ماضی میں عالمی طاقتوں نے ہمیشہ افغانستان کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے جنگ و جدل کا مرکز بنایا ۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے برطانیہ اور روس جیسی عالمی طاقتوں نے سیاسی مسابقت کے لئے یہاں کا رخ کیا۔ جبکہ بعد کی عالمی طاقتوں امریکہ اور روس نے بھی اس کا استحصال کیا۔ مگر تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہر نئی طاقت کو بالآخر شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ اس بناء پر اس سرزمین کو عالمی طاقتوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔
لفظ گریٹ گیم برطانیہ اور روس کے درمیان خطے میں پائے جانے والی مسابقت کا دوسرا نام ہے۔ اس کا آغاز 1830 میں تب ہوا جب برطانیہ کو وسط ایشا میں روس کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خطرات لاحق ہوئے۔ دوسری جانب برطانیہ بھی استعماری عزائم کے ساتھ اپنے پنجے گاڑ چکا تھا۔
وسط ایشا کے خیوا، بخارا اور کوکند خانیت پر قبضہ کے بعد روس جنوبی ایشا کے قریب پہنچ چکا تھا۔ ایسے میں یہ افغانستان کی سٹریٹیجکل اہمیت ہی تھی جس نے دونوں طاقتوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
افغانستان وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے۔ روس کو وسط ایشیا سے آگے بڑھنا تھا یا برطانیہ کو اپنی سلطنت بچانا تھی، دونوں صورتوں میں افغانستان اہمیت کا حامل تھا۔ اب سوال یہاں پر یہ پیدا ہوا کہ کیا اس غلط صورتحال میں افغانستان کو ایک غیر جانب دار ریاست کے طور پر قائم رہنا تھا یا نہیں؟ یا سرحدی ریاست کے طور پر اسے قائم رکھنے کی کوشش آخر کس نے کی ؟
دونوں جانب سے ہر کسی نے اپنا الو سیدھا کرنے کی خاطر اس کی ذمہ دار ی قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ فرض کیجیے کہ یہ روسی عزائم تھے جنہوں نے افغانستان کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ روس کے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے برطانیہ نے تشدد اور خون ریزی کا جہنم بنا کر روسی عزائم کے سامنے آگ و خون کی دیوار کھڑی کردی۔ پچھلے ڈیڑھ سو سالوں میں افغانستان میں ہونے والے جنگ و جدل کی بنیاد یہی گریٹ گیم تھی۔ جس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کے حریفوں یعنی امریکہ اور سویت یونین نے بھی حصہ ڈالا ۔ یعنی اس خون ناحق میں سب برابر کے شریک ہیں۔
۔۔۔۔
جاری ہے
تبصرہ لکھیے