بارہویں جماعت میں انگریزی کی کتاب میں ایک ڈرامہ ہوا کرتا تھا،
Princess on the Road
(پرنسس آن دا روڈ)۔
ہمارے استاد محترم نے بڑی دل جمعی سے ہمیں پہلے اس کا ترجمہ اور پھر اس کی تمام تھیمز پڑھائیں۔
ایک شاہ زادی کسی طرح بھیس بدل کر ، سادہ اور عام آدمی کی زندگی کا نظارہ کرنے کی غرض سے محل سے نکل کر کسی گاؤں میں پہنچ گئی ، سبھی گاؤں والے اس کے عام سے لباس اور شاہانہ انداز ِ گفتگو کا مذاق اڑاتے اس کے گرد جمع ہو گئے ۔
وہ شاہ زادی بڑے احترام سے ان سے کہنے لگی۔ ہم شاہ زادی ہیں۔ ہمیں ہمارے محل پہنچایا جائے۔
اور وہ سب گاؤں والے مزید ہنسنے اور مذاق اڑانے لگے۔ اس پر مرغی چوری جیسےالزامات تک عائد کرنے لگے۔
اسی اثنا میں وہاں سے ایک مداری کا گذر ہوا جو شاہ زادی کو کبھی محل میں کراتب سکھایا کرتا تھا۔ اس نے فوراً شاہ زادی کو دیکھتے ہی پہچان لیا۔ وہ بھی گاؤں والوں کو کہنے لگا کہ یہ شاہ زادی ہے ،اسے چھوڑ دو ، میں اسےمحل پہنچا دیتا ہوں۔ گاؤں والے اس کا بھی مذاق اڑانے لگے۔ وہ ہر طرح سے انہیں یقین دلانے کی کوشش کرنے میں مگن تھا ۔ان کی منت سماجت کرتا رہا۔یہاں تک کہ شاہ زادی نے انہیں مداری سے سیکھے کچھ کراتب بھی کرکے دکھائے کہ شاید انہیں یقین آجائے کہ وہ واقعی شاہ زادی ہےمگر بے سود۔
جب کوئی صورت نظر نہیں آئی اور مداری کوواقعتاً فکر ہونے لگی کہ اگر اس کی موجودگی میں گاؤں والوں نے شاہ زادی کو کوئی نقصان پہنچا دیا تو بادشاہ اور شاہ زادہ جو اس شاہ زادی کا نو بیاہتا شوہر تھا، اس کی کھال کھنچوا دیں گے ، تب اس کے تیور بدل گئے۔ وہ بڑے کرخت اور درشت لہجے میں باآواز بلند گاؤں والوں سے کہنے لگا کہ اگرکسی نے شاہ زادی کو نقصان پہنچایا تو بادشاہ تمہاری کھالیں کھنچوا دے گا، تمہاری نسلیں ختم کردے گا۔ تمہیں نیست ونابود کردے گا۔ بات فوراً گاؤں والوں کی سمجھ میں آ گئی ۔پورا گاؤں جو وہاں سادہ لوح شاہ زادی کا تماشا کرنے آیا تھا، دھواں ہو گیا۔
استاد صاحب نے تب ہمیں سمجھایا تھا کہ جب تک کسی شخص کو اس لہجے اور اس انداز میں بات نہ سمجھائی جائے کہ جس لہجے اور انداز پر اس کا ذہن اسے کہے کہ اب سمجھے بنا چارہ نہیں ، تب تک وہ بات سمجھتا ہی نہیں۔ لہٰذا زندگی کے جس مرحلے پر آپ کو شک پڑے کہ آپ اپنے مخاطب کو سمجھانے کی کوشش اس زبان اور لب و لہجہ میں کر رہے ہیں ، جس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہونے والا تو سمجھ لیجیے کہ یہ وقت اب گفتگو اور اندازِ گفتگو بدلنے کا ہے ، یا کوئی اور حربہ آزمانے کا ہے ۔ پھر چاہے آپ کا مخاطب کوئی جان پہچان والا ہو ، اجنبی ہو یا خود حاکمِ وقت ، ہر ایک کے لیے ایک مختلف زبان اور لہجہ بنا ہے ، اپنے اپنے وقت پر سب لہجے اور زبانیں بہترین کام کریں گی۔
اسی طرح ، ایک ہی لب و لہجہ یا رویہ، ہر فرد اور ہر جگہ کے لیے کارگر نہیں ہو سکتا ۔ آزمائش شرط ہے۔
تبصرہ لکھیے