ہوم << ٹرانس جینڈر قانون کی منظوری اسلامی سماجی اقدار پر شب خون-نسیم الحق زاہدی

ٹرانس جینڈر قانون کی منظوری اسلامی سماجی اقدار پر شب خون-نسیم الحق زاہدی

وطن عزیز میں ان دنوں متنازعہ ٹرانس جینڈر بل کے حوالے سے بحث و مباحثہ جاری ہے ،جسے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائیٹس) ایکٹ 2018ء کہا جاتا ہے ۔ اتحادی حکومت کی سر پرستی میں اعلی حکومتی ایوانوں سے منظور کیا گیا ہے ۔

ٹرانس جینڈر پرسن کی تعریف یہ ہے کہ درمیانی جِنس (خنسہ) مردانہ و زنانہ جِنسی اعضا کے ساتھ یا پیدائشی جِنسی ابہام، خواجہ سرا ایسا میل چائلڈ جو بوقت پیدائش میل درج کِیا گیا ہو لیکن جِنسی طور پر ناکارہ / خصی ہو گیا ہو، ایک ٹرانس جینڈر مرد یا عورت جِس کی صنفی، جِنسی شِناخت یا شِناخت کا اِظہار معاشرے کی عْمومی اقدار سے ہٹ کر ہو یا اْس صنفی شناخت سے ہٹ کر ہو جو اْنہیں بوقتِ پیدائش دِی گئی تھی۔کوئی ایسا لفظ یا الفاظ جِس کی تعریف اِس ایکٹ میں نہیں کی گئی یا لِکھی گئی اْس کا مطلب وْہی لِیا جائے گا جو سی آر پی سی ( ضابطہ فوجداری 1898 ) یا پی پی سی ( 1860 ) تعزیراتِ پاکستان میں درج ہے۔

منظور کردہ قانون میں صرف اور صرف ‘‘مخنث’’ یعنی خواجہ سراووں کے حقوق کے لئے بنایا گیا ہے۔‘مخنث’’ یعنی ‘‘خواجہ سراؤں’’ کاجائیداد میں حصہ ، شناختی کارڈ ، سرکاری ملازمت یا پہچان میں بہت سی دشواریاں آرہی تھیں۔ جس کی وجہ سے اس ‘‘طبقہ’’ کو معاشرے میں اس کا جائز مقام اور حقوق دلانے کیلئے یہ قانون بنایا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی آڑ میں دجالی فتنے ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت مل جائے گی؟ کہیںواقعی یہ(ٹرانس جینڈر اشخاص کے حقوق کا) قانون اسلامی احکام سے متصادم تو نہیں ہے؟ کیا اس قانون کے ذریعے بے حیائی کیلیے راستے کھولے گئے ہیں؟۔ پاکستان پہلا اسلامی ملک ہے جس میں یہ بل پاس کیا گیا ہے ۔

سب سے حیرت کی بات تویہ ہے کہ اس قانون کی منظوری میں پی پی ، ن لیگ اور تحریک انصاف ایک پیج پر نظر آئے ۔ مذکورہ بل کے پاس ہوتے وقت اس بل کیخلاف صدائے احتجاج بلند کیوں نہ کیا ؟ کسی بھی پارٹی کے رکن نے کھڑے ہو کر اس مسودہ کی کاپیاں کیوں نہ پھاڑیں ۔ ایسا لگتا ہے پاکستان میں سماجی اقدار پر شب خون مارنے کی منظم منصوبہ بندی کی جا چکی ہے اور اس میں ہر کسی کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے ۔ واضح رہے کہ اس قانون کے وضع کیے جانے سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کے مسودے کا تفصیلی جائزہ لے کر صریح الفاظ میں اسے اسلامی احکام سے متصادم قرار دیا تھا۔

اور شرعی عدالت میں اس قانون کے خلاف درخواست زیرِ التوا ہے اور پتہ نہیں کب تک زیرِ التوا رہے گی۔ پھر جب شرعی عدالت فیصلہ دے بھی دے، تو اس کے بعد اپیل کا مرحلہ آئے گا اور اپیل کا فیصلہ ہونے تک شرعی عدالت کا فیصلہ معطل رہے گا۔ اس لیے جب سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی براے حقوق انسانی نے اپنی آخری میٹنگ میں سینیٹر مشتاق احمد خان کو یہ مشورہ دیا کہ اگر وہ اسے اسلامی احکام سے متصادم سمجھتے ہیں، تو اس کے خلاف شرعی عدالت میں جائیں، تو انہوں نے کہا کہ وہاں تو تیس سال لگ جائیں گے، اور اگر آپ تیس سال تک اس قانون کو منجمد کرسکتے ہیں.

