سنتِ یوسفی کسے کہا جاتا ہے ؟؟؟
جب کوئی بے گناہ ، قید کر دیا جاتا ہے، پابندِ سلاسل کر کے کسی کو جرمِ بے گناہی کی سزا دی جاتی ہے ، تو اسے سنّتِ یوسفی کہا جاتا ہے، جیسےحضرت یوسف علیہ السلام کو بے گناہ ہونے کے باوجود عزیزِ مصر نے سالہا سال تک قید میں رکھا تھا۔
بھارت بھی آزاد فکر اور سوچنے والے دل کے لیے کسی قید خانے سے کم نہیں۔ حق کی ہر آواز اور کو ریاستی جبر کے ذریعے دبا دیا جاتا ہے یا خاموش کر دیا جاتا ہے۔
بھارتی نوجوان صحافی ، شرجیل امام بھی سچائی کی ایسی ہی ایک آواز ہے، جسے اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے جرم میں بھارتی سرکار نے مقید کر رکھا ہے ،
اور 28 جنوری 2023 کو اس آزمائش کے تین برس مکمل ہو جائیں گے ۔ شرجیل امام، آفرین فاطمہ ،
محمد زبیر ، روش کمار سمیت ہر سچائی کی مشعل جلانے والا معتوب ٹھہرتا ہے ۔
مگر شرجیل امام ، 28 جنوری 2020 سے مسلسل پابندِ سلاسل ہے تو اس کا جرم کیا ہے ؟؟
یعنی
کتنے جانباز ہیں حق گوئی کے مجرم لیکن
قابلِ دید ، تری طرزِ ادا ٹھہری ہے
مودی راج کے ہاتھوں اس طرزِ ستم کا سبب یہ ہے کہ شرجیل امام، زندہ رہنے کا حق مانگتا ہے، اپنی مرضی سے سانس لینے کا جرم کرتا ہے اور جبر کے پاؤں تلے کچلے ہوئے، دبے ہوئے مظلوموں کی آواز بنتا ہے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے 35 سالہ شرجیل امام ، ابھرتے ہوئے صحافی اور سوشل ایکٹوسٹ ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اقلیتوں کے حقوق اور مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے لیے آواز بلند کی ہے ۔ مگر بدنام زمانہ سٹیزنز امینڈمینٹ ایکٹ، جس کے تحت کروڑوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا سیکیولر بھارت پر حق چھینا جا رہا تھا ، تب شرجیل امام نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں ایک خطاب کیا، جس میں بھارتی حکومت سے اپیل کی گئی کہ سیکیولر بھارت پر تمام مذاہب اور اقوام کا برابر حق ہے، چنانچہ مودی سرکار فاشزم کو اپنا کر سیکیولر ہند کے خواب کو درگور نہ کرے، کیونکہ مختلف الانواع اقوام اور مذاہب کے دیس پر جب کسی ایک نظریے ، عقیدے یا قوم کو مسلط کیا جائے تو اس سے انتشار اور نفرتوں کو عروج ملتا ہے اور ریاست تباہی کی جانب گامزن ہو جاتی ہے ۔
ایک ریاست کا خیر خواہ جب بھی ریاست کو زوال کی جانب جاتا دیکھتا ہے تو خاموشی سے یہ منظر دیکھ نہیں سکتا ، بلکہ وہ لب کشائی پر مجبور ہوتا ہے ۔
مگر اقتدار اور طاقت کے نشے میں مودی سرکار یہ بات کیسے سمجھ سکتی تھی ؟
چنانچہ اس تقریر پر شرجیل امام کے خلاف 5 ریاستوں آسام ، اتر پردیش ، منی پور، اروناچل پردیش اور دہلی میں مقدمات درج ہوئے۔ اور مسلسل تین سال سے ، سورج کی روشنی اور کھلے آسمان کا سایا شرجیل امام سے چھین لیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ بہت بڑا مجرم ہے، سچ بولنے کا مجرم، اپنا حق مانگنے کا اور مظلوموں کی آواز بننے کا مجرم ، مگر اس کا یہ گناہ سب سے بڑا ہے کہ گناہگار نہیں ۔
تبصرہ لکھیے