یہ لوگ تو ایک سیکولر معاشرے میں آباد سیکولر طرز زندگی کے حامل گھرانوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین سیکولر اخلاقیات اپنائے ہوئے تھے۔ پورا معاشرہ اور ان کی ریاستیں سیکولر‘ لبرل اور جمہوری اقدار پر عمل پیرا تھیں۔ آج کے دور میں یورپ اور خصوصاً مغربی یورپ کی تمام ریاستیں سیکولر ازم اور لبرل ازم کی معراج سمجھی جاتی ہیں۔
ان افراد نے تعلیم بھی ایسے اداروں سے حاصل کی جن کا نصابِ تعلیم خالصتاً سیکولر بنیادوں پر مرتب کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے ارد گرد بسنے والے پڑوسیوں‘ دوستوں یا خاندان کے افراد کو بھی انھی سیکولر اقدار پر کار بند دیکھا تھا۔ ان ریاستوں کی بنیاد یہ تصورات ہیں کہ ‘ مذہب خونریزی پیدا کرتا ہے‘ مذہب ایک افیون‘ مذہب فرسودہ رسم و رواج کا مجموعہ ہے‘ مذہب کو صرف انسان کی ذات اور گھر کی چار دیواری تک محدود رہنا چاہیے‘ اس کا تو معاشرے کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے‘ اگر ہم مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہونگے تو ہمارے معاشرے پرامن رہیں گے‘ انسانوں کو اختیار ہے کہ وہ مذہبی تصورات سے بالاتر ہو کر جس طرح کی جنسی زندگی چاہیں اختیار کریں‘ بے شک وہ حیوانوں کی طرح کی اجتماعی ریوڑ جیسی ہی کیوں نہ ہو‘ جہاں جوڑے کا کوئی تصور نہیں ہوتا‘ ہم جنس پرستی تمہارا بنیادی انسانی اور جمہوری حق ہے خواہ یہ فطرت کے کتنا ہی خلاف کیوں نہ ہو۔
ایسے لاتعداد تصورات ہیں جو ریاستی‘ معاشرتی‘ خاندانی‘ تعلیمی اور میڈیا کی سطح پر اس معاشرے میں مسلسل پھیلائے جاتے ہیں اور ان پر زبردستی عمل کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ یہی سیکولر اور لبرل معاشروں کی آزاد روش ہے جس سے فحش فلموں کا کاروبار جنم لیتا ہے‘ پروان چڑھتا ہے اور ان کے لیے افرادی قوت بھی یہی سیکولر معاشرے فراہم کرتے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق امریکا سب سے زیادہ فحش فلمیں بناتا ہے جب کہ دوسرا نمبر جرمنی کا ہے۔ دونوں ہر ہفتے چار سو فلمیں فی ملک بناتے ہیں۔ اسی سیکولر معاشرے کی سب سے بڑی انڈسٹری فحاشی ہے۔
اس فحاشی کی انڈسٹری نے گزشتہ دو دہائیوں سے معاشرے کی سیکولر بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے خاندان کے ادارے اور رشتوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے مقدس رشتوں کے درمیان جنسی تعلق پر مبنی فلمیں بے تحاشا تعداد میں بنانا شروع کر دی ہیں‘ جن میں ماں بیٹا‘ باپ بیٹی اور بہن بھائی جیسے مقدس رشتوں کے تصور کو بھی پامال کیا گیا ہے۔ سیکولر معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی بلکہ مادر پدر آزادی کی وجہ سے ان فلموں پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی، چاہے اس کے نتیجے میں معاشرے سے ان مقدس رشتوں کا احترام ختم ہو جائے ۔
