رسول اللّٰہ ﷺ کا حج، آنکھوں دیکھا حال: آپﷺ بروز اتوار 4 ذی الحج 10ہجری کو مکہ پہنچے اور عمرہ ادائیگی کی بعد 8 ذی الحج تک مکہ سے باہر ابطح (حجون) میں مقیم تھیں۔ آپﷺ یہیں نمازیں (قصر اور با جماعت) ادا کرتے۔
بروز جمعرات 8 ذی الحج، یوم الترویہ کو سورج نکلنے کے بعد آپﷺ صحابہ کرامؓ کیساتھ منٰی کی طرف روانہ ہوئے۔جن لوگوں نے عمرہ کے بعد احرام کھولا تھا، انہوں نے یہاں سے حج کیلئے احرام باندھ لیا۔ چاشت کے وقت آپﷺ منٰی پہنچ گئے اور وہاں ظہر ،عصر، مغرب، عشاء اور اگلے دن فجر کی نمازیں (پانچ نمازیں) ادا کیں۔ بروز جمعہ 9 ذی الحج یوم العرفه كو سورج نکلنے کے بعد آپﷺ عرفات روانہ ہوگئے۔ قریش کا خیال تھا کہ آپﷺ ایامِ جاہلیت کی طرح مزدلفہ میں مشعرالحرام کے قریب وقوف کریں گے۔ لیکن آپﷺ مزدلفہ سے آگے بڑھ گئے اور وادی نمرہ میں آپﷺ کیلئے لگائے گئے بالوں کے خیمہ میں جا اترے اور تھوڑی دیر وہاں قیام فرمایا۔ دوپہر کے وقت آپﷺ کیلئے قصواء اونٹنی پر کجاوا ڈالا گیا۔
زوال شروع ہوتے ہی آپﷺ قصوا پر سوار ہوکر عرفات کے وسط میں تشریف لائے اور اپنے جان نثار صحابه کرامؓ کے سامنے ایک عظیم خطبہ ارشاد فرمایا، جو تاریخ میں ”خطبة حجة الوداع” کی نام سے مشہور ہے۔اس خطبہ میں آپﷺ نے دین اسلام کے اہم اصولی احکام بیان کئے اور جاہلیت کے تمام رسوم و رواج کو ختم کرنے کا اعلان کیا ۔خطبے سے فارغ ہوکر آپﷺ نے بلالؓ کو آذان دینے کا حکم دیا اور وہاں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کیساتھ نماز ظہروعصر کو ایک آذان اور دو اقامتوں کیساتھ قصر یعنی دو دو رکعت باجماعت ادا کی۔ نماز کے بعد آپﷺ نے پہاڑ کے دامن میں بڑے بڑے چٹانوں کے پاس غروب آفتاب تک وقوف کیا۔ اور فرمایا، ” میں نے یہاں وقوف کیا اور عرفات پورا جائے وقوف ہے۔
یہ بھی فرمایا، ” یوم عرفہ ہی حج کا دن ہے” آپﷺ قبلہ رخ ہوکر سورج ڈوبنے تک دعا، تضرع اور عاجزی میں مشغول تھے۔ آپﷺ نے فرمایا،” بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے” جب سورج غروب ہوا تو آپﷺ عرفات سے واپس ہونے لگے۔ آپﷺ کیساتھ اونٹنی پر اسامہؓ بن زیدؓ پیچھے بیٹھے تھے۔ تلبیہ پڑھتے ہوئے آپﷺ خود بھی سکون اور آرام سے چلتے اور لوگوں کو بھی سکون کیساتھ چلنے کی تلقین کرتے۔مزدلفہ پہنچ کر آپﷺ نے وضو فرمایا اور مؤذن کو آذان دینے کا حکم دیا۔ اقامت کہہ کر نماز مغرب پڑھائی۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ نماز عشاء کیلئے اقامت کہی گئی اور دو رکعت عشاء کی نماز ادا کی گئی۔ نماز سے فارغ ہوکر آپﷺ سو گئے اور صبح تک آرام کیا۔ اس رات کو آپﷺ نے خلاف معمول قیام اللیل (تہجد) نہیں پڑھی۔
10 ذی الحج 10ھ، بروز هفتہ یوم النحر، عیدالاضحی کا دن: صبح سویرے اٹھ کر آپﷺ نے نمازفجر اول وقت میں باجماعت ادا کی۔ اور پھر مشعرالحرام کے پاس جاکر قبلہ رخ ہوئے، تکبیر و تہلیل اور ذکر الٰہی میں مشغول ہوئے۔ یہاں آپﷺ نے اپنی امت کی مغفرت کیلئے دعا کی جو قبول ہوئی۔ آپﷺ نے فرمایا میں نے یہاں وقوف کیا اور مزدلفہ سارا موقف (جائے وقوف) ہے۔ جب صبح کی روشنی خوب پھیل گئی تو سورج طلوع ہونے سے کچھ پہلے آپﷺ منٰی روانہ ہوئے۔ آپﷺ نے اپنے پیچھے فضلؓ بن عباسؓ کو سوار کیاتھا۔ راستے میں لوگ دائیں بائیں حج کے مسائل دریافت کر رہے تھے اور آپﷺ مناسک حج کی تعلیم دیتے جارہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا، ”مجھ سے مناسک (طریقہ حج) سیکھ لو، شاید آئندہ سال میں تھم سے نہ ملوں۔
