ہوم << آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا بطور آرمی چیف کا آ خری خطاب - کامران اشرف

آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا بطور آرمی چیف کا آ خری خطاب - کامران اشرف

آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے یوم شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بڑے سچ سے پردا اٹھا دیا۔ پرعزم طریقے سے خطاب میں کہا کہ "بطور آرمی چیف میں آخری بار خطاب کر رہا ہوں"۔

اس بیان کے بعد ملازمت میں توسیع کے حوالے سے تمام تجزیہ نگاروں کے تجزیے اور ذرائع کے حوالے سے خبروں کو بے بنیاد دے دیا۔ اپنے اس خطاب میں بہت سے رازوں سے پردا اٹھایا۔ ان کے خطاب سے تاثر ملا کہ آرمی چیف اور فوج ممکنہ حد تک سیاست سے کنارہ کرنا چاہتی ہے۔ اس خطاب میں انہوں نے تاریخ کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ "سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی۔ لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں صرف 34 ہزار تھی، باقی لوگ حکومت کے مختلف محکموں میں تھے اور ان 34 ہزار کا مقابلہ ڈھائی لاکھ انڈین آرمی، دو لاکھ مکتی باہنی کی ٹرینڈ آرمی سے تھا"۔

سیاست دانوں سے خاصے نالاں دیکھائی دئیے اور حالیہ حکومتوں کے تبادلے کے حوالے سے کچھ یوں لب کشائی کی "اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی رو کو سمجھتے ہوئے اور عدم برداشت کو ختم کرتے ہوئے ایک سچا جمہوری کلچر پیدا کریں۔ 2018 کے الیکشن میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کو بہانہ بنا کر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا اور 2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا۔ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہو گا۔ ہار جیت سیاست کا حصہ ہے اور ہر پارٹی کو اپنی فتح اور شکست کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ رائے عامہ احترام کا نام ہے۔"

پاک فوج کے سیاست میں کردار کے حوالے سے واضع طور پر اپنا موقف دیا کہ "میں کافی سال سے اس بات پر غور کر رہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہندوستانی فوج کرتی ہے مگر ہم کم و بیش ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری فوج جو قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے، تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ گذشتہ 70 سال کی فوج کی سیاست میں مداخلت ہے جو کہ غیر آئینی ہے۔ اس لیے پچھلے سال فروری میں کافی سوچ و بچار کے بعد فوج نے فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔‘

آرمی چیف نے یہ بھی کہا ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس پر سختی سے کاربند ہیں تاہم اس آئینی عمل کا خیرمقدم کرنے کے بجائے چند حلقوں نے آرمی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر بہت غیر شائستہ زبان کا استعمال کیا۔" پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوم شہدا کی تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ ’بطور آرمی چیف میں آخری بار خطاب کر رہا ہوں۔جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے کہ میں فوج کے لیے اپنی 44 سالہ زندگی کے بعد ریٹائر ہو رہا ہوں۔میں شہدا کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں اور ان کے لواحقین کے صبر اور حوصلے کو داد دیتا ہوں اور انھیں یقین دلاتا ہوں کہ فوج کبھی انھیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔ ہم آپ کی قربانیوں کا صلہ نہیں دے سکتے مگر آپ کے پیاروں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔"

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ بھی کہا کہ "فوج کا بنیادی کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے مگر پاکستان فوج اپنی استعدداد سے بڑھ کر قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے۔ریکوڈک کا معاملہ ہو یا کارکے کا جرمانہ، فیٹف کے نقصان ہوں یا فاٹا کا انضمام، سرحد پر باڑ لگانا یا قطر سے سستی گیس منگوانا یا دوست ملکوں سے قرض کا اجرا ہو یا کووڈ کا معاملہ، سیلاب کے دوران امدادی کام ہو یا کچھ اور فوج نے ہمیشہ اپنی استعدداد سے بڑھ کر کام کیا ہے۔"

اس خطاب کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی پالیسی، اپنی ذاتی رائے، اور آئندہ کا لائحہ عمل سامنے دے دیا ہے۔ اب جماعت اسلامی کے امیر محترم سراج الحق صاحب کی تجویزکو مانتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے مکمل غیر جانبداری کا قوم سے وعدہ کیا ہے اب سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ادارہ کو اپنے عہد کی پاسداری پر قائم رکھنے کے لیے طریقہ کار تشکیل دیں اور اگر اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہو تو بھی تاخیر نہ کی جائے۔آئیے مل کر ایک نیا سوشل کنٹریکٹ کرلیں اور اس بات کو یقینی بنالیں کہ کس طرح سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل سے ہمیشہ کے لیے محفوظ بنانا ہے۔

اب اس وضاحت کے بعد بھی سیاستدان اپنا قبلہ درست نہیں کرتے اور گیٹ نمبر چار کی طرف دیکھتے ہیں۔ تو اس کا نقصان عوام کھبی نہیں پورا کرسکتی۔ جو وضاخت درکار تھی وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دے دی ہے اب سے سیاسی جماعتوں کا امتحان شروع ہوگیا ہے

Comments

Click here to post a comment