ہوم << کلمہ پڑھا ہوا ہے - حبیب الرحمن

کلمہ پڑھا ہوا ہے - حبیب الرحمن

دولہا کی بہنیں فخریہ لہجے میں سہیلیوں کو بتاتی پھرتیں کہ بھیا انگلینڈ سے میم لائے ہیں، اماں کو انگلش وغیرہ تو نہ آتی تھی پھر بھی روایتاً چادر اور سوٹ گوری کو دیا، بلائیں لیتی لیتی رہ گئیں کہ پتہ نہیں میم کو کیسا لگے البتہ بیٹے کو جی بھر کر دعائیں دیں۔

صرف ابا جی تھے جنھوں نے بیٹا جی سے دریافت کیا، مسلمان کیا ہے، بیٹا جی نے جواب دیا، جی اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے، اس پر ابا جی مطمئن ہو گئے۔مشترکہ خاندانی نظام تھا، کچھ عرصہ گزرا کہ ایک نیا کام شروع ہوا، میاں کے آفس جانے سے پہلے میم دروازے کے اوپر خاوند کی باہوں میں جھول جاتی اور چہرے پر ایک پیار کی لمبی مہر ثبت کرتی۔ گھر میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں، بیٹا جی نے استسفار پر بتایا کہ سمجھ جائے گی، کلمہ پڑھا ہوا ہے۔ گرمیاں آئیں تو گوری نے پینٹ اتار کر نیکر پہننا شروع کردیا، اباجی نے تو کمرے سے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا اور بھائی رات کو دیر سے گھر آنے لگے، اماں ہر وقت گھر کی دیواروں کو تکتی رہتیں کہ کہیں سے نیچی تو نہیں رہ گئیں۔ بیٹے سے شکوہ کیا تو اس نے پھر بتایا کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔

ایک شادی پر گوری نے بریک و کینبرے ڈانس کا ایسا شاندار نمونہ پیش کیا کہ بڑے بڑے شیوخ و پاکباز دل تھام کر رہ گئے۔ دریافت کرنے پر پھر بتایا گیا کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔ گوری عید وغیرہ تو کرتی لیکن کرسمس بھی بڑے تزک و احتشام سے مناتی اور بیٹا جی ہر دفعہ پوچھنے پر فرماتے "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔ وقت گزرتا چلا گیا، برداشت پیدا ہوتی چلی گئی، بچہ ہوا تو گوری نے ختنے کروانے سے انکار کردیا، کہنے لگی یہ ظلم ہے، بیٹا جی کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ بولے سمجھ جائے گی "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔

ڈانس، میوزک، فلمیں، کاکٹیل پارٹیز، کرسمس، سرِ عام بوس و کنار گھر کے کلچر کا حصہ بننے لگے، بھائی آہستہ آہستہ بھابی سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔ ہاتھوں پر ہاتھ مار کر باتیں کرتے۔ بہنیں بھابی کے کمرے میں جاتیں اور جینز کی پینٹیں پہن پہن کر آئینے کے سامنے چیک کرتیں۔ کلمہ تو انھوں نے بھی پڑھا ہوا تھا۔ بھابی سے دل کھول کر ہر بات بیان کرتیں۔ گوری کبھی کبھار نمازِ جمعہ پڑھ لیتی تھی اسی لئے اباجی بھی کہنے لگے کہ چلو "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔

دوست احباب جب بھی ملنے آتے تو گوری خاوند کے پہلو سے چپک کر بیٹھ جاتی۔ ایک دو بار تو جگہ تنگ ہونے کی صورت میں گود میں بیٹھنے سے بھی گریز نہ کیا۔ پوچھنے پر حسبِ معمول یہی جواب ملا کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔ ایک کام گوری کا اچھا تھا، جب بھی بازار نکلتی تو جینز شرٹ میں ملبوس ہونے کے باوجود سر پر دوپٹہ سا رکھ لیتی۔ دیکھنے والے دیکھ کر ہی اندازہ کر لیتے کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔ (فیس بک سے ماخوذ)۔