تو پھر میں پارلیمان میں ترمیمی بل پیش کرنے کے بجاے شرعی عدالت کے فیصلے کا انتظار کرلوں گا! اس پر ظاہر ہے کہ انہیں ہاتھ کھڑے کرنے پڑے کیونکہ وہ کبھی اس قانون کو معطل کرنا پسند نہیں کریں گے۔ اس قانون کے محافظین نے ایک عذر یہ بھی پیش کیا کہ چونکہ اس قانون کے خلاف درخواست شرعی عدالت میں دائر کی جاچکی ہے، اس لیے یہ معاملہ اب اس لیے اس کو کسی اور فورم پر اٹھایا نہیں جاسکتا۔ ٹرانس جینڈر قانون کے متن کا جائز ہ لے تواس قانون کی دفعہ 2 تعریفات پر مشتمل ہے جہاں اس قانون میں استعمال کیے گئے الفاظ و تراکیب کی تعریفات پیش کی گئی ہیں۔ دفعہ 2، ذیلی دفعہ 1،شق ای میں "اظہارِ صنف" کی تعریف پیش کی گئی ہے: "اظہارِ صنف سے مراد کسی شخص کا اپنی صنفی شناخت کا پیش کرنا ہے اور جو دوسرے محسوس کریں۔

"پھر دفعہ 2، ذیلی دفعہ 1، شق ایف میں "صنفی شناخت" کی تعریف یوں دی گئی ہے: "صنفی شناخت سے مراد ہے کسی شخص کا اپنے بارے میں سب سے اندرونی اور انفرادی احساس کہ وہ مرد ہے، عورت ہے، دونوں کا مجموعہ ہے، یا دونوں نہیں، جو اس جنس کے ساتھ ہم اہنگ ہو یا نہ ہو جو پیدائش کے وقت اسے دی گئی۔"ماوراے صنف شخص کی تعریف میں تین قسمیں ذکر کی گئی ہیں:ایک خسرا، جسے intersex کہا گیا ہے، اور اس کی توضیح یوں کی گئی ہے کہ یہ وہ شخص ہے جس میں مرد اور عورت دونوں کی جنسی علامات پائی جائیں، یا جس کی جنس کے متعلق ابہامات پائے جائیں؛ دوسری، خواجہ سرا (eunuch) جس کی تعریف یہ پیش کی گئی ہے کہ اس شخص کو پیدائش کے وقت مرد کی جنس دی گئی ہوتی ہے.

لیکن اس کے بعد اس کا جنسی عضو کاٹ لیا گیا ہو یا اسے نامرد بنا دیا گیا ہو؛ تیسری قسم (اور یہیں سارے فساد کی جڑ پائی جاتی ہے) کو ہی اصل ماوراے صنف ماوراے صنف مرد، عورت، خواجہ سرا، یا کوئی بھی شخص ۔نتیجتاً یہ "سہولت" اس قانون نے "کسی بھی شخص" کیلئے پیدا کی ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی صنف (gender) سے ماورا (trans) ہو کر کسی اور صنف میں جاسکتا/سکتی/سکتا-سکتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر قانون کی آڑ میں عملاً قوم لوط کو عام کرنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مجھے اپنی قوم کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز ہولناک گناہ کا خوف ہے وہ قوم لوط والے عمل یعنی مردوں کی ہم جنس پرستی کا ہے ۔‘‘

افسوس آج تہذیب وتمدن کی اندھی تقلید کی وجہ سے ہر طرف ہوا و ہوس پرستی، بداخلاقی، بے حیائی، بے غیرتی، بدکرداری اور مغربی جنسی انقلاب کی بادسموم چل پڑی ہے۔ دراصل مغربی دجالی تہذیب کو پوری دنیا میں غالب کرنے کی ایک منظم سازش چل رہی ہے اور ان کا پورا ایک گروپ مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ صیہونی تحریکات کو مشرقی ممالک میں پھیلانے کا کام کررہاہے اور اس مشن کو کامیاب بنانے کے لئے زن زر کا خوب خوب استعمال کیا جارہا ہے ان لوگوں کی پہنچ صرف ہوٹلوں اور کلبوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کا اثر ورسوخ یہاں کی سیاست اور اقتصادی نظام پر بھی ہے لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آج دنیا کی سب سے بڑی تجارت سیکس ہے اوراقتصادی بنیاد پرستی کا دور ہے.