اس طرح کے سیکولر معاشروں میں جنسی جنونی قاتلوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے جنم لیاہے جنھیں سیریل کلر کہا جاتا ہے۔ یہ ان معاشروں میں ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور انھوں نے اپنے جنون میں لاکھوں عورتوں کو قتل اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ جیک دی رپر سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ انھی فلموں نے ایک اور تصور بھی معاشرے کو دیا کہ عورتیں اجتماعی زیادتی میں لطف اٹھاتی ہیں۔ اس تصور کو Rape fantacy کہا جاتا ہے اور پھر مردوں کو اکسایا گیا کہ یہ تو کوئی ایسا جرم ہی نہیں‘ تم تو عورتوں کے پوشیدہ خوابوں اور خواہشوں کی تکمیل کرتے ہو ۔
سیکولر معاشروں کی غلاظت‘ تعفن اور بدبو تو ایک ایسا موضوع ہے جس پر ایک عمر بھی لکھا جائے تو کم ہے۔ لیکن ان معاشروں نے گزشتہ چند دہائیوں سے ایک الزام کس قدر کامیاب میڈیا مینجمنٹ سے مسلمان معاشروں پر لگانا شروع کیا ہے کہ وہاں سے متعصب اور دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں جو عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ اس پراپیگنڈے کا آغاز سوویت یونین کے زوال کے بعد شروع ہوا اور گیارہ ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملے کے بعد اپنے عروج پر جا پہنچا۔ مسلمانوں میں شدت پسندی یا مغرب کی نظر میں دہشت گردی کی وجوہات تو واضح نظر آتی ہیں۔
فلسطین میں ظلم و تشدد کی ایک صدی‘ کشمیر میں ظلم‘ افغانستان‘ عراق‘ بوسنیا‘ چیچنیا‘ غرض ہر جگہ مسلمان آبادی کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا‘ کچھ سہم کر خاموش ہو گئے اور کچھ انتقام کی آگ میں سلگتے ہوئے اپنے حواس کھو بیٹھے۔ یوں ان کے انتقام کی زد میں جو آیا ان کا نشانہ بن گیا۔ لیکن سیکولر معاشروں خصوصاً مغربی یورپ کے معاشروں پر تو ایسا کوئی ظلم کسی نے نہیں کیا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہاں سے دہشت گرد کیسے جنم لینا شروع ہو گئے۔ یوں تو ٹیموتھی جیمز میک وگ “Timo jhy James Mcveigh” کا قصہ بھی اتنا پرانا نہیں۔ اس شخص نے 1991 میں پہلی عراق جنگ میں حصہ لیا۔اس دوران اس نے اتنے بے گناہ لوگوں کی لاشیں دیکھیں تھیں کہ اس کا ذہنی توازن برقرار نہ رہا اور نفرت کی وجہ سے امریکی حکومت کی کسی بڑی بلڈنگ کو نشانہ بنانے کے چکر میں پڑ گیا۔
یوں اس نے 10اپریل 1995 کو اوکلوہاما سٹی میں ایک فیڈرل گورنمنٹ بلڈنگ کے ساتھ بارود بھرا ٹرک کھڑا کیا اور دور جا کر اسے ریموٹ سے اڑا دیا‘ جس کے نتیجے میں 168 لوگ مر گئے اور چھ سو زخمی ہوئے۔ اس کی سوانح عمری 2002 میں چھپی جس میں اس نے اپنے ملحد اور سیکولر ہونے کا اقرار کیا۔ اس نے کہا “Idont belive in hell and science is my religion” ’’میں جہنم پر یقین نہیں رکھتا اور سائنس میرا مذہب ہے‘‘۔ اس کو موت کی سزا سنائی گئی۔ اس نے اپنے آخری بیان میں کہا۔ ’’اگر واقعی جہنم نام کی کوئی چیز ہے تو پھر میرے ساتھ وہ امریکی فائٹر پائلٹ بھی ہوں گے جو محض جنگ جیتنے کے لیے معصوم لوگوں پر بم برساتے تھے‘‘۔2001میں گیارہ ستمبر کا واقعہ ہو گیا۔
