قیام کا وقت ختم ہوا۔ اختتام بالآخر آن پہنچا۔ دزدیدہ نگاہوں سے عجیب وغریب مناظر کا ایک پے درپے سلسلہ تھا جس کا میں خاموش تماشائی تھا۔ انگشت بہ دنداں، امتحان دیدۂ ظاہر اور وسعت قلب کے عالم میں انقلاب ایران کا سیر کرکے آیا ہوں۔ پچھلے جمعہ رخت سفر باندھا۔ سفر کی دعا پڑھی اور چل دیا۔ معمول کا حساب لگایا جائے تو معلوم نہیں کتنے واقعات بنتے ہیں۔ بس دیکھتا گیا اور آہیں بھرتا گیا۔
جاتے جاتے پہلا قیام ایران کے اس دور میں کیا جہاں ایران خود کفیل ہوا۔ 1973 کے عالمی تیل بحران نے اسکے پنجے قوی کردیے۔ خود پسندی کے شامیانے بجائے گئے۔ اہل اقتدار اچھل کود رہے تھے۔اس دور سے قبل شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کے پاکستان کے ساتھ خوب مراسم ہوا کرتے تھے۔ ادارہ برائے علاقائی ترقی آر سی ڈی کے سلسلے میں پاکستان آنا جانا رہتا تھا۔
1950 اور 1965 کے انکے دورۂ پاکستان نے تو خوب شہرت پائی۔ اب اس محبت کو نظر لگ چکی تھی۔ چراغوں میں وہ روشنی باقی رہی نہ تیل کا کوئی بندوبست معلوم پڑا ، اور کیونکر ہوتا، سارا ذخیرہ تو ایران کے حق میں نکلا تھا۔ اب شہنشائے ایران پرواز کرتے ہوئے پاکستان کو خلا سے ہی جھانک کر اڑان کی رفتار تیز کرلیتے جیسے پاکستان میں کسی ذخیرہ کی تلاش میں ہوں مگر ندارد۔
یہاں سے تمام چھوٹے بڑے واقعات کا معائنہ کرکے کچھ برس پیچھے چلے گئے۔ یہ 1963 کا دور تھا جب شہنشائے ایران نے ” سفید انقلاب” کے نام سے اصلاحات متعارف اور منظور کروائیں، جو اہل جبہ و دستار کو ناگوار گزریں۔ انکے نزدیک اس کا نام سفید اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ مسودہ وائٹ ہاؤس کا تیار کردہ ہے۔اس میں جو توانا آواز تھی وہ خمینی کی بانگ تھی۔ خمینی نے اس کے خلاف تقریروں اور خطبات سے سماں بنایا۔ البتہ جذبات کے عناصر انکے خطبات کا عمومی طور پر حصہ نہ تھے۔
معترضین کا زور توڑنے کیلئے شاہ نے مدرسہ فیضیہ پر حملہ کیا اور یوں خمینی کی قیادت میں اس عالمگیر تحریک کا آغاز ہوا۔ اسی مزاحمت کی بناء پر انہیں ملک بدر کیا گیا۔کچھ عرصہ ترکی میں بسر کرکے فرانس جا پہنچے اور تیرہ سال پر محیط طویل دور تارکِ وطن بن کر گزارا۔ ادھر ایران میں ڈاکٹر علی شریعتی، حسینیہ ارشاد کو مرکز بناکر انقلاب کی لیے فکری آبیاری میں مگن تھے۔
علی شریعتی انقلاب ایران کے نقیب تھے۔ انقلاب ایران کیلئے راہ ہموار کرنے کا سہرا انکے سر جاتا ہے۔ ڈاکٹر مرحوم سوشیالوجی کے پروفیسر تھے اور مشہد یونیورسٹی میں خدمات سر انجام دیتے تھے۔ اتنی کم عمری میں خوب کام کیا۔ مگر زندگی نے وفا نہیں کی اور وہ چوالیس برس کی عمر میں خدا کے حضور ان جھوٹے خداؤں کی شکایت کرنے حاضر ہو گئے۔
سراغ رسانی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ بغاوت اور خانہ جنگی کا خون آلود باب بھی ملاحظہ کیا۔ ساواک کی ستم ظریفی کے ابواب چھانٹ مارے۔ انقلابیوں کے خودساختہ عدالت میں ظہور ہونے والے فیصلے اور سروں کے تن سے جدا ہونے کا منظر دیکھا۔ مرگ بر شاہ، درود بر خمینی کے نعروں سے محظوظ ہوئے۔ عبید اللہ علیم نے کہا تھا؛
"میں یہ کس کے نام لکّھوں ، جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں، میرے لوگ مر رہے ہیں"
امام خمینی کی آمد پر ایئر پورٹ اور تہران شہر میں مخلوق کا امڈا ہوا سمندر دیکھا۔ بہشت زہرا میں جذبات سے خالی خمینی کی تقریر سنی۔
یہ سب ہوا اور فقط ایک ہفتہ لگا۔ سال 2020 سے سال 1979 تک گھوم پھر کر آیا۔ لوگ پروان چڑھ کے آگے بڑھتے ہیں، ایک ہم ہیں کہ پیچھے چلے گئے۔ یہ سب مختار مسعود صاحب کی مرہون منت ہوا۔ خود تو بسلسلہ آر سی ڈی ان دنوں چار سال تک ایران میں قیام کیا، ساتھ ہمیں انگلی پکڑ کر اپنے ہاں لے گئے۔جہاں خود رخ کیا وہی ہماری توجہ بھی چاہی۔ آخرکار واپس لوٹے اور رہنمائی کے فریضے سے فارغ ہوتے ہی ہماری انگلی جو تھام رکھی تھی، اب چھوڑ دی ہے۔
اب مختار مسعود صاحب کی سحر انگیز تحریر کا ایک سمندر ہے جس کا کوئی ساحل نہیں اور میں اس میں غوطے لگا رہا ہوں اور تعریفوں کے پل باندھ رہا ہوں۔ دل کہہ رہا ہے کسی دن یہ پل عبور ہو ہی جائے گا۔ کتاب کے آخر میں مختار صاحب عثمانیہ یونیورسٹی کے کسی الیاس برنی صاحب کے سفر نامۂ حج کی تعریف تو کرتے ہیں کہ انکے ساتھ میں بھی حج کرچکا ہوں۔ مگر شاید ہی انہیں معلوم ہو کہ وہی کام وہ بھی کرگئے۔ بس فرق حج اور انقلاب کا ہے۔ وہ حج کرکے آئے تھے ہم انقلاب کے چھوٹے بڑے واقعات دیکھ کر آگئے ہیں۔
تبصرہ لکھیے