ہوم << غریب ملک کے امیر عوام - حبیب الرحمن

غریب ملک کے امیر عوام - حبیب الرحمن

پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد غریب ملک ہے جس کے عوام امیر ہیں۔ حکومت ٹیکس پر ٹیکس لگا لگا کر تھک چکی ہے لیکن عالم یہ ہے کہ پورے ملک میں کسی کی بھی صحت پر کوئی اثر پڑتا نظر نہیں آتا۔

کبھی عوام کی غربت کا علم یہ تھا کہ آٹا 20 روپے من ہوا تو حبیب جالب نے عوام کو طعنہ دے مارا تھا کہ "بیس روپے من آٹا اور اس پر بھی سناٹا" اور اب امارت کا عالم یہ ہے کہ پچاس ماہ قبل کی قیمتوں کے مقابلے میں موجودہ ہر شے کی قیمت 5 گناہ بڑھ جانے کے باوجود بھی کہیں سے چیخ و پکار کی صدا بلند ہوتی نہیں سنائی دے رہی۔ جب آٹا 18 روپے سے 20 روپے من ہوا تو سناٹا سمجھ میں بھی آتا تھا اس لئے کہ ہر غریب امیر کی چھت پر ایک بندوق بردار بیٹھا ہوا ہوتا تھا، ایسے میں "چیں چاں" کرنے کا مطلب سب کو اچھی طرح معلوم تھا۔ کون ایسا ہوتا ہے جس کو موت کا خوف نہیں ہوتا۔

لوگ بھی اتنے اچھے ہوا کرتے تھے کہ بادشاہ سلامت کے پاس ظلم و ستم کی شکایت لے کر جانے کی بجائے یہ فرمائش کرنے کیلئے جاتے تھے کہ حضور کا اقبال بلند ہو، جناب ہمیں اور بھی بہت کام دھندے ہوتے ہیں، مہربانی کرکے جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ فرمادیں تاکہ آپ کے حضور سے جلد فارغ ہوکر ہم اپنے دیگر کام دھندے نمٹا سکیں۔ اب جبکہ وہ دور ختم ہو چکا ہے، چیخنے چلانے، برا بھلا کہنے اور گالیاں پٹخارنے کی مکمل آزادی ہے تب بھی چار ساڑھے چار برس پہلے کی ہر شے پرپانچ پانچ گناہ اضافہ ہو جانے کے باوجود بھی لوگوں کے یا تو صبر کی داد دینی چاہیے یا پھر اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ پاکستان میں بہت غریب نظر آنے والے بھی حقیقی غریب نہیں بلکہ مکار، فریبی اور جھوٹے ہیں۔

کہتے ہیں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے کمر کے رہے سہے مہروں کو بھی چور چور کر کے رکھ دیا ہے۔ بات بظاہر درست ہی لگتی ہے لیکن ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ کسی بھی کار کا اے سی تک کبھی بند نظر نہیں آتا۔ ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی وی پر عوام کو پیٹرل کی بچت کے طریقے بتائے جاتے تھے کہ جب آپ سگنل پر رکیں تو کار کا سوئچ آف کردیں، پیلی بگتی روشن ہونے پر کار اسٹارٹ کریں اور ہری بتی روشن ہونے پر چل دیں۔ اب عالم یہ ہے کہ کسی شاپنگ سینٹر سے صاحب کو کوئی شے پرچیز کرنی ہوتو وہ اپنے بیوی بچوں کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے کار کے انجن کو بند کرنا تو در کنار، اس کے اے سی کو بھی کھلا چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ جب حکومتی اہل کار یہ سب کچھ دیکھیں گے تو وہ پیٹرول کی قیمت کو کم کرنے کی حماقت بھلا کیسے کر سکتے ہیں۔

