ہوم << پاکستان کا معاشی استحکام- چوہدری محمد ذوالفقار سِدّھو

پاکستان کا معاشی استحکام- چوہدری محمد ذوالفقار سِدّھو

بچپن کی بات ہے کہ لاہور ہمارے محلے میں ایک بچہ رہتا تھا جوکہ اپاہج تھا۔ ہر وقت اسکی ریلیں ٹپکتی رہتیں اور ناک بہتا رہتا تھا۔ وہ جب بھی ہمارے گھر آتا میں اسے گھر سے بھگا دیتا تھا۔ ایک روز میری محترمہ والدہ مرحومہ کو پتہ چل گیا کہ میں اس اپاہج بچے کو گھر سے بھگاتا دیتا ہوں۔

والدہ مرحومہ نے میری ٹھیک ٹھاک کلاس لی اور مجھے آئیندہ اُپاہج بچے سے پیار کرنے اور گھر سے نہ بھگانے کی بہت سخت تلقین کی۔ وہ بچہ جب بھی آتا میں پریشان ہو جاتا تھا۔ بچے کو کہہ کچھ نہیں سکتا تھا کہ گھر میں بہن بھائی میری شکایت کر کے مجھے ڈانٹ پلا کر خوش ہونے کو تیار بیٹھے ہوا کرتےتھے۔ یہ ساٹھ کے عشرہ کے ابتدائی سالوں کی بات ہے۔ لاہور میں سوئی گیس یا لیکوڈ گیس ابھی نہ آئی تھی۔ مٹی کے تیل کے چولہے کھانا پکانے کے لئیے استعمال ہوا کرتے تھے۔ یا جگہ جگہ لکڑی کے ٹال ہوا کرتے تھے۔

ہمارے گھر میں مٹی کے تیل والی بوتل نہ معلوم کب اور کیسے وارد ہوئی مگر اسکی شکل بہت عجیب تھی۔ ایک دن وہ اپاہج بچہ ہمارے گھر آیا تو میں سب سے چھپ کر اس بچے کو وہ بوتل دکھائی تو وہ ڈر کر بھاگ گیا۔ اب جب بھی وہ آتا تو میں اسکو بوتل دکھاتا وہ بھاگ جاتا تھا۔ اپنے بچپن کا یہ واقعہ آج اس طرح یاد آیا کہ اس وقت پاکستان کی معیشت بری طرح مفلوج ہے۔ ڈالر ہمارے روپے کی اس طرح پٹائی کر رہا تھا ، جس طرح امریکن فوج کی طالبان نے کی تھی۔ لیکن اچانک ہمارے پرانے مہربان اسحاق ڈار صاحب کے سارے کیسز ختم کر دیے گئے اور ہر طرح سے سیکیورٹی تحفظ حاصل کرنے کے بعد اسحاق ڈار صاحب نے پاکستان آنے کا ابھی عزم ہی کیا تھا تو ڈالر نے اسحاق ڈار صاحب سے ڈر کر اپنا سفر خود بخود پستی کی جانب شروع کر دیا۔ یعنی ہمارے اسحاق ڈار صاحب ہماری مٹی کے تیل کی وہ بوتل ہیں ، جسے دیکھ کر امریکی ڈالر ڈر کے مارے نیچے کی جانب بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔

پاکستانی عوام اسحاق ڈار صاحب کی آمد کے بعد امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اب بہت جلد پاکستان کی معیشت استحکام کی طرف اپنا سفر شروع کر دے گئی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسحاق ڈار صاحب کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ ہے کہ اسحاق ڈار صاحب کا چراغ روشن ہوتے ہی ڈالر یو ٹرن لے کرالٹی سمت بھاگنا شروع کر دیتا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ معاشی استحکام ساٹھ کے عشرہ آیا تھا۔ انیس سو چونسٹھ میں جنوبی کوریا سے ایک وفد پاکستان سے ترقی کے لئیے معلومات حاصل کرنے آیا تھا کہ اتنے کم وقت میں پاکستان نے کس طرح اتنی ترقی کرلی ہے۔ کیونکہ عالمی سطح پر یہ مشہور تھا کہ پاکستان بہت جلد امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ہم پلہ ہو جائیگا۔ میڈیا میں پاکستان کی ترقی کے چرچے تھے۔ ایک ڈالر پانچ روپیہ کا تھا۔

