہاں گیا؟
اس وقت ملایشیا کے ماہرین تعلیم اور قائدین بظاہر یہ تسلیم کر چُکے ہیں قومی زبان (بھاشا ملائشیا) کے نفاذ کے غلو کے منفی نتائج سامنے آئے ہیں۔ اب معاملہ کسی نہ کسی طرح انگریزی کو تعلیمی اداروں میں دوبارہ داخل کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔
ساری بحث طریقہ کار کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے اساتدہ لانے کی بجائے موجود اساتدہ کو بہتر تربیت اور مشکل و دیہی علاقوں کے اسکولوں میں اساتدہ کو پرکشش تنخواہوں ومراعات کے ذریعے ترغیب کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔(اس سلسلے میں سنگاپور کے اساتدہ کی تربیت سے استفادہ حاصل کرنا زیادہ قابل عمل حل محسوس ہوتا ہے)۔
ملائشیا کی وزارت تعلیم کے اعلیٰ عہدیدار کے کہنا ہے کہ نتائج یہ ظاہر ہوتا ہے شھری علاقوں اور خوشحال گھرانوں کے بچے، کم آمدنی و دیہی اسکولوں کی بہ نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ PISA ٹیسٹ کے نتائج کی مدد سے وزارت تعلیم کو مستقبل کے اقدامات کے تعین میں آسانی ہو گی۔
ملائشیا کی تنظیم اساتدہ کے جناب فوزی کا کہنا ہے ، دیہی علاقوں کے اسکولوں میں اساتدہ تو ہیں لیکن انگریزی میں پڑھانے کی قابلیت رکھنے والے اساتدہ کی قلت ہے۔
اس وقت یہ حال ہے کہ تھوڑی بہت انگریزی بولنے والے اساتدہ کو انگریزی پڑھانا پڑتا ہے وہ ان کے لئے بھی بہت مشکل اور تناؤ کا سبب بنتا ہے۔
انہوں نے اپنی مثال دی کہ ، انہیں گیارہویں جماعت کی انگریزی پڑھانے کو دی گی ، جب کہ وہ اپنی انگریزی کے بارے میں پراعتماد نہیں تھے۔ وہ کلاس سے پہلے ہر رات سبق پڑھ کر نئے الفاظ سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔
انکا کہنا ہے کہ “شھری علاقوں کے اسکولوں میں اساتدہ ہمہ وقت انگریزی بول سکتے ہیں کہ طلبا باآسانی اسے قبول کرسکتے ہیں ۔لیکن اگر دیہئ اسکولوں میں استاد انگریزی بولے گا تو طلبا بیزار ہوکر سو جائیں گے۔
اس لئے استاد ملائی زبان میں گفتگو کرنے پر مجبور ہوتا ہےاور اس طرح طلبا انگریزی نہ سیکھ پائیں تو یہ استاد کی غلطی نہیں ہے۔ اساتدہ تو طلبہ کی ضروریات کو ترجیح دینی ہوتی ہے۔
ایک تعلیمی این جی او MCII جس نے ملائشیا کی دور دراز ریاست سباح کی تعلیمی صورتحال پر ریسرچ کی ہے کی محترمہ عالیہ واحدین ، نے وزیراعظم کی تجویز کے مقاصد کی حمایت کی ہے لیکن ان کہنا ہے کہ انہیں سنگاپور و ملائشیا کے کثیر الجہت تعلقات بشمول تعلیم کی اہمیت کا احساس ہے، لیکن ان کا مشورہ یہ ہے کہ حکومت کم آمدنی والے اور دیہی علاقوں میں اساتدہ کو خصوصی پروگرامز کے تحت بہتر مالی فوائد اور تربیتی مواقع دئیے جائیں ۔
“ہمارا بنیادی چیلنج یہ ہے سباح کے دیہی علاقوں ہمیں ہمارے پاس سکھانے کے لیے جدید آلات و مود نہیں ہے، پھر (عوام میں) تعلیم اور تعلیمی اہمیت کے شعور کی کمی ہے۔
مزید یہ کہ ہمیں طلباء کو تعلیم کو ٹیکنالوجی STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینرنگ اور میتھ /حساب) سے متعارف کرانے، طلبا کی اسکول میں حاضری، سیکھنے کے جذبے اور والدین کی مدد و تعاون کی کمی کا سامنا ہے ۔رہی سہی کسر اسکولوں کی دور دراز علاقوں میں قائم اسکولوں کی وجہ سے بیرونی تنظیموں کے لئے تعاون کرنا مشکل ہوتا ہے۔
سباح کے ایک استاد کا کہنا ہے کہ انگریزی زبان کی تربیت پر مکمل توجہ دینے کے لئے باہر سے رضاکار اساتدہ منگوانا پرانا طریقہ ہے جو اب شاید کارگر نہ ثابت ہو۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے تعلیمی معیار کے لئے اساتدہ کو بنیادی عنصر کے طور پر دیکھنے کی بجائے، یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ کسی تعلیمی نظام کے مختلف پرزے مل کر مجموعی تعلیمی معیار کو متاثر کرتے ہیں۔
ملائیشیا کے ایک ماہر تعلیم نے ایک اہم نکتہ پیش کیا ملائیشیا میں انگریزی کی تعلیم کے لیے یورپین اسٹیںڈرڈ کی برطانوی کتابیں استعمال ہوتی ہیں ، جس میں مغربی بچوں کی روزمرہ کئ زندگی بشمول وہاں کے موسموں کا تذکرہ ہوتا ہے۔
ان یورپی کتابوں کا مواد اور ان میں دکھائی ہوئی سرگرمیاں یورپین ماحول سے مطابقت رکھتا اور ہمارے طلبا کو سمجھنے میں بھی مشکلات ہوتی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ، کسی بھی اچھے تعلیمی مواد کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کے علاقائی و سماجی حالات سے مطا بقت رکھتا ہو ۔
سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے محبان اردو کے لئے اس میں کیا سبق ہے؟
تبصرہ لکھیے