نمازِ عصر کا وقت قریب آ رہا تھا ۔آسمان گہرےبادلوں سے ڈھکا ہوا تھااور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں بارش کی جلد آمد کی خوشخبری دے رہی تھیں۔کالونی کی مسجد کی راہ میں لگے درخت،پودے،اور پھول خوشی سے جھوم رہے تھےاور پرندے خوشی سے سر شار فضا میں غوطے لگانے میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔گراونڈ میں بچے کھیلتے ہوئے خوب شوروغل اور اودھم مچائے ہوئے تھے ۔ایسے خوشگوارموسم کے باوجود آج میں اداس اور غمگین دل لئے مسجد کی طرف پیدل جارہا تھا۔دل تھا کہ جیسے بے چینی اور اضطراب سے پھٹے جا رہا ہو۔کسی طور قرار نہ آرہا تھا۔ آج بات ہی کچھ ایسی تھی۔عالمی میڈیا اور جرائد ایک مرتبہ پھر قبلۂ اول مسجد اقصیٰ کی مجروح اور خونچکاں تصاویر سےپر ُتھے۔
میں مضمحل سی چال چلتا، آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے مسجد کے وضو خانے میں پہنچا۔وضو خانہ مسجد سے متصل کھلی فضا میں واقع تھا۔میں وضو کرنے بیٹھا۔بسم اللہ پڑھی اور ٹونٹی کھول دی۔اسی اثنا میں مسجد کا مائیک کھلنے کی آواز آئی ۔چند ثانیوں کاوقفہ ہوا اور پھر یکدم فضا چہار سو اذان کی مسحور کن آواز سے معطر ہو گئی۔اور ساتھ ہی میرے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ در آئی۔میں آواز پہچان گیا تھا۔یہ آواز میرے انتہائی قریبی دوست اور جی جان سے پیارے ایمان کے ساتھی مصطفیٰ کی تھی۔یہ اس کی پرانی عادت ہے۔اسے معلوم ہےکہ مجھے اس کی اذان بے حد پسند ہے۔لہذا اس نے مجھے اپنی آمد کی اطلاع دینے کا ایک انوکھا طریقہ وضع کر رکھا ہے۔وہ میرے گھر آنے کے بجائے سیدھا مسجد آجاتا ہےاور اپنی میٹھی آواز کے ذریعے مجھے اپنی آمد کی خبر دیتا ہے۔
اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اشھد ان لاالہ الااللہ اشھد ان لا الہ الااللہ ۔فضامیں ایک با رعب سنا ٹا چھا گیا جیسے ہر شے اپنی اپنی جگہ یکلخت جامد ہوگئی ہو۔ سُن ہو کر تھرا گئی ہو اور کل کائنات سراپا” کان“ بن گئی ہو۔اللہ رب العالمین کی کبریائی کا اعلان ہو رہا تھا۔کائنات کا ذرّہ ذرّہ خشیتِ الٰہی کی مجسم تصویر بنےاس امانتِ گراں بار کے عظیم کلمات دم سادھے سن رہا تھا۔
اذان۔۔۔الدعوةا التامة...ایک مکمل دعوت ہے۔۔واضح پیغامِ ربانی ہے۔۔۔اللہ کی کبریائی کا اعلان ہے۔اللہ کی توحیداور محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی گواہی ہے۔نماز اور کامیابی کی طرف دعوت ہے۔محشر میں رب کے حضور جمع ہونے کی یاد دلانے اور اس کی تیاری کی بار بار یاددہانی کراتی دعوت ہے۔
