حالیہ ضمنی الیکشن کئی لا ینحل سوالات ابھار گئے۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ اگر چھوڑی ہوئی نشستوں پر الیکشن ہی لڑنا تھا تو پی ٹی آئی نے ان نشستوں پر ہونے والے الیکشن میں حصہ ہی کیوں لیا۔ ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ نو کی نو سیٹوں پر عمران خان نے اپنے آپ ہی کو کیوں پیش کیا۔
اگر وہ ان تمام نشستوں پر کامیاب بھی ہو جاتے تب بھی انھیں آٹھ نشتوں کو خالی تو کرنا ہی پڑتا۔ الیکشن دس بیس یا سو پچاس روپوں میں تو ہوا نہیں کرتے ان پر لاکھوں کروڑوں کا خرچ آتا ہے۔ یہ سارے اخراجات امریکا، روس یا برطانیہ نہیں اٹھاتے بلکہ قوم کے خون پسینے کی کمائی کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ جب باقی ماندہ نشستوں پر دوبارہ الیکشن ہونگے تو ان پر ہونے والے اخراجات بھی عمران خان یا پی ٹی آئی اپنے کھاتوں سے تو ادا نہیں کریگی۔ اتنے مقبول اور بڑے لیڈر کو اس بات کا احساس یا دکھ نہیں تو پھر کون ہے جو غریبوں کے زخموں پر مرہم رکھے گا۔
اب بھی جیتی گئی چھے نشستیں انھیں بہر کیف چھوڑنا ہونگی گویا بہت کچھ پانے کے بعد سب کچھ پھر سے کھونا پڑے گا۔ اگر عمران خان کا مقصد اپنی اور پی ٹی آئی کی مقبولیت کو منوانا تھا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی مقبولیت تو منوانے میں کامیاب ہوگئے لیکن جہاں تک پی ٹی آئی کی مقبولیت کو منوانے کا سوال ہے اس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ ملتان کی نشست سے محروم ہونا کوئی معمولی بات نہیں اس لئے کہ اس نشست کی پسِ پشت ملتان میں پی ٹی آئی کے ایک بہت بڑے رہنما کا ہاتھ تھا۔ ملتان میں صرف ہار ہی نہیں ہوئی بلکہ ہار ایک بہت بڑے فرق کے ساتھ ہوئی۔
ظاہر ہے کہ ان کی اپنی پارٹی کے ووٹر نے کسی حد تک "غیر" پی ٹی آئی ہونے کا ثبوت دیا۔ ملتان کی یہ ہار خطرے کی ایک گھنٹی ہے جو عمران خان کو یہ سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے کہ عوام بے شک ان پر تو اعتماد کرتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان کی پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑے ہونے والوں پر بھی بھروسہ کریں گویا یہ سمجھ لینا کہ اگر عمران خان کسی کھمبے کو بھی کھڑا کردیں گے تو لوگ اس کو بھی ووٹ دیں گے، غلط ہوگا۔ یہ بے اعتمادی عمران خان کیلئے بہت بڑا لحہ فکریہ ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ بات بھی بہت غور طلب ہے کہ 2018 کے الیکشن میں عمران خان اپنی ذات میں ناقابلِ شکست شخصیت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے تھے کیونکہ وہ جہاں جہاں سے بھی الیکشن لڑے تھے، ان سب پر بہت واضح کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن کراچی کی نشست سے ان کی ہار یہ ثابت کر رہی ہے کہ وہ اب ناقابلِ شکست نہیں اور کہیں سے بھی ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بات بھی کوئی کم اہم نہیں کہ 2018 کے الیکشن میں وہ کراچی سے جتنے ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے 2022 کے ضمنی الیکشن میں وہ تعداد سمٹ کر بہت ہی مختصر ہو گئی ہے جس کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اہلِ کراچی کو انھوں نے مایوس کیا۔
الیکشن میں ہر نشست پر خود لڑنے کا فیصلہ اس جانب بھی اشارہ ہے کہ یا تو ان کا اپنے نامزد کردہ افراد پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو دھمکیوں سے دبایا جا سکتا ہے یا پھر "بولیاں" ان کے پائے استقامت کو ہلا سکتی ہیں۔ بات کچھ دل لگتی سی ہی سہی لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ اس مسئلے کو آنے والے جنرل الیکشن میں کس طرح حل کریں گے۔ عمران خان کو آنے والے دنوں میں ایک یہ بھی مسئلہ درپیش ہوگا کہ الیکشن سے پہلے پہلے ان کے بہت سارے قریبی ساتھی ممکن ہیں ان کا ساتھ چھوڑ جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ پہلے جن جن افراد پر بھروسہ کرتے رہے تھے، ان کی جانب سے شک میں مبتلا ہوکر انھیں ٹکٹ ہی جاری نہ کریں۔
انھیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پاکستان میں پارٹی کا ہی نہیں، امید وار کا مضبوط ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ گویا الیکشن ان کی کسی تحریک کے نتیجے میں ہوں یا آئینی مدت کے پورا ہونے کے بعد ان کا انعقاد ہو، پارٹی کے ٹکٹ کی تقسیم ان کیلئے ایک بڑا امتحان ضرور ثابت ہوگی۔ ضمنی الیکشن کا حالیہ انعقاد اور اس کے نتائج کو پی ڈی ایم کی جانب سے قبول کر لیا جانا الیکشن کمیشن پر اعتماد کا واضح مظہر ہے۔ پی ٹی آئی کی جیت اور مخالفین کی جانب سے اسے قبول کر لینے کے بعد اب عمران خان کیلئے یہ مشکل آن پڑی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے خلاف کوئی بات کریں گے تو کیا ان کے اعتراضات یا الزامات اپنی حیثیت منوا سکیں گے۔
عمران خان کیلئے موجودہ جیت، جیت تو ضرور ہے لیکن ان کے سپورٹروں اور خود عمران خان کے ذہن میں یہ بات تو ضرور ہو گی کہ خالی ہونے والی ساری نشستیں ان ہی کی پارٹی کی تھیں لیکن وہ اپنی ہی دو نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اسی طرح اس سے قبل جن نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوئے تھے ان پر بھی ان کی کامیابی میں ایک بڑی ناکامیابی پوشیدہ تھی۔ بے شک اس بات کا سمجھنا عام لوگوں کیلئے کسی حد تک مشکل ہے لیکن یقیناً پی ٹی آئی کے وہ ارباب جو ہر مسئلے کو باریک بینی سے دیکھتے ہونگے، ان کیلئے بڑی سنجیدگی کا باعث ہوگی۔
آنے والے جنرل الیکشن میں عمران خان کیلئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ ان تمام پہلوؤں کو اپنے سامنے رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کریں۔ اب ساری بات عوام کی عدالت میں پہنچ چکی ہے اس لئے
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
تبصرہ لکھیے