ہوم << داستانِ حج 1440 ھ قسط (6) - شاہ فیصل ناصرؔ

داستانِ حج 1440 ھ قسط (6) - شاہ فیصل ناصرؔ

یاد رہے کہ بیت اللہ کی تقدس و احترام کی خاطر اس کے گرد دو دائرے کھینچے گئے ہے۔ بڑا اور خارجی دائرہ میقات کہلاتی ہے۔ جہاں سے عمرہ و حج کرنے والا احرام باندھتا ہے اور احرام کی پابندیوں کا آغاز ہوتا ہے۔

اللہ تعالی نے جبریل امین علیہ السلام کی ذریعے رسول اللہ ﷺ کو میقات کے پانچ مقامات بتائے ہیں۔ اہل مدینہ اور اس سے ملحقہ علاقوں کی طرف سے آنے والوں کیلئے ذوالحلیفہ میقات ہے جو مکہ سے 420 کلومیٹر اور مدینہ سے 9 کلومیٹر فاصلے پر ہے۔ اس کا موجودہ نام ”ابیارعلی” ہے۔ شام، مصر، ترکی اور مغرب کی طرف سے آنے والوں کیلئے میقات ”جحفہ” ہے جو رابغ کے قریب مکہ سے 190 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یمن اور جنوب ایشیائی ممالک سے آنے والوں کیلئے میقات ”یلم لم” ہے جسے ”سعدیہ” بھی کہتے ہیں اور مکہ سے 92 کلومیٹر فاصلے پر ہے۔

اہل نجد، طائف اور مشرقی طرف سے آنے والوں کیلئے ”قرن المنازل” میقات ہے، جسے سیل کبیر کہتے ہیں ۔ لوگ اب اس کی متوازی جگہ ”وادی محرِم” سے احرام باندھتے ہیں۔ جو مکہ سے 90 کلومیٹر ”ھَدٰی” پہاڑی کے راستے پر واقع ہے۔ اہل عراق اور اس طرف سے آنے والے حجاج و معتمرین کیلئے "ذات عرق” جائے میقات ہے جو مکہ سے شمال مشرق میں 94 کلومیٹر دوری پر ہے۔ اب یہاں قریبی جگہ ”الضریبہ” سے لوگ احرام باندھتے ہیں جسے ”خریبات” بھی کہتے ہیں ۔ یہ پانچ مقامات مواقیت مکانی مقرر کی گئی ہیں، جس کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا ہے،”هُنَّ لَهُنَّ وَ لِمَنْ أَتٰى عَلَيْهِنَّ لِمَنْ يُّرِيْدُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ۔ یہ حج و عمرہ کا ارادہ کرنے والے لوگوں اور ان اطراف سے آنے والوں کیلئے مواقیت ہیں۔ (بخاری۔ 1526)

کسی بھی حاجی و معتمر کیلئے جائز نہیں کہ وہ احرام کے بغیر میقات سے آگے گزر جائے۔ ایسا کرنے پر اسے دم یعنی جرمانہ دینا واجب ہوگا۔ بیت اللہ کی تقدس و احترام کیلئے دوسرا دائرہ ”حدود حرم” ہے جہاں سے آگے غیر مسلم نہیں جاسکتا اور مسلمانوں پر بھی حدود حرم کی اندر بہت سی پابندیاں عائد کئے گئے ہیں۔ حرم مکی کا کل رقبہ تقریباً 556 مربع کلومیٹر ہیں۔ حدود حرم کا تعین سب سے پہلے سیدنا ابراھیم خلیل اللہ ؑ نے کیا۔ انہوں نے جبریل ؑ کے بتائے ہوئے مقامات پر نشانات لگائے ۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے تمیم بن اسد خزاعیؓ کو اس کی تجدید کیلئے بھیجا۔ یہ حدود درجہ ذیل ہیں۔ مغرب کی طرف مکہ سے 22 کلومیٹر دور جدہ روڈ پر حرم کی حد ”حدیبیہ” ہے جسے اب شمیسی کہا جاتا ہے۔

جنوب میں یمن کی طرف 12 کلومیٹر دور ”اضاءة لبن” ہے۔ مشرق (عرفات)کی طرف وادی عرنہ 15 کلومیٹر اور 400 میٹر علاقہ حرم ہے۔ (مٰنی و مزدلفہ حرم کے اندر ہے جبکہ عرفات حدود حرم سے باہر )۔ طائف کی جانب شمال مشرقی طرف میں ”جعرانہ” حرم کی حد ہے جو مکہ سے 16 کلومیٹر ہے۔ سب سے نزدیک حد حرم ”تنعیم (مسجد عائشہ” ہے جو کعبہ سے 7 کلومیٹر شمال کی طرف مدینہ سے آتے ہوئے راستے پر واقع ہے۔ حدود حرم کا جاننا اسلئے ضروری ہے کہ اس سے متعلق شرعی احکام و احترام کا خیال رکھا جائے۔حدود حرم کے اندر پودے، گھاس اور درخت کاٹنا، شکاری جانوروں کا ڈرانااور بھگانا، گری پڑی چیز (لقطہ)کو اٹھانا ممنوع ہے۔ یہاں گناہ کے ارادہ پر بھی سزا ملتی ہے۔ اسلئے یہاں رہ کر حرم کے احترام کا خیال رکھا جائے۔