میں نے ٹونٹی بند کی اور گراؤنڈ کی طرف دیکھا تو سب بچے اپنے اپنے کھیل روک کر اکھٹے مسجد کی طرف آرہے تھے۔ آگے آگے مصعب اور فاتح تھے اور ان کے پیچھے پیچھے فرطِ جذبات اور خوشی کی تمازت لیے باقی بچے بھی آرہے تھے۔مصعب اور فاتح میرے پاس سے گزرے ،جلدی جلدی مجھے سلام کیا۔۔ان کی خوشی اور جلد بازی دیدنی تھی۔ان کو اپنے محبوب مصطفیٰ چچا سے ملنے کی جلدی تھی۔انھوں نےحسب ِمعمول اذان کے اختتام پر چچا کےمڑتے ہی ان سے بغل گیرہو جانا تھا۔
میں ادھر وضوگاہ میں بیٹھا اذان کاجواب دینے لگا۔۔۔الله اكبر الله اكبر..آج مصطفیٰ کی آواز میں ایک خاص درد جھلکتا تھا۔یقیناً وہ القدس کی تازہ صورتحال سے آگاہ تھا۔اس کی آواز میں ہمیشہ کی طرح ایسا سوزوگداز تھاجس کی پھیلتی لہروں سےاخلاص و صدق و صفا کے، اپنے رب الودود کی محبتِ شدیدہ کے ساغر چھلکتے تھے۔ مجھے ایسے لگا کہ جیسے فضا میں دور دور تک پھیلتی ”اذانِ مومن“ کی یہ مسحور کن آواز آج مجھے کہیں دور لے جانا چاہتی ہے۔ جیسے یہ مجھے صدیوں پرانی کسی سچی داستان کے حسین مناظر دکھانا چاہتی ہے۔ جیسے یہ اذان سراپا دعوت میرا ہاتھ تھامے وقت کی قیود سے آزاد کرکے ، الم ناک حاضرو موجود سے نکال کر ، لمحے بھر میں صدیوں پرانے خوش کن لمحات میں داخل کرنا چاہتی ہے۔
اذان جاری تھی۔ ۔۔دل کی تاروں میں سمندر کے مدوجزر جیسا ایسا ارتعاش طاری تھا جو چاند کی چودھویں شب کو پیدا ہوتا ہے۔ دل کسی طور آج قابو میں آنے سے انکاری تھا۔ میرے ایمان کے ساتھی ، میرے ہم سفر اور ہم رکاب ساتھی نے جب اشہد ان محمد رسول اللہ کہا تو اس میں ایسا درد تھا کہ سنگلاخ پہاڑوں پر ازل سے جمی چٹانیں بھی اگر سنتیں تو سہار نہ پاتیں اور بے ساختہ گر پڑتیں۔
میرا زخمی دل پہلے ہی غم سے بھرا پڑا تھا۔ اب جیسے ان فضاؤں میں تیرتی اور پھیلتی ایمانی صداؤں کے ساتھ ساتھ اڑے جارہا تھا۔ میرے تخیل کی لگاموں کو اس سچی اذان نے یکدم تھام لیا اور مجھے ایک ہی لمحے میں صدیوں پرانے ایک انتہائی پُرنور ، روح پرور اور جان افزا حسین منظر میں لے گئی۔ اللہ اللہ! یہ میں کہاں پہنچ گیا؟ چشم ِ تصور سے میں دھڑکتے بے قابو دل کو تھامے چودہ سو سال پرانی مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہورہا تھا اور حسرت سے آنکھوں کو ملتا ایک عجیب منظر اپنے سامنے کھلا دیکھ رہا تھا۔
سبحان اللہ وبحمدہ ،سبحان اللہ العظیم۔ مسجدِ اقصیٰ اصحابِ محمد سے بھری ہوئی تھی۔ بیت المقدس صحابہ کرام کے ہاتھوں فتح ہو چکی تھا اور آج امیر المومنین ابو حفص عمر الفاروق رضی اللہ عنہ بھی صحابہ کے درمیان مسجدِ اقصیٰ میں تشریف فرما تھے۔ قبلۂ اول کی فتح کی خوشی ہر صحابی، ہر تابعی کے چہرے سے عیاں تھی۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ان قدوسی نفوس کی تو ہر خوشی اور غم بس ایک اسلام ہی تو سے منسلک تھی۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مؤذنِ رسول ﷺ بھی اس مبارک فاتح جماعت میں موجود تھے۔ نماز کا وقت قریب آچکا تھا۔