لیکن میڈیا میں یہ نہیں ڈسکس ہوتا تھا کہ پاکستان کی اس ترقی کا راز یہ ہے کہ پاکستان نے روس کے خلاف امریکہ کو پشاور کے قریب بڈھ بیر میں اڈا بنانے کے لئیے جگہ دی ہے۔ اڈا مل چکنے کے بعد امریکہ نے پاکستان کا وہ حشر کیا کہ پوری پاکستانی قوم بشمول ایوب خاں کو پچھتانا پڑا۔ دوسری بار پاکستان کے روپیہ میں اس وقت استحکام آیا جب روس افغانستان میں آ گھس بیٹھا۔ایک ڈالر کی قیمت دس روپے تھی۔ روس کو روکنے اور توڑنے کے لئیے پاکستان امریکہ کا ایسا اڈا تھا جس کی عوام امریکن کی جنگ کا ایندھن بنی۔ یعنی امریکہ اپنے سب سے بڑے دشمن روس کے خلاف پاکستان میں بیٹھکر جنگ لڑ رہا تھا۔ جس میں ایک بھی امریکن فوجی میدان جنگ میں شامل نہ تھا۔ زمین پاکستان کی ، مرنے والے پاکستانی اور فاتح امریکہ۔

اس جنگ کے دوران پاکستان کی معیشت مضبوط اور روپیہ بھی ڈالر کو آنکھیں دکھایا کرتا تھا۔ جیسے ہی روس شکست سے دوچار ہوا۔ ہمارے صدر جناب ضیاء الحق صاحب کو تو ہوا ہی میں اڑا دیا گیا۔ پریسلر ترمیم پاکستان کا مقدر بنی اور پاکستانی روپے کو ڈالر نے دبوچ لیا۔ ڈالر کی قیمت پینتیس روپے تک جا پہنچی۔ تیسری بار پاکستانی معیشت کا استحکام نائین الیون یعنی ورلڈ ٹریڈ حادثہ کے بعد شروع ہوا۔ پرویز مشرف دنیا کا وہ واحد پاکستانی مردہ ہے جو کہ زندہ بھی ہے۔ یعنی مردہ کی طرح بول نہیں سکتا۔ کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں کر سکتا۔ کچھ کھا نہیں سکتا ، پی نہیں سکتا۔ حتی کہ اپنی آنکھوں کی پلکیں بھی نہیں جھپک سکتا۔ لیکن سانس لے رہا ہے۔ اسکی نبض بھی چل رہی ہے۔

میرا گمان ہے کہ اہرام مصر میں فرعون کی پڑی ہوئی لاش کی طرح اللہ تعالی نے پرویز مشرف کو بھی ہمارے اہل اقتدار طبقہ کے لئیے نشان عبرت بنا رکھا ہے۔ پرویز مشرف نے امریکہ کی چاہت اور ڈیمانڈ سے بڑھ کر سارا پاکستان امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔ امریکن ریمنڈ ڈیوس پاکستان کے مالک اور پاکستانی عوام امریکی ریمنڈیوسوں کی رعایا ہوا کرتے تھے۔ پاکستانی معیشت اور روپیہ دونوں موجیں کیا کرتے تھے۔ اور پھر پاکستانی معیشت اور روپیہ کی بربادی کے لئیے نواز شریف ، زرداری اور عمران خاں کو کھلی چھٹی دے کر چھوڑ دیا گیا۔

پاکستانی کی معیشت کے انگ انگ کو قرضے میں جکڑ کر ڈالر کو پاکستانی روپے کے مقابل تین سو تک پہنچا دیا گیا۔ اب ایک بار پھر امریکہ کو چین اور روس کے مقابل اس خطہ میں پاکستان کی پہلے سے کئی گنا بڑھ کر اشد ضرورت آ پڑی ہے۔ پاکستانی عوام کو اسحاق ڈار کے چرکے میں معیشت کے استحکام کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ جبکہ اصل کہانی یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کو امریکہ نے اپنے گھر بلا کر اپنا اگلا ایجنڈہ تھما دیا ہے۔ اور تباہ حال پاکستان کو یہ وارننگ بھی دے دی گئی ہے کہ اگر مگر کچھ نہیں تم ہمارے ساتھ ہو وگرنہ انڈیا تمہارے اوپر چڑھائی کے لئیے ہم نے تیار کر رکھا ہے۔

یعنی پاکستان کو گنڈھے ( پیاز ) بھی ڈنڈے سے کھلائے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب اور عمران خاں کی ملک میں پھیلائی گئی انارکی بھی امریکہ کی پلاننگ ہے۔ پاکستان کے مقتدر طبقات امریکی چاکری کے لئیے امریکہ کو عہد دے چکے ہیں۔ ایک بار پھر پاکستانی معیشت اور روپیہ کو نئی آکسیجن دی جارہی ہے۔ اس آکسیجن کا نام اسحاق ڈار رکھ لیں یا پرائی جنگ کا ایندھن۔ جو مزاج یار میں آئے۔

Comments

Click here to post a comment