وزیر اعظم جناب شہباز شریف ویسے تو پاکستان سے شرم الشیخ (مصر) گئے تھے لیکن نکلے وہ لندن سے ہیں ۔ یعنی اُدھر’’ ڈوبے‘‘، اِدھر نکلے ۔ شہباز شریف شرم الشیخ اسلئے گئے تھے تاکہ وہاں برپا عالمی ماحولیاتی کانفرنس( COP27)میں شریک ہو سکیں ۔
پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق ، شرم الشیخ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ’’نہائت شاندار اور دلکشا خطاب‘‘ فرمایا اور عالمی لیڈروں سے اپیل کی کہ پاکستان کو قرضوں کی ضرورت نہیں بلکہ عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ پاکستان کے تین کروڑ سے زائد سیلاب زدگان کی ممکنہ امداد کرے ، اسلئے کہ پاکستانی سیلاب زدگان کو اربوں ڈالر کا جو نقصان پہنچا ہے ، وہ دراصل صنعتی امیر ممالک کے پیدا کردہ ماحول دشمن اقدامات کی وجہ سے ہُوا ہے۔
یہ مطالبہ عین انصاف کے مطابق ہے کیونکہ عالمی آلودگی اور درجہ حرارت بڑھانے میں پاکستان کا کردار ایک فیصد سے بھی کم بتایا جاتا ہے ۔ جناب شہباز شریف کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر ماحولیات محترمہ شیری رحمن بھی شرم الشیخ میں پاکستان کے مفاد میں خوب بولی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان نے مصر کے اِس سیاحتی مقام پر جو مطالبات کیے ہیں، اُنہیں کتنی اور کہاں تک پذیرائی ملتی ہے ؟ شرم الشیخ میں وزیر اعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان، سے بھی اچھے ماحول میں، دوبارہ، ملاقات ہُوئی تھی۔
اور یوں یہ ممکن ہُوا کہ شہزادہ صاحب 21نومبر کو پاکستان تشریف لائیں گے ، لیکن اب اعلان ہُوا ہے کہ سعودی ولی عہد نے بوجوہ دَورۂ پاکستان ملتوی یا موخر کر دیا ہے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ خان صاحب کے لانگ مارچ اور پاکستان میں دیگر کئی دِگرگوں سیاسی معاملات کے کارن شہباز حکومت کی پہلی بڑی سفارتی و مالیcasualtyہے۔ شرم الشیخ (مصر)سے وزیر اعظم کو سیدھا پاکستان آنا تھا مگر پاکستانی عوام یہ دیکھ اور سُن کر حیران ہی رہ گئے کہ شہباز شریف ’’اچانک‘‘ لندن جا پہنچے۔ پاکستانی عوام حیران ہیں کہ ملک شدید مالی مشکلات اور سیاسی و سماجی ابتری کا شکار بنا ہُوا ہے اور وزیر اعظم صاحب ہیں کہ اُن کی ’’سیریں‘‘ ہی ختم نہیں ہو رہی ہیں ۔واقعہ مگر یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف سیر سپاٹا نہیں کررہے بلکہ گمبھیر ملکی مسائل نے اُنہیں اسقدر پریشان کررکھا ہے کہ اُنہیں مجبوراً لندن یاترا پر جانا پڑا تاکہ وہ اپنے بڑے بھائی اور قائد،جناب محمد نواز شریف، سے صلاح مشورے کر سکیں۔
میڈیا میں شہباز شریف کی نواز شریف سے ملاقاتوں کا ویڈیو احوال سامنے آیا ہے اور متنوع انداز میں ان پر متعدد تبصرے بھی۔ شہباز شریف اور اتحادی حکومت کے مخالفین ان ملاقاتوں اور ویڈیو احوال پر سخت الفاظ میں تنقیدکرتے پائے گئے ۔ شہباز شریف کو بروز ہفتہ بتاریخ 12نومبر پاکستان پہنچ جانا چاہیے تھے۔ وہ لندن سے بجانبِ پاکستان روانہ ہُوئے بھی مگر اچانک خبر آئی کہ اُنہوں نے مبینہ طور پر طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے مزید ایک دن کے لیے لندن قیام کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس کالم کی اشاعت تک شائد وہ پاکستان پہنچ چکے ہوں۔ شہباز شریف نے قیامِ لندن کے دوران مبینہ طور پر نواز شریف سے چار بار ملاقاتیں کی ہیں۔ اِنہی ملاقاتوں کے پس منظر میں پی ٹی آئی قیادت نے طنزاً کہا ہے کہ نون لیگ نے اپنا دارالحکومت لندن منتقل کر لیا ہے ۔