اذان کون دے گا؟ امیر المومنین عمر بن خطاب فرماتے ہیں،”اے بلال! آج تم اذان دے کر رسول اللہ ﷺ کے مبارک دور کی یاد دلاؤ۔“
سب صحابہ و تابعین اور حاضرینِ مجلس اس حکمِ فاروقی کو سن کر سراپا اشتیاق ہیں۔ سب کی نظریں مؤذنِ رسول ﷺ بلال رضی اللہ عنہ پر مرکوز ہیں اور بزبانِ حال ملتجی ہیں۔۔۔اے ہمارے سردار بلال! اپنی ایمان و اخلاص سے گندھی آواز میں اذان دیجیے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کے مبارک دور کی ہمیں یاد دلادیجئے۔۔۔
مؤذنِ رسول اپنی جگہ سے اٹھتے ہیں۔ آج کئی سالوں بعد بلال رضی اللہ عنہ اذان دینے لگے ہیں کہ وہ پیارے نبیﷺ کی رحلت کے بعد اذان دینا چھوڑ چکے تھے۔۔بلال رضی اللہ عنہ اٹھتے ہیں اور مسجدِ اقصیٰ کے درو دیوار میں، آس پاس کی فضاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔۔۔زہے نصیب۔۔موذنِ رسول اذان دینے لگے ہیں! قبلۂ اول کا ذرہ ذرہ سراپا سماعت بنے اذانِ بلالی اپنے اندر جذب کرنے کے لیے تڑپ رہا ہے، مچل رہا ہے۔
بلال رضی اللہ عنہ کو آج اپنے خلیل ﷺ کی یاد ماہئ بے آب کی طرح تڑپا رہی ہے۔ مسجد میں موجود سب صحابہ یادِ حبیب ﷺ میں سراپا محو ہیں۔ ادھر اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے اور ادھر صحابہ کی نظروں میں نبوی دور کے روح پرور حسین مناظر دوڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ سب سر جھکائے دل میں برپا جذبات کے طوفان کو قابو رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اذان کا جواب دے رہے ہیں۔ موذن ِ رسول کی کیفیت بھی دیدنی ہے۔ بمشکل اذان دے پارہے ہیں۔ بار بار دل بھر آتا ہے اور آنسو چھلکنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ بلال رضی اللہ عنہ کی مبارک زبان سے اپنے مخصوص حبّ نبی میں گندھے لہجے میں اشھد ان محمد رسول اللہ کی صدا نکلتی ہے تو بس پھر۔۔پھر تو برداشت اور ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں، اور مسجد سسکیوں اور آہوں سے گونجنے لگتی ہے۔ خود بلال رضی اللہ عنہ آنسوؤں اور سسکیوں میں بمشکل ہی اذان مکمل کرتے ہیں، اور مسجدِ اقصیٰ کے درودیوار حنّانہ (وہ چبوترہ جس پر ٹیک لگا کر نبی ﷺ خطبہ دیا کرتے تھے) کے مثل رونا شروع کردیتے ہیں۔ سسکیاں بھرنا شروع کردیتے ہیں۔ اور میں چشم تصور سے یہ سارا منظر دیکھتے ہوئے صدیوں پہلے فتح بیت المقدس کے موقع پر دی گئی اذان ِ بلالی کی تاثیر اپنے دل میں محسوس کررہا ہوں، اور سوچ رہا ہوں کہ یہ اذانِ بلالی تو ایک اقدامِ مسلسل اور دعوت و عزیمت کی راہوں میں آگے سے آگے بڑھتے چلےجانے کا نام ہے۔
؎رکو نہیں ، تھمو نہیں کہ معرکے ہیں تیز تر!