اس لئے مارکیٹ فورسیز تمام شعبہ ہائے زندگی پر غالب آنا چاہتی ہے۔ ہمارے ملک کے ناپاک ذہن رکھنے والے سیاسی لیڈران ہم جنسی کی قانونی اجازت کے لئے عملی اقدام میں سالوں سے سر گرم رہے ہیں ۔ ہم جنسی کی اجازت دینے کا عدالت کا یہ فیصلہ صرف اسلام کی رو سے ہی غلط نہیں بلکہ دیگر تمام مذاہب بھی اس غیر فطری عمل کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر ایسے ہوا وہوس پرست اور انسانی خواہشات میں مبتلا لوگوں کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا تو وہ وقت دور نہیں کہ ہمارے معاشرے سے بھی یورپ وامریکہ کی طرح شرم وحیا اور اچھے برے کی تمیز مٹ جائے اور اللہ نہ کرے فطرت کے خلاف بغاوت کرنے کی وجہ سے اللہ کا عذاب نہ آجائے کیونکہ اس فعل بد کی وجہ سے وہ تباہی وبربادی جو صدیوں میںآنے والی ہوتی ہے بہت جلد آجاتی ہے۔

حضرت عمر و بن دینار ؓسے روایت ہے کہ سب سے پہلے لوط علیہ السلام کی سرکش ومعاند قوم نے اس فعل بد کا ارتکاب کیا اس سے پہلے برے سے برے انسان کا کبھی اس طرف دھیان نہیں گیا تھا اور اس جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر دردناک عذاب بھی نازل کیا۔ بتایاجاتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام اس قوم کو جو شہر اردن کے اطراف میں آباد تھی جسے اہل سدوم کہا جاتا ہے ان کی اصلاح وہدایت کے لئے بڑی محنت وکوشش کی اور انہیں ہر پہلو سے سمجھایا کہ اے میری قوم! ایسے گھناؤنے کام سے باز آجاؤ جس کو آج تک کسی انسان نے نہیں کیا تم اپنی شہوت عورتوں کے بجائے مردوں سے پوری کرتی ہو مگر یہ کمین قوم حضرت لوط علیہ السلام کے نہایت نرمی ومحبت کے ساتھ سمجھانے کے باوجود اپنی شرارت، خباثت، بے حیائی، بدکرداری سے باز نہ آئی، ستم بالائے ستم یہ کہ اپنے اس فعل بد پر فخر بھی کیا کرتی تھی۔

ایک دن جب حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر تم اسی طرح اس غلیظ وخبیث فعل میں مبتلا رہے تو خدا کا عذاب آجائے گا بس قوم اتنا سنتے ہی تلملا اٹھی اور کہا اے لوط! بہت فہمائش کرلئے اب تو پانی سرسے اونچا ہوگیا ہے اگر تو واقعی اپنے قول میں سچا ہے تو اپنے پروردگار کا عذاب لا کر دکھا جس کا کہ تو دعویٰ کیا کرتا ہے چنانچہ اللہ کا حکم آگیا اور عذاب کے فرشتے سب سے پہلے حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کو چھوڑ تمام اہل خاندان کو سدوم سے باہر نکل جانے کا حکم فرمایا اور پھر رات کے آخری حصہ میں ایک ہیبت ناک چیخ نے اس قوم کو تہہ وبالا کردیا۔

اللہ نے فرشتوں کے ذریعہ پوری آبادی کا تختہ زمین سے اکھاڑ کر اوپر اٹھایا اور ان پر پتھروں کی بارش کی اور پھر انہیں الٹ کر رکھ دیا جب بستیاں الٹ گئیں تو وہاں پر پانی نکل آیا اور وہ علاقہ روئے زمین کا سب سے پست ترین خطہ بن گیا جس کا تذکرہ قرآن پاک نے اس انداز میں کیا ہے ’’اور ہم نے اس زمین کے بلند علاقے کو زمین کا پست علاقہ بنادیا۔ آج بھی یہ مقام لوگوں کو درس عبرت دے رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سمندر کی گہرائی عام سمندروں کے مقابلے تیرہ سو فٹ زیادہ ہے اور اس کے پانی میں نمکیننیت بھی زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس میں کوئی جاندار زندہ نہیں رہتا ہے.

یہاں تک کہ کوئی پودا بھی اس میں نہیں اگتا اسی لئے اس کو’’ بحرمردار‘‘ کہتے ہیں۔اگر قوم لوط کے اس فتنے پر قابو نہ پایا گیا تھا تو ہم اجتماعی طورپر اللہ کی نافرمانی کر مرتکب ہو نگے اور ہماری تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا چنانچہ اپنی نسل کی بقاء کی خاطر اس سیاہ بل کا خاتمہ اشد ضروری ہے ۔

Comments

Click here to post a comment