ہوم << اقبال شناسوں کا قحط-خورشید ندیم

اقبال شناسوں کا قحط-خورشید ندیم

یہ تین چاردن پہلے کی بات ہے۔پی ٹی وی نے یومِ اقبال پرخصوصی پروگرام کا ارادہ کیا اور اس کی میزبانی مجھے سونپی توان صاحبانِ علم کی تلاش شروع ہو ئی جو اقبال پرحسبِ عنوان گفتگو کر سکیں۔عنوان تھا:”علامہ اقبال اور فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو“۔

یہ عنوان تین طرح کی علمی مہارتوں کا متقاضی ہے:اقبالیات،فکرِ اسلامی اور فقہ۔نئی نسل کے لیے عرض ہے کہ اقبال کے علمی مقام کے تعین میں ان کے خطبات کی حیثیت عمود کی ہے۔ان خطبات میں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ اُن کے عہد کے علمی معیارات اور مطالبات کیا ہے اور اسلام کو بطور فکر، اگر اپنا وجود ثابت کرنا ہے تو اس کی ایسی تعبیر ناگزیرہے جو ان معیارات پر پورا اترتی اور ان مطالبات کو پوراکرتی ہو۔

علامہ اقبال نے علم بالحواس اور مذہبی تجربے کے مابین تطبیق سے لے کر،فقہ کی نئی تشکیل تک، ان اہم فلسفیانہ اورفکری مباحث کو ان خطبات میں سمیٹا ہے،جن پربات کرنا، ان کے خیال میں ناگزیرتھا۔ان موضوعات پر کلام کے لیے نظم کے بجائے نثرہی کا اسلوب موزوں تھا۔یہ گویا ایک نیا علمِ کلام ترتیب دینا ہے۔یہ خطبات برِ صغیر کی علمی فضا میں ایک نئی آواز تھی۔روایتی دینی طبقے نے انہیں مسترد کر دیا۔اس طبقے نے اقبال کو دین کامستند شارح یا ترجمان ماننے سے انکار کیا،جس پر وہ اب بھی قائم ہے۔ ’اقبالیات‘ کے موضوع پر کلام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان خطبات پر نظر ہو۔

دوسری مہارت ہے ’فکرِ اسلامی‘۔اس کا تعلق اسلام کی تعبیرو تشریح سے ہے۔اسلام ایک دین ہے۔اہلِ علم نے اس کو سمجھا۔اس کے مقاصد کا تعین کیا۔اس کی تعلیمات میں ایک ربط تلاش کیا اوراسے ایک بیانیے کی صورت دی۔یہ دین کا انسانی فہم ہے۔اس کے لیے اگر ہم ایک ترکیب اختیار کریں تو یہ ’فکرِ اسلامی‘ ہے۔میں جس ٹی وی پروگرام کا ذکر کر رہاہوں، اس میں شرکت کے لیے،اس میں مہارت بھی لازم ہے۔

تیسری مہارت فقہ ہے۔علامہ اقبال نے اس موضوع پر الگ سے خطبہ دیا ہے کہ مسلمانوں میں فقہی روایت کیسے آگے بڑھی اوردورِ جدید میں دینی نصوص سے استنباطِ احکام کیسے ہوگا؟مثال کے طور پر اصولِ فقہ میں جس اجماع کا ذکر ہوتا ہے،دورِ حاضر میں اس کی کیا صورت ممکن ہوگی یا احادیث سے کیسے احکام اخذ ہوں گے؟اس میں اقبال ُاس تجربے کا ذکر کرتے اور اس کی طرف اپنا میلان ظاہر کرتے ہیں جو ترکی میں ہو رہا تھا۔’علامہ اقبال اور فکرِ اسلامی کی تشکیل ِجدید‘ جیسے موضوع پر اظہارِ خیال کے لیے اس فقہی روایت سے آگہی بھی ناگزیر ہے۔

جب پروگرام کے لیے ماہرین کی تلاش شروع ہوئی تو چند ناموں کے بعد حافظے نے ساتھ چھوڑ دیا۔پروفیسر فتح محمد ملک،ڈاکٹر خالد مسعود اور دوتین نام اور۔بطورِخاص ان علما کو ڈھونڈنے کی کوشش ہوئی جو ان خطبات پر روایتی علما کے نقطہ نظر کو بیان کر سکیں جو سید سلیمان ندوی اوراقبال کے دیگر معاصرین سے منسوب ہے تو کوئی ایک نام ایسا نہ مل سکا جو اس روایتی نقطہ نظر ہی کو بیان کر سکے۔میں راولپنڈی اسلام کی بات کر رہا ہوں۔لاہور میں صورتِ حال قدرے بہتر تھی مگروہاں بھی یہ فہرست شاید دس سے آگے نہ بڑھ پاتی۔ مزید صدمے کی یہ بات سامنے آئی کہ ان موضوعات پر بات کرنے والے نوے فیصد لوگ وہ ہیں جو عمر کی آخری دور میں داخل ہو چکے۔ان کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے۔نئی نسل میں شاید ہی کوئی کوئی ایسا نام تلاش کیا جا سکے جو ان موضو عات پر گفتگو کی اہلیت رکھتا ہو۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آنے والے ماہ و سال میں ہمارے ہاں اقبال شناسی کی صورت کیا ہو گی۔