یہ اذان تو جھوٹے خدا کی خدائی اور کبریائی سے ببانگِ دہل اور ڈنکے کی چوٹ پر انکار کی دلِ مومن میں ہمت وجرات پیدا کرتی ہے۔ یہی اذان تو آزمائش اور ابتلاء کے دور میں مکہ کی سنگلاخ چٹانوں اور تپتے صحرا میں ننگی پیٹھ لٹائے جانے اور بھاری پتھر سینے پر رکھے جانے پر بھی ”احد، احد“ کی صدائیں بلند کرنے کے لازوال جذبے پیدا کرتی ہے۔ اور پھر ہجرت کی راہوں سے لے کر القدس کی فتح تک ، قدم قدم پر برپا معرکۂ حق و باطل میں، حق پر ثبات پیدا کرنے کے لیے دلوں میں سکینت بن کر اترتی ہے۔ ہر لمحے اذان اور اذان میں پنہاں دعوت ِ کاملہ کے پیغام پر ڈٹے رہنے کا نام ہی تو اسلام ہے۔
میں انہی سوچوں میں غلطاں ، صدیوں پرانے اس حسین منظر کو اپنے ایمان کے ساتھی کی اذان کے پسِ منظر میں جرعہ جرعہ، گھونٹ گھونٹ اپنے اندر اتار رہا تھا اور آج کے دور کی مظلوم و مقہور مسجدِ اقصیٰ کے درودیوار سے اٹھتی دلدوز پکار کو سن رہا تھا۔ وہ پکار رہی تھی، سسک رہی تھی۔۔کون ہے جو آج ہمارے پیاسے وجود کو ایک بارپھر اذانِ بلالی سے سیراب کردے؟ کوئی ہے جو ہماری پکار سنے اور ہماری مدد کو آئے؟ مسجدِ اقصیٰ سے ابھرتی اذان میں مسجد کے زخمی درودیوار کی صدائیں مدغم ہوئیں اور اپنے انصار کو ڈھونڈنے ، زخمی، غمگین فضاؤں میں چہار جانب پھیل گئیں۔ ایسے میں مجھے محسوس ہوا ، مجھے لگا کہ جیسے آج کی مسجدِ اقصیٰ سے اٹھتی درد بھری اذان کو آگے بڑھ کر جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کے قالب میں ڈھلی ، سوزو اخلاص سے پُر، امت کے درد سے بھری ہوئی مصطفیٰ کی اذان نے آگے بڑھ کر گلے سے لگالیا ہے۔ اب اسے سینے سے لگائے تھپکی دے رہی ہے۔ اس کے آنسو پیار سے اپنی انگلیوں کے پوروں پر لے کر اسے دلاسہ دے رہی ہے کہ اے قدس الحبیب سے اٹھنے والی پیاری اذان ! بس کچھ صبر کہ سب قافلے اب تیری ہی طرف رواں دواں ہیں۔ بس کچھ صبر اور پھر طلوعِ سحر ہونے کو ہے۔
؎اٹھائیں لاکھ دیواریں طلوعِ سحر تو ہوگا
یہ شب کے پاسباں کب تک نہ ہم کو راستہ دیں گے
میں یہی امید افزا منظر چشمِ تصور سے دیکھ کر ، اپنے غم کا مداوا کررہا تھا اور غم آہستہ آہستہ عزم و ہمت اور جوش و جنوں کے پیکر میں ڈھلتا جارہا تھا۔ سکینت طاری ہورہی تھی اور غم دور ہوتا جارہا تھا۔ غم کمزوری بننے کے بجائے طاقت و قوت بنتا جارہا تھا۔ اور یوں بالآخر میرے ایمان کے ساتھی کی اذان نے میرے غم کو عزم و عمل کے قالب میں ڈھال دیا۔
”ہاں بھیا! کیا ارادے ہیں؟ اب وضو کر بھی لو، صرف دو منٹ رہ گئے ہیں جماعت کے کھڑے ہونے میں۔“ میں نے چونک کر دیکھا تو میرے پیچھے مصطفیٰ کھڑا مسکرا رہا تھا۔ مصطفیٰ کی پلکوں کے کناروں پر چمکتے موتی دل میں امڈتے سچے ایمانی جذبوں کی کہانی سنارہے تھے۔ میں اٹھا اور اپنےد وست کے گلے لگ گیا اور آہستہ سے اس کے کان میں کہا ۔
؎اذان ہی دے کے سو نہ جانا
ابھی فلسطین تک ہے جانا
مصطفیٰ نے مجھے پیار سے الگ کیا اور اپنے مخصوص شرارتی لہجے میں سرگوشی کی ”نماز پڑھ لیں یا اس سے بھی پہلے نکلنا ہے؟“ اور پھر فولادی عزم کو اپنے لہجے میں سمو کر اس نے عجیب ایمانی سرشاری میں کہا،”نکلنا تو ہے۔۔ہلکے ہوں یا بوجھل، جلد نکلنا ہے ان شاء اللہ،بہت جلد!“ اور میں دل میں مصمم ارادے کے بعد ہونے والے اطمینانِ قلب کو سینے میں محسوس کرتے ہوئے دوبارہ بیٹھ کر جلدی جلدی وضو کرنے لگا ۔
؎ یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
تبصرہ لکھیے