اس کی پیدائش ہی ایسے گھرانے میں ہوئی تھی جہاں وقت انسانوں کے ساتھ ساتھ خواب بھی پالتا ہے۔ روز راتوں کو نیند کی دیویاں محرومیوں کو خوابوں کا روپ دے کر آنکھوں کی منڈیر پہ یوں لا کے سجاتی ہیں جیسے لوگ شب برات کو دیووں سے اپنے بام و در سجاتے ہیں۔ قندیل کی آنکھوں میں سجے سبھی خواب تو اس کے بچپن کی ہر میٹھی نیند کی دین تھے۔ وہ انہیں کیسے نہ عزیز رکھتی۔ اپنے گھر کے ہر کونے میں ڈیرہ جمائے بھوک کو گھر بدر کرنے کا خواب، گھر کی کچی چھتوں کے باعث بارشوں سے ہوئی لڑائیوں کو دوستی میں بدلنے کا خواب، ننگے پیروں سے چمٹی دھول کو جوتوں کے تلووں تلے مسلنے کا خواب، سونی کلائیوں کو چھن چھن کرتی چوڑیوں سے بھرنے کا خواب۔ خواب ہی تو تھے کہ جن کے دیکھنے پہ ابھی تک گناہ کا کوئی فتوی جاری نہیں ہوا تھا اس لئے وہ دیکھتی رہی اور وہ اس کے ساتھ ککلی کلیر دی کھیلتے گاتے جوان ہوتے چلے گئے۔ جس میں ویر کی پگ کا ذکر بہت لہک لہک کے کیا جاتا ہے۔ تب سکھیوں کا ہاتھ پکڑ کے گول دائرے میں گھومتے اور پگ میرے ویر دی گاتے ہوئے اسے یہ قطعاًعلم نہیں ہوگا کہ ویر کے سر پہ رکھے اس کپڑے کو صرف پگ نہیں بلکہ غیرت بھی کہتے ہیں جو حقیقت میں ہوتی تو بھائی کے اپنے سر پہ ہے مگر اس کپڑے میں لگے کلف کی رکھوالی کا بوجھ بہنوں کے سر کے دوپٹے پر ہوتا ہے جو ذرا سا سرکا نہیں اور یہ پگ سر سے اتر کے بہنوں کے گلے کا پھندہ بنی نہیں۔
فوزیہ سے قندیل تک کے سفر کی حقیقی رازدان اب حقائق کے پردے چاک کرنے کے لیے کبھی نہیں لوٹ سکے گی۔ اس کی زندگی سے موت تک کا سفر جو زیادہ تر تو گمنامی کی تاریکیوں میں گم رہا۔ لوگ تب اسے جاننے لگے جب وہ فوزیہ کی شلوار قمیص اتار کے قندیل کی جینز اور ٹی شرٹ پہن چکی تھی۔ اس لیے شاید کم ذاتی سے اعلٰی ذاتی تک کی مسافت اس نے کیسے طے کی، کوئی نہیں جانتا۔ تب وہ اٹھارہ کروڑ عوام میں ایک عام سے کسی محلّے کی کوئی عام سی لڑکی تھی۔ اس کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال چلن سے شاذ ہی اتنے لوگ واقف ہوں، جتنے کسی فائیو سٹار ہوٹل کے سوئمنگ پول میں نہاتے ہوئے انٹرویو دیتی قندیل سے واقف ہیں۔ اس کے ہزار خوابوں میں گمنامی سے شہرت تک کا خواب بہت نمایاں رہا۔اس خواب کو وہ حقیقت بنا چکی تھی۔ اس لیے آج ہر لکھنے اور بولنے والا اسے فوزیہ نہیں بلکہ قندیل کے نام سے زیادہ جانتا ہے۔