14 اگست 1947 میں "گوری" نے کلمہ تو پڑھ لیا لیکن ایک دن کیلئے بھی کلمے کے ادب و احترام کے کردار میں نظر آ کر نہیں دی "گوری" بہر صورت کلمہ گو تھی اس لئے اس کی تمام خلافِ شرع اور اخلاق باختہ باتوں اور حرکتوں کے باوجود ایک ایک فرد کے دماغ میں یہ بات بہت اچھی طرح بٹھا دی گئی کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔ پہلے پہل تو اس وقت کے کے گوری کے ملک والے اس سنگینی پر بہت زیادہ دکھ کا اظہار اور چراغ پائی کرتے دکھائی دیئے کہ "بیاہ" کا مقصد "گوری" کو اسلامی شعائر کا نمونہ بنانا تھا لیکن گوری نے آہستہ آہستہ ایسی ذہن سازی کی کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کیا، بوڑھے اور بوڑھیاں تک گوری کے رنگ میں رنگنا شروع ہو گئیں۔ جب بھی کہیں سے "گوری" کے کردار کے خلاف آواز بلند ہوتی تو ہتھیار بند وردی والے اور سفید پوش ان آوازوں کا گلا گھونٹنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے اور اگر کسی کی آواز پھر بھی نہ دب پاتی تو ان کا گلا ہی گھونٹ دیا جاتا۔

"گوری" کی پیدائش کے کوئی 25 سال بعد مشرقی بازو سے ایک تحریک ابھری اور "سسٹم" میں رہتے ہوئے انھوں نے یہ ثابت کیا کہ "گوری" کے ملک کے اصل نمائندے وہ ہیں۔ بد قسمتی سے کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود ان کو "طاقت" کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ پھر یہ کہ وہ "گوری" کے کردار کے خلاف تھے، لہٰذا جن کے دماغوں میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی کہ گوری نے "کلمہ پڑھا ہوا ہے"، انھوں نے مخالفت کرنے والوں کو مرتد قرار دے کر ان کے قتلِ عام کو کارِ ثواب شمار کیا۔

گوری کے ملک میں پہلے پہل سلمان تاثیر یا اس کی طرح کے کئی غیر مسلم محض اس لئے قتل یا نذر آتش کر دیئے جاتے تھے کہ انھوں نے فلاں کی حمایت یا آپ (ص) کی گستاخی کی لیکن آہستہ آہستہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے" کی بنیاد پر یہ عالم ہو گیا ہے کہ اشاروں کنایوں میں (نعوذ باللہ) پیغمبر ہونے کا دعویٰ یا اسی دعویدار کا پخانہ پیشاب پینے، حکم پر اپنے سکے معصوم بچے کا گلا کاٹ ڈالنے کی باتیں، بنی (ص) کے بعد آج تک نظامِ زندگی چلتے رہنے .

لیکن ایک لیڈر کے چلے جانے کے بعد پوری کائینات کا نظام تہس نہس ہونے کی باتیں عام کرنے والوں کے خلاف کسی کے خون کو جوش مارنے کے مناظر دیکھنے میں نہ آنا اس بات کی واضح دلیل تھی کہ گوری کے ملک کے بچے بچے کے دل و دماغ میں یہ بات نقش کردی گئی ہے کہ گوری نے "کلمہ پڑھا ہوا ہے" .

لہٰذا جتنی چاہے شرابیں لنڈھاؤ، سرِ عام زنا کرو، بھنگ کی کاشت کرو، ٹرانس جینڈر کا قانون پاس کرو، جس پر بس چلے اس کو لوٹو، بنا جرم بتائے جس کو چاہو اٹھا کر لے جاؤ، اور جس کی چاہے عزت تار تار کرو لیکن اگر کوئی گوری کے کردار پر حرف زنی کرے تو اسے پسِ دیوارِ زنداں ڈال کر سولی پر چڑھا دو کہ گوری نے "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔

Comments

Click here to post a comment