” جب آپﷺ مزدلفہ اور منٰی کے درمیان وادی محسر تشریف لائے، جہاں اصحاب الفیل پر عذاب نازل ہوا تھا، تو آپﷺ نے اپنی اونٹنی کی رفتار کو تیز کردیا۔ راستے میں آپﷺ نے عبداللہؓ بن عباسؓ کو حکم دیا کہ آپﷺ کے رمی کیلئے کنکریاں چن لیں۔ وہ درمیانے سائز (چنے کے دانے کے برابر) کنکریاں لے آئے۔ آپﷺ نے انہیں ہاتھ میں لیکر فرمایا، ” اسی طرح کنکریاں مناسب ہیں اور دین میں غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو غلو اور انتہاء پسندی نے ہلاک کیا ہے۔ (سنن نسائی۔3059 )
منٰی میں داخل ہوکر آپﷺ درمیانی راستے سے سیدھا جمرہ عقبہ (جمرہ کبریٰ) پہنچ گئے اور تلبیہ ختم کرکے اس طرح کھڑے ہوئے کہ منٰی آپﷺ کی دائیں طرف ، کعبہ بائیں طرف اور رخ جمرے کی طرف تھا۔ آپﷺکے ہمراہ بلالؓ اور اسامہؓ تھے۔ آپﷺ نے سواری سے ایک ایک کرکے سات کنکر مارے، ھر کنکر کیساتھ، ”بسم الله ألله أكبر” کہتے۔رمی سے فارغ ہوکر آپﷺ منٰی کے میدان میں تشریف لائے جہاں دائیں بائیں، آگے پیچھے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کا مجمع تھا۔ آپﷺ نے یہاں بھی ایک عظیم الشان خطبہ دیا، جسمیں دین کے اھم بنیادی اصول اور مناسک حج بیان کئے۔ اس کے بعد آپﷺ منٰی میں قربان گاہ تشریف لے گئے اور قربانی کے سو اونٹوں میں 63 اپنے دست مبارک سے ذبح کئے اور باقی 37 کو ذبح کرنے کیلئے علیؓ کو حکم دیا۔ آپﷺ نے فرمایا میں نے یہاں قربانی کی اور منٰی تمام کی تمام قربان گاہ ہے بلکہ پورا مکہ بھی قربان گاہ ہے۔ (ابوداود۔1937)
پھر آپﷺ کے حکم پر ہر ایک اونٹ سے گوشت کا ایک ٹکڑا لیکر ایک ہانڈی میں پکایا گیا آپﷺ نے اس سے گوشت کھایا، شوربا پیا اور باقی گوشت اور چمڑوں کو مساکین میں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔آپﷺنے منٰی میں دس ذی الحج کو ترتیب وار رمی، قربانی اور حلق، یہ تین افعال ادا کئے اور پھر طواف زیارت کیلئے بیت اللہ تشریف لے گئے۔ اس ترتیب کا لحاظ رکھنا سنت ہے لیکن اگر کسی نے اس ترتیب میں تقدیم و تاخیر کی تو اس پر نہ کوئی حرج ہے اور نہ ہی کسی قسم کا دم یا کفارہ واجب ہے (جیسا کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے۔) صحیح بخاری کی حدیث نمبر ( 1722-23) میں ہے کہ اسی دن کئی لوگ آئے اور آپﷺ سے ان افعال میں تقدیم و تاخیر کا ذکر کیا، آپﷺ ہر ایک کو یہی جواب دیتے ”کوئی (حرج) مضائقہ نہیں، آپ نے ٹھیک کیا ہے”۔ آپﷺ نے اس پر کسی دم یا کفارے کا ذکر نہیں کیا۔ تاہم حرج کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا، ”ان افعال کے آگے پیچھے کرنے میں کوئی حرج نہیں، حرج یہ ہے کہ کوئی ظلم کرکے مسلمان کی عزت پر حملہ کرے۔ یہی شخص حرج میں پڑگیا اور ہلاک ہوا۔ (ابوداود۔ 2015)
اکثر لوگ تو حج میں افعال کی ترتیب کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں لیکن اپنے ساتھیوں کی عزت کا کوئی خیال رکھتے ہے نہ ہی صبر و برداشت سے کام لیتے ہیں۔قربانی سے فارغ ہوکر آپﷺ نے حلق (سرمونڈنے) کیلئے معمرؓ بن عبداللہ العدوی کو بلایا اور اپنے سر کے دائیں جانب اشارہ کرکے فرمایا، ”لو مونڈو” آپﷺ نے دائیں طرف کے بال اپنے آس پاس کے صحابہ کرامؓ میں تقسیم کئے۔ پھر بائیں جانب کے بال مونڈنے کا حکم دیا اور وہی بال ابو طلحہؓ اور ان کی بیوی ام سلیمؓ کو عطا کی۔(مسلم۔3153۔) صحابہ کرامؓ میں بعض نے سر مونڈوائے اور بعض نے بال ترشوائے۔ آپﷺنے سر منڈوانے والوں کیلئے تین مرتبہ اور ترشوانے والوں کیلئے ایک مرتبہ دعا کی۔ حلق سے فارغ ہوکر آپﷺ نے کپڑے پہنے اور خوشبو لگا کر ظہر سے قبل حج کی فرض طواف کیلئے (جسے طواف افاضہ،طواف زیارت یا طواف صدر کہتے ہیں) مکہ تشریف لے گئے۔