قندیل کے اس خواب کے سبھی محرّکات اب محض مفروضے ہوں گے۔ کیا واقعی بچپن میں کسی ڈائجسٹ کی کہانی کے کسی کردار سے یا ڈرامے کے کسی ہیروئن سے وہ اتنی متاثّر ہوئی تھی کہ اس نے تبھی ٹھان لیا تھا کہ شہرت کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک جائے گی یا اپنے خوابوں کی تکمیل کا یہ واحد راستہ تھا جو اس معاشرے کے ٹھیکے داروں اور کرتا دھرتاؤں نے اس کے پاس چھوڑاتھا۔ اگر وہ بچپن سے ہی اس قدر بے باک ہوتی تو اپنے ماں باپ کے اشارے پہ اپنی عمر سے بڑے شخص کے ساتھ کبھی نتھی نا ہوتی بلکہ تبھی گھر سے بھاگ جاتی اور یہ کوئی انوکھا واقعہ نہ ہوتا کیوں کہ ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 2012 میں سترہ ہزار لڑکیاں اپنے گھروں سے بھاگ گئی تھیں ۔ یہ کرنا آسان تھا لیکن اس نے اپنے والدین کی مرضی کو اپنی رضا کا درجہ دے کران کا حکم مان لیا اور کم عمری میں ہی شادی کر لی۔
شوہر بچپن کی محرومیوں کا تسلسل لگ رہا تھا۔ جو اس بات سے انجان تھا کہ وہ ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام ہے مگر اسے اپنے مرد ہونے کی مکمل خبر تھی جس کا اظہار وہ اکثر مار پیٹ کے کرنا فرض سمجھنے لگا تھا۔ وہ جوان خوابوں کو بچوں کی طرح بلکتے نہیں دیکھ سکتی تھی اس لیے اس نے اپنی خواہشوں کے اس پھانسی گھاٹ سے چھٹکارا پانے کا تہیہ کر لیا۔ اس نے شوہر سے جان چھڑا لی۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس کی متعدد شادیاں تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ اس معاشرے میں کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والی عورت چاہے جتنی بھی باہمّت ہو جائے، با اعتماد ہو جائے، مرد کی چھتری کی چھایا بنا چار قدم بھی چلنا دشوار ہو جائے گا اسی لیے اس نے عین معاشرتی و مشرقی روایات کے مطابق اپنے نام کا دوسرا حصّہ بارہا کسی مرد کے سپرد کیا مگر وہ اس سپردگی کا مان نہ رکھ سکے۔ اسے تعلیم کا بھی چاؤ تھا۔ جو روایتوں کی پاسداری اسے دینے سے قاصر تھی چنانچہ اس نے ریت و رواج توڑے اور خود پہ بھروسہ کرتے ہوئے ایک بس سروس میں نوکری شروع کر دی۔ اب وہ پہلے جیسی سادی اور پینڈو دکھنے والی فوزیہ نہیں رہی تھی بلکہ اسے بھی اب شہر کی اکثریتی لڑکیوں کی طرح سر سے دوپٹّا سرکائے رکھنا آگیا تھا۔ وہ پنجابی سے اردو ، اردو سے انگریزی تک آ پہنچی تھی۔ اسے لوگ سمجھ آنے لگے تھے۔ اس معاشرے کے رنگ ڈھنگ سیکھنے لگی تھی۔ اسے یہاں تک پہنچتے پہنچتے اندازہ ہو چکا تھا کہ مرد ہی وہ سیڑھی ہے جو چار و نا چار چھت تک پہنچنے کے لیے لازم ہے۔ اپنی نوکری کے دوران کیے گئے نہ جانے کتنے خاموش سمجھوتے اسے کہاں بھولے تھے۔ ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں 100 فیصد خواتین یہ اقرار کرتی ہیں کہ انھیں اپنی ملازمت کے دوران کسی نہ کسی حوالے سے جسمانی طور پہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ اور یہ شرح پرائیویٹ سیکٹر میں پبلک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔
یہی وہ موقع تھا جب فوزیہ نے سوچا کہ چند ہزار کی لگی بندھی نوکری کے عوض رات کی سیاہیوں میں طرح طرح کے لوگوں کے ابلتے جذبات کی ٹھنڈک کا سامان بننے سے بہتر ہے کہ میں دن کی روشنی میں عریاں ہو کے روشن ہو جاؤں اور یہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی، وہ ان خاموش سمجھوتوں کو زبان دینے چلی تھی۔ وہ خاموشی سے اس معاشرے کی غلاظتیں اپنے دامن سے صاف کرتی رہتی تو اس سا کوئی پارسا نہ ہوتا اور وہ زندہ بھی ہوتی۔ یہ بغاوت تھی اور اس تلخ حقیقت کا اعتراف بھی کہ جب آلودہ سمجھوتے ہی قدم قدم پہ مقدّر ہیں تو کیوں نہ اپنی ذات پات، شرافت و پاکیزگی اور اپنے آپ سے ہی ایک آخری سمجھوتہ کر لیا جائے۔ تب اس نے شعوری یا لا شعوری طور پہ ہی سہی ویر کی پگ کو بےداغ رکھنےکے لئے اپنا نام بدلا اور اپنے ہی اندر فوزیہ کو مار کر قندیل کو جنم دیا۔ سر سے ہلکا سا سرکا دوپٹہ سمیٹ کر درازوں کے کونوں میں رکھا اور رکھ کے بھول گئی۔ وہ جانتی تھی اس میں اچھا ایکٹر یا اچھا سنگر بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔ کسی فنکار گھرانے سے اس کا تعلق نہیں۔ چانس کے نام پہ سمجھوتوں کے سوداگر جا بجا دندناتے پھرتے تھے۔ مگر اب کی بار وہ ونٹر سیل نہیں بننا چاہتی تھی اس لیے اس نے سوشل میڈیا کا انتخاب کیا۔ جس کی پہنچ اخبار اور ٹی وی سے بھی بڑھ کے ہے۔ اس کے پاس فن نہیں تھا ۔ کچھ تھا تو فقط جسم اور وہ یقینا یہ بھی کہیں پڑھ چکی ہوگی کہ پاکستانی فحش مواد کے تلاش کرنے والوں کی فہرست میں بہت اوپری درجوں میں ہیں۔ تو اسے فحش ہونا پڑا۔ یہی طلب اور رسد کا قانون ہے۔ جہاں جسم کے خریدار نہ ہوں وہاں دلال اور طوائفیں تو بھوکی مر جائیں۔ وہ بھوکی نہیں مری بلکہ خوشحال سے خوشحال تر ہوتی گئی۔ اس نے توجّہ پانے کے لیے ہر حد پار کی اور آخر کار فوزیہ سے بےخبر میڈیا چند دنوں میں ہی قندیل کا ایسا دیوانہ ہوا کہ بڑے بڑے تقدیس و پارسائی پہ وعظ فرمانے والے نامی گرامی اینکرز اپنے شوز کی گرتی ریٹنگ کو سہارا دینے کے لیے اس کے نیم عریاں کپڑوں سمیت انٹرویو کرتے دکھائی دیے۔ اس کی خبروں کو بریکنگ نیوز بنا کے پیش کیا گیا۔ اور اس کے بے باک انداز گفتگو اور کندھوں سے پھسلتی شرٹس کی بدولت میڈیا نے بھی خوب کمائی کی اور معجزہ یہ رہا کہ ان کی کمائی پہ ابھی تک حرام کا کوئی فتوی نہیں آیا۔ وہ اچانک غیر اہم سے انتہائی اہم ہو گئی تھی۔ اسے آفرز ملنا شروع ہو گئیں۔ انٹرنیشنل میڈیا اس کے گن گاتا سنائی دیا۔ مولوی اسے راہ راست پہ لانے کے لیے رمضان کے روزے چھوڑنے لگے اور حلال سیلفیاں بنواتے رہے۔ اپنے ایمان کو کافرانہ اداؤں کے سامنے بٹھا کے آزماتے رہے اور اس میں بھی سرخرو ٹھہرے۔ لوگ ایسے منصف بنے کہ مولانا کی قسمیں تو انھیں صداقت کی عطر کی خوشبوئیں دیتی رہیں مگر وہ بد کردار تھی سو لعن طعن اسی کے حصّے میں آئی۔
وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکی تھی۔ پاکستان تو کیا پاکستان سے باہر بھی اس کا نام اب انجان نہیں رہا تھا۔ اپنی بے ہودہ اور بے تکی ویڈیوز کے ناظرین میں بے پناہ اضافہ اس کے ارادوں کو مزید پختہ کرتا جا رہا تھا۔ لوگ خرید رہے تھے۔ وہ بک رہی تھی۔ بڑھتی طلب کے سامنے رسد کم پڑ رہی تھی۔ وہ تنہائی میں اپنی کاروباری صلاحیتوں کو داد دیتی رہتی۔ اس نے گاہکوں کی کمزور رگ کو پکڑا تھا ۔ وہ کمزوریاں بیچ کے یہاں تک پہنچی تھی۔ اب دوسروں کی کمزوریاں اس کے ہاتھ میں تھیں۔ اسے اپنی طاقت کا اندازہ ہو چلا تھا کہ اتنے میں اچانک ویر کی پگ میں جو اسی کی کمائی سے کلف زدہ ہوئی تھی، پہ غیرت کا رنگ چڑھا اور اس نے اس کی ذات سے فوزیہ اور قندیل دونوں کی سانسیں نچوڑ کر اسے بے رنگ کر دیا۔ وہی غیرت جو اسے گھر بٹھا کے زندگی تو نہ دے سکی مگر گھر بلا کے زندگی چھین لی۔ وہ آج یہ دیکھنے کے لیے زندہ تو نہیں ہے کہ اس کا شہرت کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوا کہ اس کی موت سے جنازہ تک میڈیا نے ایک ایک لمحہ اپنی سکرینوں پہ دکھایا۔ حتیٰ کہ اس کا نام اس کے باپ اور بھائی تک کو مشہور کر گیا۔ قندیل کی عریانیت نے کفن کی چادر اوڑھ لی۔ ایک اور زندگی غیرت کی کالی دیوی کے قدموں پہ قربان کر دی گئی۔
میرا نکتہ فقط اتنا ہے کہ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے خدائی منصب انصاف سے اتر کے دیکھیں تو کیا گناہگاری اور بدعملی کی یہی سزا ہے کہ اس سے جینے کا حق بھی چھین لیا جائے۔ برائی کا خاتمہ ایسے ہی درکار ہو تو الّلہ سے بڑا تو کوئی قادر نہیں۔ جو زندگی کے آغاز و انجام تک کا مالک اور وہی حساب لینے کی قدرت رکھتا ہے۔ ہر نئے دن کے لیے ملنے والی زندگی کی ہزارہا منطقوں میں سے کیا ایک یہ بھی نہیں کہ ہر نیا دن الّلہ کی طرف سے اپنی خطائوں پہ پچھتانے اور ان کی توبہ کرنے کی مہلت ہے۔ مگر افسوس کہ نمائشی غیرت کے مداریوں نے اس سے استغفار کا موقع بھی چھین لیا۔ اس سے خدا کی عطا کردہ مہلتیں بھی چھین لیں۔ لیکن اگر زمینی خدا اپنے زمینی قوانین سے اتنے ہی مخلص ہیں اور ان کا معاشرتی انصاف مار دینے کو ہی انصاف سمجھتا ہے تو میری گزارش ہے کہ وہ تمام جو اس کے گناہوں میں برابر کے شریک رہے، اپنے گلے اپنے ہی ہاتھوں سے گھونٹ کے اس انصاف کے تقاضے پورے کریں مگر پھر خیال آتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہو گیا تو اب تو ایدھی صاحب بھی نہیں رہے۔ یوں اچانک اتنی زیادہ لاشیں کون دفنائے گا۔
تبصرہ لکھیے