مہنگائی نے ہر دور میں حکمرانوں کی بھی جانچ کی اور عوام کے صبر کو بھی۔اللہ کی زمین میں اقتدار کے ایوانوں میں پہچنے کے مستحق تو وہی لوگ ہونے چاہیئیں نا جو اس سے تقویٰ کرتے ہیں مگر ہم ہیں کہ شخصیت پرستی کے فتنے یا میڈیا کے ساحروں کے پیدا کردہ فتنے میں مبتلاء ہو کر ایک دوسرے کے مدمقابل آ چکے ہیں۔
حکمران تجوریاں بھر رہے ہیں اور ہم اس بحث میں مصروف کہ کون تبدیلی لایا اور کون پرانا شکاری ہے۔قوم پر ان حکمرانوں نے مہنگائی کا بازار گرم کر رکھا ہے،بے روزگاری مجبور انسانوں کو درجہ کفر تک پہنچا رہی ہے۔جرائم کی بڑھتی شرح کی وجہ شوق اور مجرمانہ ذہنیت ہی نہیں بلکہ بڑی وجہ بے روزگاری ہے۔قوم کے حساس فرد "مشتاق کاملانی" ہی کو لے لیجئے۔۔۔کیا وہ عادی بھکاری تھے یا شوق سے ہاتھ پھیلایا انہوں نے!!! سردست حقیقت بڑی تلخ ہے۔
مہنگائی،بے روزگاری اور بد امنی کی کیفیت نے عوام کو ہراساں کر رکھا ہے۔خوف نے ہر دوسرے شخص کی رنگت پیلی کر رکھی ہے،عزت نفس کا جنازہ نکلنے کا خوف،سفید پوشی کی قلعی کھلنے کا خوف،رسوائی کا خوف،بھوک کا خوف عوام الناس کے صبر کو آزما رہا ہے۔خوددار گھرانوں کے بے روزگاروں کی گھٹی گھٹی آہوں اور چیخوں کی آواز جگر کو پارہ پارہ کیے دے رہی ہے۔صبر سے ناطہ توڑنے والے بے روزگاروں کی کہانیاں الگ اذیت دے رہی ہیں۔
اللہ کے لئے حکمران ایسوں کو لاؤ جو قحط میں چوری کی حد ساقط کر دے،جو گشت کر کر کے بے روزگاروں کو تلاشے اور باعزت روزگار دے۔اللہ کے لئے اصل کی طرف لوٹ آئیےاور اسلامی نظام کو آگے لائیے،سودی معیشت کو خیرباد کہہ دیجئے تا کہ جرائم اور خودکشی کی خطرناک شرح کا توڑ ہو اور خوف کی کیفیت کا خاتمہ۔
تبصرہ لکھیے