دینی طبقہ میڈیا کے میدان میں اتر چکا ۔ اب آپ کو سوشل میڈیا کے میدان میں بے پناہ نیٹ ورکس ، چینلز ، سٹوڈیوز اور انفرادی کام کرنے والے ملیں گے جو دینی طبقے کے مزاج کے مطابق مواد کی تیاری میں مصروف ہیں ۔ مواد تیار ہو رہا ہے ۔ موبائیل فون نے آسانی کر دی ہے ، اپلیکیشنز کے ذریعے ویڈیو ایڈیٹنگ آسان ہے ۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ چھوٹی محلے کی مساجد کے خطبات جمعۃ بھی براہ راست سوشل میڈیا پر نشر ہوتے ہیں ۔ کوئی دینی ایونٹ ہو تو کیمروں ، موبائل فونز کی بھرمار ہوتی ہے ۔ کئی مدارس ، دینی ادارے اپنے اسٹوڈیوز بنا چکے ہیں ۔ انفرادی سطح پر بڑی تعداد سرگرم عمل ہے ۔
محتاط اندازہ بھی لگائیں تو دینی طبقہ میڈیا کے میدان میں کروڑوں کی سرمایہ کر چکا ۔ علماء نے کہا تو عوام الناس نے مہنگے کیمرے خرید دئیے ۔ آپ کچھ تحقیق کریں تو اندازہ ہو گا کہ کئی اداروں نے ، کئی علماء کرام نے ، بہت بڑی تعداد میں سٹوڈیوز بنائے جا رہے ہیں ۔ جدید کیمرے خریدے جا رہے ہیں ۔ ویڈیو مواد کی تیاری کو بطور کیرئیر اپنانے کا رواج فروغ پا رہا ہے ۔ سنگل کیمرے سے درس ریکارڈنگ سے بات آگے بڑھی ہے ۔ اب ایچ ڈی کیمروں سے پوڈ کاسٹ ، ٹاک شوز ، وی لاگز بنائے جا رہے ہیں ۔ ویڈیو ریکارڈنگ کی ضروریات کے تحت اچھے موبائل خریدے گئے ہیں ۔ ظاہر ہے اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ بھاری سرمایہ کاری ہے جو کہ دینی طبقہ میڈیا کے میدان میں کر چکا ہے ۔
ان کاوشوں کو مثبت پیرائے میں ہی لینا چاہیے ۔ یقینا یہ سب لوگ مخلص ہیں ۔ اپنی اپنی بساط ، اپنے وسائل ، اپنی استطاعت ، علمی صلاحیت کے مطابق میڈیا کے لئے کچھ نہ کچھ تیار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ یہ آغاز سفر ہے ۔ ابھی میدان میں اینٹری ہے ۔ ابھی بہت سی منازل باقی ہیں ۔ اخلاص ، جذبے اور ہمت و شوق برقرار رہنا چاہیے ۔ اسی سے بہت سی نئی راہیں بھی کھلیں گیں ۔
ایک میڈیا طالب علم کے طور پر میرا موضوع ایک صورتحال کا جائزہ لینا ہے ۔ دینی طبقے کی اس بھاری سرمایہ کاری کے نتائج ، اثرات ، لائحہ عمل کا جائزہ لینا ہے ۔ جب اتنے بڑے پیمانے پر مواد تیار ہو رہا ہو ۔ مجموعی طور پر بڑی تعداد میں ویڈیوز اپ لوڈ ہو رہی ہوں تو ضرور اس مواد کی اثر پذیری اور مقبولیت کا بھی جائزہ لینا چاہیے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا دینی طبقہ سوشل میڈیا کے میدان میں بھی مواد کے بحران کا شکار ہے ۔ ہر کوئی اپنا مواد اپ لوڈ تو کر رہا ہے لیکن یہ سوشل میڈیا کے بیانیہ میں ۔ اس کی مقبولیت اور معاشرے میں اثرات کے حوالے سے اچھے نتائج نہیں دے رہا ۔ مواد تو بن رہا ہے لیکن مقبول نہیں ہو رہا ہے ۔ ویڈیوز ۔ تحریروں ، گرافکس ، چینلز ، پیجز وغیرہ کی بھرمار ہے لیکن سوشل میڈیا میں مطلوبہ حصہ نہیں ۔ یہ مواد وائرل نہیں ہوتا ۔ حتی کہ اپنے فالورز اور لائیک کرنیوالوں میں سے بھی بہت کم تعداد اس مواد میں دلچسپی لیتی ہے ۔ دینی طبقے کے سوشل میڈیا صارفین کہیں دیگر مواد سے متاثر تو نہیں ہو رہے ۔ کیا ان کے پاس بہترین متبادل موجود ہے ۔ یہ جائزہ لینا ہو گا کہ دینی طبقے کے ایچ ڈی کیمرے ۔ اچھے موبائل اور جدید آلات معاشرے پر کتنے اثرات مرتب کر رہے ہیں اور لبرل و سیکولر طبقے کے کیمرے کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔ میں بڑے ٹی وی چینلز ۔ فلم انڈسٹری یا میڈیا اداروں کی بات نہیں کر رہا ۔ سوشل میڈیا پر پیش کئے جانیوالے مواد کی بات ہو رہی ہے جو کہ عموما چھوٹے پیمانے پر ہی تیار ہوتا ہے ۔ یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ دینی طبقے نے معاشرے کو کتنے انفلوئنسرز دئیے ہیں جو سوشل میڈیا کا بہترین استعمال کر رہے ہوں
اگر ہم غور کریں کہ دینی طبقہ سوشل میڈیا پر مواد پیش کرنے ، ایشوز پر بات کرنے کے حوالے سے یا تو یکطرفہ ابلاغ کر رہا ہے یا پھر ردعمل کا ابلاغ ۔ یکطرفہ ابلاغ سے مراد یہ ہے کہ لیکچر ریکارڈ کئے جا رہے ہیں ، فتوی ، سوالات جواب ، جلسے ، اجلاس ، بیانات ، درس نشر ہو رہے ہیں ۔ کتب ، تاریخ ، اور انہی موضوعات پر ٹاک شوز ہو رہے ہیں جن کا مقصد مسائل سے آگاہی ہے ۔ یہ موضوعات معاشرے کے درپیش چیلنجز ۔ ایشوزسے نہیں لئے جاتے بلکہ ادبی ، کتابی اور تاریخی حوالوں سے ہوتے ہیں ۔ شائد یہ سوچ لیا گیا ہے کہ ناظرین بھی وہی دیکھیں اور سوچیں جیسا ہم سوچتے ہیں ۔ جو ہمیں پسند ہے وہی دوسرے لوگ بھی پسند کر لیں ۔
اسی طرح دوسری صورت ردعمل کا ابلاغ ہے ۔ مثلا سوشل ، الیکٹرانک میڈیا پر کوئی ایشو ابھرتا ہے تو اس کے ردعمل کے طور پر کچھ تیار کیا جاتا ہے ۔ مثلا کوئی واقعہ ہوا ، قانون سازی ہوئی ، کوئی خبر آئی تو اس کے ردعمل میں مواد تیار کیا جاتا ہے ۔ البتہ اس حوالے سے دینی طبقہ ہمیشہ کافی دیر کردیتا ہے ۔ کیونکہ دینی طبقے کے پاس ابھی تک تیز ترین میڈیاردعمل کا سسٹم ہی موجود نہیں ہے ۔ دینی طبقے کا ردعمل کافی دیر سے آتا ہے ۔ اس وقت کہ جب شائد وہ ایشو بہت سے صارفین بھول بھی چکے ہوتے ہیں یا کوئی اور وائرل ایشو ڈسکس ہو رہا ہوتا ہے ۔
" مواد کا بحران" یہ ہے کہ اسقدر بھاری سرمایہ کاری کے باوجود دینی طبقہ ۔ سوشل میڈیا کے میدان میں اپنا وجود منوا نہیں سکا ہے ۔ ایک طرح کی گمنامی ہے اور انتہائی کم اثر پذیری ۔ اور سب سے اہم یہ کہ سٹوڈیوز بن چکے ، کیمرے خرید چکے ، جدید آلات ، کمپیوٹرز ، ڈرون کیمرے اور بہت کچھ موجود ہے لیکن پریشانی یہ کہ اب " کیا بنایا جائے ؟ " ۔ سوشل میڈیا پر کیا پیش کیا جائے ؟ ۔ ایسا مواد کیسے بنے کہ جو بڑے پیمانے پر شئیر ہو ۔ وائرل مواد کیسے تیار ہو ۔ یا کم سے کم سوشل میڈیا پر پھیلائے جانیوالے لبرل و سیکولر مواد کو بروقت جواب ہی دیا جا سکے ۔ کس طرح عام آدمی کے لئے ، نوجوان نسل کے لئے اور معاشرے کے مختلف طبقات کے لئے دینی میڈیا کا بنایا گیا مواد قابل قبول ہو ۔ وہ شئیر کریں ۔ صرف اپنے اور ہم خیال لوگ ہی نہ دیکھیں ، وہی مخصوص حلقے تک نہ پہنچے بلکہ معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچے اور اثر دیکھائے ۔ کون سے موضوعات ہوں ۔ کس انداز میں بیان کئے جائیں ۔ مواد کی تیاری کس طرح ہو کہ مختلف واقعات ، ایشوز پر دینی طبقے کا موقف اور مواد پیش کیا جا سکے ۔ سوشل میڈیا پر شئیر کرنے کے بعد بھی لوگوں کو بتانا نہ پڑے کہ ہم نے کونسی ویڈیو بنائی ہے ۔ ضرور دیکھیئے گا ۔ بلکہ یہ ویڈیو ہی اتنی اثر انگیز ہو کہ خود بخود پہنچ جائے اور سب خود آپ سے ذکر کریں کہ فلاح ایشو پر آپ کا موقف بہترین تھا اور ویڈیو ہم دیکھ چکے ۔
میڈیا کے لئے مواد کی تیاری کی مہارت سیکھنا ہو گی ، پروپیگنڈا کے اصول ، فریمنگ ، ایجنڈا سیٹنگ اور بہت سی دیگر مہارتیں جو کہ میڈیا مواد کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں ۔ سب سے اہم یہ کہ میڈیا کے لئے مواد کی تیاری کو یکطرفہ اور ردعمل کے ابلاغ سے آگے بڑھانا ہوگا ۔ میڈیا کی دلچسپی ، اثرات اور ٹرینڈز بنانے کے لئے میڈیا کے ہی اصول و ضوابط سیکھنا ہوں گے ۔جس طرح آپ نے مواد تیاری کے لئے جدید کیمرے خریدے ، اب کوریج کے لئے ڈرون کیمرے استعمال کرتے ہیں ، ریکارڈنگ کے لئے سٹوڈیوز بنا لئے ہیں تو پھر میڈیا کا پروفیشنل ازم بھی سیکھ لیں ۔ اپنی تقریبات ، تقاریر ، ٹاک شوز اور ایسے ہی یکطرفہ مواد کے ساتھ ایسا مواد بھی تو تیار کریں جو کہ نئے ایشوز اجاگر کرے ، معاشرہ آپ کی تحقیق اور تخلیق سے متاثر ہو ۔ آپ کا مواد اتنا بروقت اور ٹو دی پوائنٹ ہو کہ وہ تیزی سے اپنی جگہ بنا سکے ۔ مواد کی تیاری کے حوالے سے سب سے اہم ترین پہلو یہ ہے کہ موضوع ، ایشو آپ تازہ ترین لیں ۔ اس کو اپنے موقف ، اپنے نظریے ، اپنے پیغام کے مطابق ڈھال لیں ۔ میڈیا کی کئی مہارتیں ہیں ، فریمنگ ، ایجنڈا سیٹنگ اور بہت سی دیگر کہ جن کے استعمال سے اپنے مواد کو پلان کریں ، پیش کریں اور نتائج حاصل کریں ۔ اہم ترین پہلو رپورٹنگ ہے۔ سورسز آف نیوز پر نظر رکھنا اور ریسرچ بھی ۔ دینی طبقہ روایتی میڈیا ، دیگر طبقات کے بنائے اور اٹھائے گئے ایشوز پر ردعمل دیتا ہے ۔ ان کے پاس معاشرتی پہلوؤں کی ریسرچ ، اور مختلف حوالوں سے رپورٹنگ کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ خبر واقعات۔ ایشوز کے سورسز پر نظر نہیں ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح فوری ردعمل اور تیزی سے مواد تیاری کا نظام بنانے کی بھی ضرورت ہے ۔ میڈیا صرف لیکچر دینے ، سٹوڈیو میں بات چیت کے پروگرامز اور چند سکالرز کے بیٹھ کر پوڈ کاسٹ کا نام نہیں ہے ۔ یہ شائد سب سے کم اثرات رکھنے والے فارمیٹس ہیں ۔ دیگر طریقوں اور مہارتوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ سوشل میڈیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے تحت چلتا ہے اور یہاں سیکنڈز کے آئی کنٹیکٹ کی اہمیت ہے ۔ جی ہاں تین سیکنڈ اور پھر سات سیکنڈ ۔ ایک منٹ اب کچھ زیادہ لگتا ہے ۔ سوشل میڈیا کی تکنیک کو سمجھیں اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو بھی ۔