آپﷺ نے اونٹنی پر سوار ہوکر طواف کیا تاکہ لوگ آپﷺ کو دیکھ کر تعلیم حاصل کر سکیں۔ آپﷺ نے حجراسود کے استلام کیلئے نہ کشمکش کی، نہ کسی کو ایذاء دی اور نہ اسے بوسہ دینے کی فضیلت بتائی بلکہ چھڑی سے اسے چھوتے اور اس چھڑی کا بوسہ لیتے یا دور سے دایاں ہاتھ اٹھاکر استلام کرتے۔طواف سے فارغ ہوکر آپﷺ زم زم کی سبیل پر تشریف لائے، جہاں آپﷺ کے خاندان بنوعبدالمطلب کے افراد حاجیوں کیلئے آب زم زم نکالتے۔آپﷺ نے ان کا یہ کام سراہا۔ عباسؓ نے آپﷺ کو زمزم دیا جو آپﷺ نے کھڑے کھڑے قبلہ رخ ہوکر پیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے 14 ذی الحج تک کوئی طواف کیا نہ ہی مسجدالحرام نماز کیلئے تشریف لائے۔ بلکہ ایام تشریق (10 تا 13 ذی الحج تک)منیٰ ہی میں گذارے۔
آپﷺ کیساتھ تمام صحابہؓ (بشمول مقامی افراد) قصر نمازیں ادا کرتے، اور اللہ کے حکم کے مطابق ان ایام کو ذکر و اذکار میں گزارتے۔ زوال ہوتے ہی پیدل جمرات جاتے اور رمی کرتے۔ 11 ذی الحج کو زوال کے بعد پہلے جمرہ اولٰی (منٰی سے متصل جمرہ) کو سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری کیساتھ تکبیر کہتے، پھر قبلہ رخ ہوکر اور ہاتھ اٹھاکر طویل دعا مانگی۔ پھر جمرہ وسطی (درمیانی جمرہ) کی رمی کرکے دعامانگی۔ آخر میں جمرہ عقبہ (مکہ کی طرف بڑا جمرہ) کی رمی کرکے فورا واپس ہوئے۔ آخری جمرے کی رمی کے بعد دعا نہیں کی۔ آپﷺ نے اسی طریقہ پر 12 اور 13 ذی الحجہ کو رمی کی۔ 12 ذی الحج کو خطبہ بھی دیا تھا۔ 13 ذی الحجہ بروز منگل زوال کے بعد رمی سے فارغ ہوکر آپﷺ منٰی سے واپس روانہ ہوئے اور وادی محصب (خیف بنی کنانہ) پہنچ کر قیام کیا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں قریش نے کفر پر جمے رہنے اور بنو عبدالمطلب سے بائیکاٹ کرنے پر عہد کیا تھا۔
آپﷺ یہاں دن بھر مقیم رہے۔ نماز عشاء کے بعد کچھ دیر سوگئے۔ یہاں سے عائشہؓ اپنے بھائی عبدالرحمنؓ کیساتھ عمرہ کی ادائیگی کیلئے گئیں۔ انہوں نے تنعیم (جہاں اب مسجد عائشہؓ ہے) سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا۔ آپﷺ نماز عشاء کے بعد کچھ آرام کرکے اٹھ گئے اور طواف وداع کیلئے بیت اللہ تشریف لے گئے۔ فجر سے قبل طواف مکمل کرکے نماز فجر حرم میں ادا کی اور وادی محصب واپس ہوئے۔ عائشہؓ بھی عمرہ سے فارغ ہو کر پہنچ گئی۔ اس کے بعد آپﷺ نے اعلان کرکے مدینہ منورہ واپسی کا سفر شروع کیا۔
(یہ تھا آپﷺ کے حج کا آنکھوں دیکھا حال۔۔، جو صحیح احادیث کی روشنی میں سیرت کی مختلف کتابوں میں درج ہے اورانجنیئر خرم مراد نے اپنے کتاب ”آپﷺکے ہمراہ حجة الوداع” اور خلیل الرحمان چشتی صاحب نے اپنے تحریر ”رسول اللهﷺ کا حج آنکھوں دیکھا حال ” میں لکھا ہے)۔ موجودہ زمانے میں عوام کیا، خواص بھی آپﷺ کی سنت طریقے پر مناسک حج ادا کرنے سے قاصر ہے۔ کم علمی، تقلید، بے جا احتیاط اور غلو نے مسئلہ گھمبیر بنایا ہے، سنت کی جگہ بدعات نے لیا ہے۔
تبصرہ لکھیے