یہ سردیوں کی ابتدائی رات تھی، رات کے دس بج چکے تھے اور میں اکیلا جنگل میں کھڑا ڈاکٹر صاحب کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ ایک سرحدی گاؤں تھا، گاؤں کے چاروں طرف پہاڑ تھے اور پہاڑوں کے درمیان وسیع جنگل پھیلا ہوا تھا۔ جنگل کی رات سرد ہونے کے ساتھ ساتھ خوفناک بھی تھی اور مجھے زندگی میں پہلی بار اپنے سائے سے ڈر لگنے لگا تھا۔ ڈر اورخوف کی اپنی نفسیات ہوتی ہیں اور ہم لاکھ کو شش کے باوجود اپنی ان نفسیات کو نہیں چھپا سکتے۔ میں خوف اور ڈر سے نکلنے کی کشمکش میں تھا کہ سامنے ایک تنگ راستے سے مجھے ڈاکٹر صاحب آتے ہوئے دکھائی دیے۔ میں نے سلام عرض کیا، انہوں نے منہ ہلائے بغیر مجھے پیچھے چلنے کا اشارہ کیا، اندھیری رات، جنگل کا سناٹا اور وحشی جانوروں کی خوفناک آوازیں لیکن ڈاکٹر صاحب بڑے اطمینان سے آگے بڑھ رہے تھے، وہ ایک تنگ پگڈنڈی سے ہوتے ہوئے ایک خستہ ہال مکان کے سامنے رک گئے، مکان کیا تھا بیسویں صدی کی ایک خستہ ہال جھونپڑی تھی، چاروں طرف درختوں اور پہاڑوں سے گھری ایک چھت، ہمیں گھر پہنچتے پہنچتے بارہ بج چکے تھے، ڈاکٹر صاحب نے مجھے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا، صبح کی روٹین بتائی اور سونے کے لیے اپنی خوابگاہ میں چلے گئے۔
مجھے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں میرے ایک دوست نے بتایا تھا. کچھ دن پہلے ہم لاہور میں ایک کورس میں اکٹھے شریک تھے، میں تجسس کا مریض ہوں اور مجھے چیزوں کی گہرائی تک جانے کا مرض ہے. میرا یہ دوست اسی سرحدی گاؤں کا رہنے والا تھا، باتوں باتوں میں اس نے مجھے بتایا کہ ہمارے گاؤں کے پاس پہاڑوں میں ایک ڈاکٹر صاحب رہتے ہیں، انہوں نے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی میڈیکل لیب بنا رکھی ہے اور وہ سارا دن اسی لیب میں گزارتے ہیں. لیب میں مختلف رنگوں کے خون کی بوتلیں پڑی ہیں اور وہ سارا دن ان بوتلوں اور خون پر تجربات کرتے رہتے ہیں۔ میرے لیے یہ ایک نئی خبر تھی اور میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کا پلان بنا لیا. میرا دوست واپس گاؤں گیا، ڈاکٹر صاحب سے بات کی، وقت لیا اور آج رات بارہ بجے میں ڈاکٹر صاحب کی میڈیکل لیب کے بالکل پاس تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو ڈاکٹر صاحب کی تھوڑی ہسٹری بتا دوں، ڈاکٹر صاحب قائد اعظم کے زمانے کے تھے، انہوں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے اور اسے دو لخت ہوتے دیکھا تھا، پچاس اور ساٹھ کی دہائی تک وہ ایک سر گرم سیاسی کارکن رہے تھے، انہوں نے پاکستان کے کئی صدور اور وزرائےاعظم کو بڑے قریب سے دیکھا تھا، وہ سیاست دانوں کے اندر تک جھانکنے اور ان کی اصلیت جاننے کے ماہر تھے، مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد وہ شکستہ دل ہوگئے اور اپنی بقیہ زندگی سیاسی ہنگاموں اور سیاست دانوں سے دور رہ کر گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ گزشتہ چالیس سال سے اس سرحدی گاؤں میں مقیم تھے۔
اب ہم واپس آتے ہیں. ڈاکٹر صاحب نے مجھے صبح چھ بجے کا وقت دیا تھا اور میں پورے چھ بجے میڈیکل لیب میں موجود تھا. ڈاکٹر صاحب آئے، انہوں نے اپنا مخصوص لباس پہنا ہوا تھا، ہاتھ میں لاٹھی، چہرے پر موٹے شیشوں والا چشمہ اور دوسرے ہاتھ میں کچھ اوزار پکڑے ہوئے تھے. میں نے ڈاکٹر صاحب سے گفتگو شروع کر دی، میں مسلسل بولتا جا رہا تھا اور ڈاکٹر صاحب مسلسل اپنے کام میں مصروف تھے، ٹھیک بیس منٹ بعد انہوں نے میری طرف دیکھا، میں اچانک گھبرا گیا، انہوں نے گہری سانس لی اور لڑ کھڑاتی آواز میں بولے’’میں پچھلے چالیس سال سے اس جھونپڑی میں مقیم ہوں، میں نے آج تک کسی کو وقت نہیں دیا اور میں آج تک کسی سے نہیں ملا، مجھے پتا چلا تھا کہ تم لکھتے ہو، اس لیے میں نے تمہیں وقت دے دیا، میں سو سال کی عمر کو پہنچنے والا ہوں، زندگی کا کو ئی بھروسہ نہیں، میں اپنی زندگی کے چالیس سالہ تجربات تم سے شیئر کرنا چاہتا ہوں، یہ تجربات تمہارے پاس امانت ہیں اور تم انہیں عوام تک پہنچانے کے ذمہ دار ہو‘‘میں نے سینے پر ہاتھ رکھا اور گردن آگے کو جھکا دی.
ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے’’میں گزشتہ چالیس سال سے مختلف لوگوں کے خون ٹیسٹ کرتا آ رہا ہوں. یہ جو تم مختلف رنگوں کے خون دیکھ رہے ہو، یہ مختلف لوگوں، لیڈروں، سیاستدانوں، وڈیروں، جاگیر داروں، تاجروں، صنعتکاروں، علماء، پروفیسرز، اساتذہ، فلاحی کام کرنے والوں، لکھاریوں، راج مزدوروں، کسانوں اور ریڑھی بانوں کے خون ہیں. میں اپنے چالیس سالہ تجربے کی بنیاد پر ان خون کے نمونوں میں وہ کچھ دیکھ سکتا ہوں جو ایک عام انسان، ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان نہیں دیکھ سکتا‘‘ میرے لیے یہ سب باتیں کسی انکشاف سے کم نہیں تھیں. ڈاکٹر صاحب نے مجھے پاس بلایا، خون کی ایک بوتل اٹھائی، اس میں سے خون کا ایک قطرہ لیا، اسے شیشے کی ایک پلیٹ میں ڈالا، کچھ کیمیائی اجزاء اس میں شامل کیے اور مائیکرو اسکوپ سے اس کا معائنہ شروع کر دیا. تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب نے مائیکرو اسکوپ میرے حوالے کی اور خود خاموشی سے کھڑے ہو گئے۔ میں نے مائیکرو اسکوپ آنکھوں سے لگائی اور میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، مجھے مائیکرو اسکوپ میں جو مناظر دکھائی دے رہے تھے وہ انتہائی خوفناک تھے، سینکڑوں ہزاروں سانپ ایک دوسرے سے گھتم گھتا تھے، چھوٹے چھوٹے قد کے ہزاروں بونے تھے جن کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں، خنجر اور چھریاں تھیں اور وہ سب ایک دوسرے پر وار کر رہے تھے، ہر طرف گندگی تھی اور ہر بونا دونوں ہاتھوں سے گندی چیزیں اٹھا کر اپنے منہ میں ٹھونس رہا تھا، ہر طرف تعفن تھا، بدبو تھی اور اس گندے اور بدبو دار ماحول میں وہ بڑی خوشی سے اچھل کود رہے تھے. مجھ میں مزید ہمت نہیں تھی اور مجھے ان سب مناظر سے خوف آ رہا تھا، میں نے مائیکرو اسکوپ پیچھے ہٹا دی۔ ڈاکٹر صاحب آگے بڑھے، ایک دوسری بوتل سے خون کا قطرہ نکالا اور اس پر تجربہ شروع کر دیا، تھوڑی دیر بعد انہوں نے مائیکروا سکوپ پھر میرے حوالے کر دی، اس بار منظر بڑا خوبصورت تھا، ہر طرف ہریالی تھی، پھول کھلے تھے، ہزاروں زندگیاں کھیل رہی تھیں، لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں اور لوگ ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔ میں بڑی دیر تک ان مناظر میں کھویا رہا، ڈاکٹر صاحب نے مجھے ٹھوکر لگائی اور مائیکرو اسکوپ واپس لے لی. ڈاکٹر صاحب نے سارا سامان سمیٹا اور مجھے لے کر باہر صحن میں آ گئے، میں نے تجسس طلب نظروں سے ان کی طرف دیکھا تو وہ بولے’’سنو ! خون کا پہلا قطرہ حکمرانوں، سیاستدانوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کا تھا اور خون کا دوسرا قطرہ سچے علماء، خدمت خلق کرنے والوں، محنت اورحلال روزی کھانے والے مزدوروں اور باضمیر اساتذہ کا تھا۔ دونوں طبقوں کے خون اور ان کی زندگی کا فرق تمہارے سامنے ہے اور اب یہ فرق عوام تک پہنچانا تمہاری ذمہ داری ہے‘‘میں نے ہاں میں گردن ہلائی اور کچھ کہنے کے لیے زبان کھولی لیکن ڈاکٹر صاحب نے شہادت کی انگلی اپنے ہونٹو ں پر رکھی اور مجھے خاموش کروا دیا۔ میںابھی ڈاکٹر صاحب سے بہت کچھ پوچھنا اور ان سے بہت باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے سلام کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا، وہ واپس پلٹے اور اپنی میڈیکل لیب میں گم ہو گئے اور میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی جنگل کی تنگ پگڈنڈی پر واپسی کا سفر شروع کر دیا۔
تبصرہ لکھیے