اس واقعے کی کوکھ سے ایک اور سیکولر دہشت گرد نے جنم لیا۔ یہ وہ شخص ہے جس نے یورپ میں دہشت گردی کو نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ ناروے کا رہنے والا پیڈر جینسن (Peder Jensen)۔ 1975 میں پیدا ہونے والا یہ شخص یورپ کا سب سے مشہور بلاگر ہے جو جہاد مخالف (Counter Jihad) بلاگ تحریر کرتا ہے۔ وہ ناروے کی وزارت خارجہ کا افسر تھا جس نے باقاعدہ عربی سیکھی اور مصر اور اسرائیل کے سفارت خانوں میں کام کرتا رہا۔ گیارہ ستمبر کے بعد اس نے Fjordman کے قلمی نام سے بلاگ لکھنا شروع کیے۔ یہ شخص شدید قوم پرست نظریات رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو یورپ سے نکال دیا جائے ورنہ یہاں ایک سول وار ہو جائے گی اور لوگ انھیں مار دیں گے۔
اس نے اپنی تحریروں سے بہت سے لوگوں کی ذہن سازی کی جو یورپ میں موجود ہر مسلمان سے نفرت کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں سے ایک اینڈرس بریوک Anders Breivik ہے جس نے اس کے نظریات سے متاثر ہو کر یورپ کی اسلام سے آزادی کی تحریک شروع کی۔ وہ نظریاتی طور پر hip کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے اور سیکولر قوم پرست ہے۔ وہ یورپ کے مسلمانوں کو ’’ٹرائے‘‘ کا گھوڑا سمجھتا تھا۔ یعنی مسلمان دھوکے سے یورپ میں داخل ہو کر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔اس نے 1518 صفحات کا ایک مینی فیسٹو تحریر کیا۔ صلیبی جنگوں والا لباس پہنا‘ اپنی ویڈیو بنائی کہ وہ حملہ کرنے جا رہا ہے اور پھر 22 جولائی 2011 کو اوسلو کی گورنمنٹ بلڈنگ میں گیا‘ دھماکا کیا جس سے 8لوگ مر گئے‘ وہاں سے وہ یوٹوا UTOYA جزیرے گیا‘ وہاں ایک یوتھ کنونشن ہو رہا تھا‘ اس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی اور 68 لوگوں کو قتل کر دیا۔
مقدمہ چلا‘ اسے عدالت نے کہا تم نے یہ سب کیوں کیا‘ جواب دیا اس لیے کہ یورپ کو مسلمانوں سے آزاد کرواؤں‘ کیا تم عیسائی ہو‘ جواب دیا‘ یورپی ہوں‘ معاشرتی طور پر عیسائی‘ نظریاتی طور پر سیکولر۔ لیکن اب جب‘ اس کے ٹھیک پانچ سال بعد جب اوسلو میں قتل و غارت کی سالگرہ تھی‘ ایک ایرانی اور جرمنی شہریت کے حامل لڑکے علی ڈیوڈ سنبلی نے میونح میں چھ ترک اور عرب بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خود مارا گیا لیکن اس کا کمرہ‘ کمپیوٹر اور دیگر اشتہار میں ہر طرف اوسلو دھماکوں کا شخص اینڈ بریوک ہیرو نظر آتا ہے۔
وہ اسے اپنا ہیرو سمجھتا تھا۔ مغرب کے ان سیکولر دہشت گردوں پر مغرب کا میڈیا خاموش ہے لیکن حیرت پاکستانی میڈیا پر ہوتی ہے جسے سانپ سونگھ چکا ہے‘نہ اسے امریکا کے ہم جنس پرست کلب کی فائرنگ یاد آتی ہے اور نہ اوسلو کے مقتول اور نہ ہی میویخ کا قاتل۔ یوں لگتا ہے اگر کوئی سیکولر دہشت گرد اور قاتل بھی ہو جائے تو معزز ہی رہتا ہے۔
تبصرہ لکھیے