ٹرینڈز ۔ ہیش ٹیگ اسی طرح اہم ہیں جس طرح مواد کی تیاری کے آلات ۔ اگر آپ سوشل میڈیا کی ڈائنامکس کو سمجھے بغیر مواد کی تیاری میں لگے رہیں گے تو شائد اتنی محنت ، وسائل اور جدید ترین آلات کے باوجود نتائج نہیں حاصل کر سکیں گے ۔
یہ سب کچھ بہت مشکل نہیں اور ناممکن تو کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ جس طرح میڈیا کے میدان میں آلات کے حوالے سے بھاری سرمایہ کاری ہوئی ہے اسی طرح دینی طبقے کے ماہر میڈیا پرسنز کی تیاری پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے ورکشاپس ہوں اور تربیتی سیشنز کا اہتمام ۔ دینی مواد بنانے والوں کے لئے کورس متعارف کرائے جائیں اور مہارتیں سیکھنے کا اہتمام ۔ سب سے اہم ۔ انتہائی اشد ضرورت ایک تھنک ٹینک کا قیام ۔ جو کہ ریسرچ ، حالات کے تناظر ، مستقبل کے چیلنجز ، معاشرتی تبدیلیوں ، بیرونی اثرات ، لبرل و سیکولر طبقے کی سرگرمیوں پر مستقل نظر رکھ کر دینی طبقے کو گائیڈ لائن فراہم کرے جس کی بنیاد پر مواد کی تیاری کے مراحل طے ہو سکیں ۔ دینی میڈیا نیٹ ورکس ، سٹوڈیوز اور مواد کی تیاری کرنے والوں کو رہنمائی فراہم کی جا سکے اور ان کے وسائل کے بہترین استعمال کی کوشش کی جا سکے ۔ مواد بنانے والے میڈیا ورکرز گہری تحقیق ۔ منصوبہ بندی اور واقعات و مشاہدات کے تناظر میں تجزیہ کرنا مشکل ہوتا ہے یہ کام تھنک ٹینک میں بیٹھے ماہرین اور مفکر کریں جس گائیڈ لائن کو پھر استعمال کیا جا سکے ۔ اپنے ایشوز اجاگر کیے جا سکیں اور معاشرے پر دور رس اثرات مرتب کرنے والی پلاننگ ہو ۔ اپنا بیانیہ بنایا جا سکے اور ٹھوس دلائل و حقائق کے تناظر میں پروگرامز کی تیاری ہو ۔ معاشرتی تبدیلیوں پر نظر رکھی جا سکے ۔ لبرل و سیکولر طبقے کی چالوں کو سمجھا جا سکے ۔
اسی طرح دوسرا اہم مسئلہ بزنس ماڈل کا بھی ہے کہ کس طرح دینی طبقہ اس سوشل میڈیا میں ابھرنے والے آمدن کے مواقع سے فائد ہ اٹھا سکے اور اسے اچھے مواد کی تیاری میں استعمال کر سکے ۔ صرف چندے مانگنا اور مستقل محتاج رہنا کوئی اچھی پلاننگ نہیں ہوتی ۔ دینی میڈیا کے مواد بنانے والوں کو خودکفیل ہونا چاہئے ۔ اچھا مواد بنے گا تو ضرور اپنے لئے آمدن بھی بنائے گا اور اس آمدن کو مزید اچھا مواد بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکے گا ۔ یقین مانیں آپ میڈیا کو سمجھیں ۔ اسے وقت دیں ۔ اسکا استعمال سیکھیں تو یہ آپ کے لیے مواقع فراہم کرے گا ۔ دعوت کا بہترین ہتھیار ثابت ہو گا ۔
دینی طبقے کو ان امور پر غور کرنا ہوگا تاکہ میڈیا کے میدان میں اس کی بڑی سرمایہ کاری زیادہ سے زیادہ مفید ہو سکے ۔
تبصرہ لکھیے