انسان کا تہذیبی وجود کسی خلا میں تشکیل نہیں پاتا۔ جس طرح اس کا مادی وجود زندہ رہنے کے لیے سہاروں کا محتاج ہے اسی طرح اس کا تہذیبی وجود بھی سہاروں ہی سے قائم رہتا ہے۔یہ زمان و مکان سے ماورا بھی نہیں ہو تا۔اس کا ماضی ہوتا ہے،حال جس کی کوکھ سے جنم لیتاہے۔ماضی تبدیل نہیں ہو سکتا اور وہی انسان کے تہذیبی وجود کے لیے بطور اساس بروئے کار آتا ہے۔یہ ماضی اقبال جیسی شخصیات کے ساتھ وابستگی سے میسر آسکتا ہے۔بصورتِ دیگر ایک خلا ہے۔ اس خلا کا مطلب ہے حافظے سے محرومی۔

دینی مدارس کی یہ خدمت تو مسلم ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی نئی نسل کو ماضی کی دینی علمی روایت سے جوڑے رکھاہے۔آج اگر ابن کثیر و سیوطی اور بخاری و مسلم، ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں تو اس کی وجہ یہی مدراس ہیں۔علامہ اقبال کا کوئی جانشین نہیں تھا۔ریاست نے سنگ و خشت کے ڈھیرکھڑے کر کے یہ خیال کیا کہ اقبال ہماری روایت کا حصہ بن جائیں گے۔ یااردو کی نصابی کتاب میں ایک آدھ نظم شامل کر نے سے ہماری نسلیں اقبال شناس بن جا ئیں گی۔اقبال شناسی، اقبال کو اپنا نے سے ہوتی ہے جیسے مدارس نے مفسرین، محدثین اور فقہا کو اپنا لیا۔

ہمارے نصاب میں اقبال کو جس طرح شامل کیاگیا،اس سے طالب علم صرف دو باتیں جان پاتا ہے۔ایک یہ کہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا۔دوسرا یہ کہ وہ شاعر تھے۔ اقبال اس کے علاوہ بھی کچھ تھے،وہ ساری زندگی اس سے بے خبر رہتا ہے۔کیا انہوں نے نثر میں بھی کچھ لکھا؟ ان کے خطبات کی اسلامی فکر کی تاریخ میں کیا اہمیت ہے،وہ کبھی نہیں جان سکتا۔علامہ اقبال نے جب علی گڑھ کے طلبہ کے سامنے یہ خطبات پڑھے تو ڈاکٹر سید ظفرالحسن،صدر شعبہ فلسفہ نے اپنے خطبہ صدارت میں اپنے تاثرات بیان کیے۔ ان کا کہنا تھاکہ ہمارے علما نے صدیوں پہلے یونانی فلسفہ و سائنس کے رو برو جو علمی کارنامہ سر انجام دیا تھا،اقبال نے وہی کانامہ اپنے عہد میں سر انجام دیا۔

اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان خطبات میں کچھ قابلِ نقد نہیں ہے۔ان پر اہلِ علم کی تنقیدات موجود ہیں۔خود اقبال نے ان کے دیباچے ہی میں واضح کر دیا تھا کہ فکرو فلسفہ میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہو تی۔اقبال کا کارنامہ یہ نہیں کہ انہوں نے ہر سوال کا درست جواب دے دیا،ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسی ضرورت کو نمایاں کیا اور اس پر بحث کا دروازہ کھولا،جس کے بغیر مسلمان اپنے تہذیبی ودینی وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتے تھے۔یہ اپنی جگہ ایک غیر معمولی کام ہے۔

اقبال کے اس علمی کارنامے سے ہم کس طرح بے خبر ہیں،اس کا اندازہ مجھے اقبال پر ٹی وی پروگرام کے لیے ماہرین کی تلاش سے ہوگیا۔اقبال کا معاملہ مذہب کی طرح ہے۔نمائش کے لیے ہم بہت سے مظاہر پیش کر سکتے ہیں لیکن مذہب کے ساتھ حقیقی وابستگی کا سراغ کہیں نہیں ملتا۔ اقبال ہمارے ماضی اور مستقبل کے مابین ایک رابطہ ہیں جو ہمیں روایت سے جوڑتے ہوئے،اپنے عہد میں جینے کا سلیقہ سکھانا چاہتے ہیں۔ہمارا تہذیبی وجود اس طرح باقی رہ سکتا ہے۔روایت سے کٹنے کا مطلب خلا میں معلق ہونا ہے۔ جدید سے بے نیاز ہوکر ہم بقا کے لوازم سے محروم ہو جاتے ہیں۔ان دونوں کا رشتہ اسی وقت باقی رہے گا جب یہ رابطہ باقی رہے گا۔

مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر