انسانیت کی تعمیر و علمی ارتقاء میں اساتذہ کا بنیادی کردار ہے ، جو کہ اپنے علم کے ذریعے عقل کو روشن کرنے کا ہنر سکھاتے آئے ہیں۔ اساتذہ قوم کے معمار ہیں اور نوجوانوں کی سیرت کو سنوارنے، انہیں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور ان کی کردار سازی میں اہم ترین فریضہ سر انجام دیتے آئے ہیں۔
اور اپنی انتھک محنت سے نوجوانوں کو محقق، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، سیاستدان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارہائے منصبی پر فائز کرتے چلے آئے ہیں۔اساتذہ انسان کو ربّ رحمن سے آشنا کرتے ، دنیا میں انسانیت سے محبت، امن،اور اخوت کا پرچار کرتے، اور جہالت کے اندھیروں کو علم کی روشنی سے ختم اور علم کی قندیلوں سے قندیلیں روشن ومنور کرتے چلے آئے ہیں۔ بلاشبہ درس و تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے معلم کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو معلم کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔
اسلام نے معلم کو بے حد عزت و احترام عطا کیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآن مجید فرقان حمید میںنبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔ خود خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے‘‘۔خالق کائنات نے انسانیت کی رہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ء کرام کو بھیجا، ہر نبی شریعت کامعلم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر بھی ہوتا تھاجیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام دنیا میںزراعت ، صنعت کے معلم اوّل تھے ،کلام کو ضبط تحریر میں لانے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام نے ایجاد کیا،حضرت نوح علیہ السلام نے لکڑی سے چیزیں بنانے کا علم متعارف کروایا،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے علم مناظرہ اور حضرت یوسف علیہ السلام نے علم تعبیر کی بنیاد ڈالی۔
خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معلم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایاتم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سیکھائے۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ اسلام میں معلم کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے۔ اسلام نے استاد کو معلم و مربی ہونے کی وجہ سے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول استاد کی عظمت کی غمازی کرتا ہے کہ ’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلام ہوں، وہ چاہے مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بناکررکھے‘‘۔ پانچ اکتوبر کا دن دنیا بھر میں ’’ورلڈ ٹیچرز ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے ۔
یہ دن جہاں اساتذہ کرام کی قدر ومنزلت کے پہچاننے کا دن ہے وہیں اساتذہ کے لئے غور کرنے کا دن ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی کو احسن طور پرسر انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔وہ اپنے طلباء کی صحیح سمت میں رہنمائی کررہے ہیں یا اپنی خدمات کو محض ایک ڈیوٹی سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ایک استاد کے لئے طلباء کی تربیت،انہیں صحیح راستہ دکھانا، زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرنا، مشکلات سے نمٹنے کا سلیقہ سکھانا، آگے بڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی کرنا اور معاشی و اقتصادی ترقی کے لئے ہنر مندی کی اہلیت پیدا کرنا، بطور معلم اہم ترین فریضہ ہوتا ہے۔ اور نہ صرف طالب علم بلکہ والدین ، رشتہ دار اور سب سے بڑھ کر ملک و قوم اساتذہ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیںکہ وہ اپنے کردار سے سماجی اور قومی قدروں میں اضافہ کریں گے۔ بلاشبہ اساتذہ کی محنت سے قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے لئے رکھے گئے اساتذہ کوپیشہ ورانہ اور معاشی نقصان پہنچا کر ان کا استحصال کیا جاتارہا ہے، اساتذہ کو فریضہ تدریس کی ادائیگی کی بجائے گھروں سے بچے اکٹھے کرنے، پولیو کے قطرے پلانے، ووٹنگ لسٹ بنانے ،مردم شماری کرنے، اینٹوں کے بھٹوں پر بچوں کے والدین کو لیجا کر ان کے کارڈ بنوانے کا کام لے کر بچوں کو تعلیم کے حقیقی ثمرات سے محروم کیا جا رہا ہے، اور پھر ان حالات کی ذمہ داری اساتذہ پر ڈال کر ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرکے اساتذہ کی تذلیل کی جاتی ہے۔
افسران تعلیم کی جانب سے اساتذہ کو بلاجواز سزائیں دی جاتی ہیں، پنجاب میں ایگزامینیشن کمیشن کے غیر معیاری امتحان کے غیر معیاری نتائج کی بنیاد پر اساتذہ کی انکریمنٹس سلب کر لی جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کو پرسکون طریقہ سے تدریس کا عمل جاری رکھنے کے لئے ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں بند کی جانی چاہیے۔ بہتر کارکردگی دیکھانے والے ایجوکیٹرز کو مستقل کیاجانا چاہیے ، اساتذہ کی ہیلتھ انشورنس کی جانی چاہیے تاکہ اساتذہ بہتر طور پر تدریسی خدمات سرانجام دے سکیں۔
تبصرہ لکھیے