جدہ ائیرپورٹ پر:
پندرہ بیس منٹ بعد شاہ عبدالعزیز انٹرنیشنل ائیرپورٹ جدہ پر لینڈنگ کا اعلان ہوا۔ اس کے ساتھ جہاز کی رفتار اور بلندی کم ہونا شروع ہوئی اور وہ جدہ کے اوپر چکر لگانے لگا۔ فضا سے ذی الحج کا چاند بھی نظر آیا جو دوسری رات کا تھا۔پاکستان میں ہلال کمیٹی نے ابھی تک چاند نہیں دیکھا تھا۔ رات کی تاریکی میں جدہ روشنیوں کا ایسا خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا، جیسے تاروں سے منور آسمان نیچے آیا ہو۔ ساحل سمندر پر رنگین فوارے بہت دلکش منظر پیش کررہے تھے۔ سعودی حکومت نے جدہ کی ساحل پر دنیا کا سب سے بڑا فوارہ لگایا ہے۔ باہر کا درجہ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈ بتایا گیا۔

جہاز سے نکلتے ہی قریبی بس میں جگہ ملی اور ہم حج ٹرمینل روانہ ہوئے۔ بس سے اترتے ہی ایمیگریشن کے جانب بڑھے اور توقع کے خلاف بہت کم ہی وقت میں سہولت کیساتھ فارغ ہوئے۔ شاید یہ آسانی اس بائیومیٹرک کے سبب تھی، جو ہم نے پہلے سے پاکستان میں کیا تھا۔ سامان اکٹھا کرکے مکتب والے کے حوالہ کیا اور ہم نمازمغرب و عشاء پڑھنے مُصلی الرجال (مردوں کی نماز کی جگہ) کے طرف گئے۔

راستے میں سعودی عرب کی مختلف موبائل کمپنیوں کے اہلکار لڑکے اور لڑکیاں حاجیوں کو روک کر ان کے پاسپورٹ پر اپنی کمپنی کی سم رجسٹرڈ کرتے۔ یاد رہے سعودی عرب میں ایک فرد کے نام صرف دو سم رجسٹرڈ ہوسکتے ہیں۔ ہمارے پیچھے بھی زین کمپنی کی ایک لڑکی لگ گئی۔ پہلے تو میں نے ان کو اپنی ملازمت پر خوب ملامت کی۔ لیکن ان کا جواب تھا کہ”ثمن” یعنی مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اس نے ہمارے لئے زین سم اکٹویٹ کیا۔

جدہ ائیرپورٹ سے ہوٹل تک ۔ ادائیگی نماز کے بعد کچھ انتظار کیا اور پھر مکتب کی بس پہنچ گیا۔ پاسپورٹ حوالہ کرکے ہم بس میں سوار ہوئے اور مکہ مکرمہ روانہ ہوئے۔ راستے میں دو تین مقامات پر ہمیں وزارت حج، مکتب والوں اور ٹرانسپورٹ کمپنی کی طرف سے خوبصورت پیک میں خوراک کے ہدیے دئے گئے۔ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے تقریباً 1 بجہ ہم بلڈنگ نمبر 915 دارالبیضاء تکامل ہوٹل پہنچ گئے۔ یہ مکہ مکرمہ کے مغربی علاقے ڈسٹرکٹ کدی میں واقع ہر قسم کی سہولیات سے آراستہ جدید لگژری فائیوسٹار ہوٹل تھا۔ حج 2016 میں یہاں سعودی بادشاہ کے مہمان مقیم تھے۔

بس سے اتر کر ہوٹل کے مین گیٹ پر ہمارے مکتب کے نوجوان مطوفی شیخ حسين بن سیدحیدرحسین اپنے سٹاف اور تحائف کیساتھ موجود تھے۔ انہوں نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا اور ہر ایک حاجی کو ایک جائے نماز بطور ہدیہ دیا۔ ہوٹل کے سٹاف میں زیادہ تر مصری نوجوان تھے۔ ان کا سپروائزر جمال محمد مصری کا بعد میں میرے ساتھ گپ شپ ہوتی۔ وہ اخوان اور مصر کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی شہید کا بہت دلدادہ تھا۔ وہ عربی کے علاوہ کسی بھی زبان میں بات نہیں کرتے۔

ہوٹل میں حجاج کرام کا کوئی مسئلہ آتا اور انہیں سمجھنے میں مشکل پیش آتی تو مجھے ترجمانی کیلئے بلاتے۔ ہمارے لئے 8 ویں فلور پر پہلا کمرہ (2801)بک کیا گیا تھا۔ سامان کمرے میں رکھ کر بعض ساتھی عمرہ کی ادائیگی کیلئے گئے جبکہ ہم نے آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔

Comments

Click here to post a comment