پاکستان کے جس وڈیرے، ملک، چوہدری، سردار اور نواب صاحب کے گھر چھاپا مارا جاتا ہے، ٹنوں کے حساب سے سونا اور کوٹھڑیوں کے حساب سے ملکی و غیر ملکی کرنسی بر آمد ہوتی ہے۔ سونا تولنے کیلئے کئی کئی من کے باٹ اور کرنسی گنے کیلئے نہ جانے کتنی مشینیں لگانے کے بعد بھی کئی کئی دن میں تول اور گنتی مکمل ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ذخیرے جس جس کے گھر سے بھی برآمد ہونے کی اطلاعات، اطلاعات پہنچانے والے محکموں کے توسط سے ہم جیسے غریبوں تک پہنچتی ہیں، اس کے بعد کی خبر کا آج تک کان و کان علم نہ ہو سکا اور شاید ہی تا قیامت علم ہو سکے۔ آنکھیں تو بس ایسے تمام افراد کو پچاس پچاس کاروں کے قافلوں کے ساتھ پورے ملک میں گھومتا پھرتا دیکھ رہی ہوتی ہیں۔

کہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کے پاس ڈالروں کا ذخیرہ تیزی کے ساتھ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بات غلط بھی نہیں۔ کہنے والوں کو اس بات کا علم بھی ہے کہ یہ ذخیرہ کس کس چوہدی، ملک، سردار، وڈیرے اور نواب کے ذخیروں میں اضافہ در اضافہ کرتا جا رہا ہے لیکن سنگین مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی ان کی شلواریں اتار نے کیلئے ہاتھ بڑھاتا ہے، وہ ایک ہی جھٹکے میں شلوار اتارنے والوں کے پورے کپڑے اتارنے کی دھمکیاں دینے لگتے ہیں اب عوام خود ہی سوچیں کہ بھلا دنیا میں کوئی شریفوں کے علاوہ بھی اتنا شریف ہو سکتا ہے کہ اپنی اپنی چوریاں سب کو بتاتا اور دکھاتا پھرے لہٰذا بات یہ کہہ کر ختم کردی جاتی ہے کہ "تو مجھے حاجی کہہ اور میں تجھے حاجی کہوں"۔

پاکستان نہیں، باقی ماندہ پاکستان کے لوگ اس لئے محفوظ ہیں کہ اس ملک کے کئی لاکھ محافظ ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو ہم نہ جانے کہاں ہوتے۔ ان محافظوں کی سب سے زیادہ محافظت ہماری عدالتیں کرتی ہیں۔ مثلاً آئین و قانون کو تار تار کئے جانے پر ان کو آئینی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اہم اور بڑے بڑے سیاسی فیصلے کرنے سے قبل ان سے "قانونی" تحفظ مانگ لیتی ہیں۔ ان کے احتساب کو غیر شرعی و غیر آئینی سمجھتی ہیں کیونکہ عوام اور ریاست کا تحفظ خطرے میں پڑ جانے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جب جب عدالتوں کے اعلیٰ ججز اور محافظینِ عوام کے اعلیٰ سالار اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ان اداروں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، سب کے سب "محفوظ" اور اپنے اپنے حقیقی ممالک کی جانب کوچ کر جاتے ہیں اور جو وقت انھوں نے "پردیس" میں گزارا ہوتا ہے، اس کی قیمت وصول کرکے باقی زندگی سکون کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ جب یہ نہایت عزت و جاہ والے افراد ہم جیسے غریبوں کیلئے دنیا بھر سے "بھیک" مانگ رہے ہوتے ہونگے تو انھیں کتنی شرم آتی ہوگی۔ لیکن کیونکہ ان کے دل دھڑکتے ہی ہمارے لئے ہیں، اس لئے وہ یہ ذلت بھی گوارہ کر لیتے ہیں تاکہ غریب عوام اگر کبھی بد دعا بھی کریں تو ان کے منہ سے کوئی نہ کوئی دعائیہ کلمہ بھی ضرور نکل ہی آئے۔ اللہ تعالیٰ ان سب ہمدردوں کو تاقیامت خوش رکھے، ہمارا کیا ہے، ہم تو پیدا ہی اپنے بڑوں کی خدمت کیلئے ہوئے ہیں سو یہ سلسلہ اسے طرح جاری و ساری ہے اور تا قیامت رہے گا۔

Comments

Click here to post a comment