ان ملاقاتوں میں دراصل کیا طے پایا ہے اور کیا کیا صلاح مشورے کیے گئے، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے، البتہ ’’زبانی طیور کی‘‘ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ ان چار ملاقاتوں میں شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان خاص طور پر تین اہم موضوعات پر مشورے اور فیصلے ہُوئے ہیں (1) جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائر منٹ کے بعد اگلا آرمی چیف کون بنے گا؟(2) اگلے عام انتخابات کب منعقد ہوں گے (3) جلد انتخابات کے لئے عمران خان کا دباؤ ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔لندن میں شریف برادران کے درمیان ہونے والی ان پُر اسرار ملاقاتوں کی موجودگی میں پی ٹی آئی کی نون لیگ اور شریف برادران پر تنقیدی یلغار کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو شدید اعتراض ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف ایک ’’سزا یافتہ ‘‘ اور ’’مفرور‘‘ شخص سے پاکستان کے حساس معاملات بارے کیوں مشورے کررہے ہیں ؟
جواباً نون لیگی قائدین کا شائستہ اسلوب میں بر ملا اور بجا کہنا ہے کہ لندن میں اپنے قائد سے ملاقاتیں اور مشورے کرنا ہمارا حق ہے۔ ان ملاقاتوں میں مذائقہ اور غیر قانونی عنصر کیا ہے ؟ شریف برادران کی ملاقاتوں کے فوری بعد وزیر اعظم شہباز شریف سے منسوب یہ اہم اعلان ہمارے میڈیا میں گونجنے لگا:’’اگلے آرمی چیف کا اعلان آئین کے مطابق ہوگا۔‘‘ اور ساتھ ہی نواز شریف سے منسوب یہ الفاظ بھی سامنے آئے :’’ جتھوں کی بات نہ پہلے مانی ، نہ اب مانیں گے ۔‘‘ اُن کا اشارہ غالباً عمران خان کے نواز شریف حکومت کے خلاف پہلے دھرنے اور حالیہ لانگ مارچ کی طرف ہے۔ شریف برادران’’ڈٹ کرکھڑے‘‘ عمران خان کے خلاف ڈٹ گئے ہیں ؟
جناب عمران خان ہیں کہ شر یف برادران کی ان ملاقاتوں اور بیانات پر سخت بھنائے ہُوئے ہیں۔ شریف برادران کے خلاف خان صاحب کے لہجے کی تلخی اور کڑتّن مزید بڑھ گئی ہے ۔ اس میں فرسٹریشن کا عنصر بھی کارفرما ہے۔ سی این این، ٹی آر ٹی اور ڈاؤچے ویلے کو دیے گئے تازہ ترین انٹرویوز کے دوران بھی خان صاحب کی یہ فرسٹریشن جھلکتی ہے۔وہ غصیلے لہجے میں شریف برادران کو پھر قابلِ اعتراض القابات سے یاد کرنے لگے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ ’’القابات‘‘ خان صاحب کی گفتگو کا خاصہ ، عمومی پہچان اور مرکزی خیال بن چکے ہیں۔ غصہ خان صاحب کو اس بات کا بھی ہے کہ اُن کے دباؤ ، حکومت کے خلاف کئی جلسوں اور اب لانگ مارچ کے باوصف وہ اتحادی حکومت اور وزیر اعظم شہباز شریف کو اپنے ڈھب پر نہیں لاسکے ۔ نہ ہی اُن سے اپنا کوئی مطالبہ منوایا جا سکا ہے ۔
وزیر آباد میں مبینہ قاتلانہ حملے کے بعد اب وہ گھر بیٹھ کر لانگ مارچ کے شرکا سے جس لہجے میں خطاب کرتے سنائی دے رہے ہیں، اِس سے بھی اُن کے باطنی جذبات و احساسات کا بخوبی ادراک کیا جا سکتا ہے ۔جناب عمران خان کے دو معتمد ساتھیوں ( فیصل واوڈا اور خرم حمید روکھڑی) نے حالیہ ایام میں میڈیا میں جو انکشافات کیے ہیں، اِن سے بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے طیش اور فرسٹریشن میں اضافہ ہُوا ہے۔
دونوں مذکورہ افراد کے میڈیا سے مکالمے نے خان صاحب کے تضادات کو عیاں کیا ہے۔ اور ان تضادات کا عیاں ہونا خان صاحب کے مزاجِ گرامی پر سخت گراں گزررہا ہے ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں مذکورہ افراد کو پی ٹی آئی سے فارغ خطی دے دی گئی ہے۔ عمران خان کے مقربین اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا لشکریوں نے جس اسلوب میں ان دونوں افراد کے خلاف یلغار کی ہے، یہ بھی خان صاحب کی ناراضی کا مظہر ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ لندن میں ہونے والی شریف برادران کی باہمی ملاقاتوں سے وزیر اعظم شہباز شریف کتنے خوش اور مطمئن ہیں ، البتہ نواز شریف کے چہرے کی سُرخیاں، شادابیاں اور قہقہے واپس آ چکے ہیں۔
یہ کیفیت دراصل اُن کے باطنی اطمینان، رُوحانی سکون اور سیاسی کامیابیوں کی عکاس ہے۔اُنہیں سفارتی پاسپورٹ بھی مل چکا ہے۔ لندن میں شریف برادران کی گہری اور پُر اسرار ملاقاتوں کا شائد یہ نتیجہ بھی نکلے کہ نواز شریف جلد پاکستان کے لئے پرواز پکڑ لیں ۔
تبصرہ لکھیے