ملکہ الزبتھ دوئم کی وفات کے بعد متفرق اہم قضیوں اور سوالات نے سر اٹھایا جن میں سے ایک کوہ نور ہیرے کا بھی تھا ۔
کوہ نور ہیرا سب سے بیش قیمت ہیروں میں سے ایک ہے۔ ابتدائی طور پر یہ غالباً 186 قیراط یعنی 38 گرام وزن کا ہیرا تھا، جو تراش خراش کے بعد آج 105 قیراط یعنی 21 گرام وزن کا حامل ہے۔
بارہویں یا تیرہویں صدی میں ، دکنی سلطنت نے کان کنی کے ذریعے کوہ نور حاصل کیا ۔ پھر سلطان علاؤالدین خلجی نے جب دکن کی ریاست فتح کی تو کوہ نور ہیرا ان کی ملکیت میں چلا گیا ۔ مگر ہندوستان کی حکومت مستقل طور پر کسی ایک خاندان کے پاس نہیں رہی۔ چنانچہ مختلف حکمرانوں اور سلطنتوں نے ہندوستان پر راج کیا تو کوہ نور ہیرا بھی ہر نئی حکومت کے شاہی خزانے کا حصہ رہا۔ یہاں تک کہ 1526 میں یہ بالآخر مغلیہ سلطنت کے پاس آ گیا۔
مغلیہ سلطنت کے عروج کے زمانے میں ، شاہی خزانے میں موجود ہیروں اور جواہرات کا کوئی شمار نہ تھا۔ چنانچہ شہنشاہ شاہجہان نے بہت سے ہیروں کو اپنے شایانِ شاں تخت کی زینت بنانے کا فیصلہ کیا۔
شاہجہان آباد یعنی پرانی دہلی کو اپنا پایہ تخت بنانے والے شہنشاہ شاہجہان نے ایک بے مثال تخت بنوایا ، جس کا نام تختِ مُرَصّع
(Takht e Murassa)
یعنی Ornamented Throne رکھا گیا۔ بعد میں اسی تخت کو تختِ طاؤس بھی کہا گیا ۔ یہ عمومی نظریہ ہے کہ کوہِ نور ہیرا بھی اسی تخت کے پائے میں جَڑا تھا ۔
پھر مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور ایران کے نادر شاہ افشار نے صفویوں کی بساط لپیٹی تو ایران کی فتح کے بعد دہلی فتح کرنے کا خیال آیا۔ چنانچہ 1738 میں انہوں نے محمد شاہ رنگیلا کو شکست دے کر دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور برصغیر کے شاہی خزانے کو تقریباً مکمل طور پر لوٹ لیا۔
اس سب خزانے میں تختِ طاؤس اور کوہِ نور ہیرے سمیت بے شمار نوادرِ روزگار جواہرات تھے۔
نادر شاہ افشار کے قتل کے بعد ، کوہ نور اگلے حکمران احمد شاہ درانی کے پاس رہا۔ جب درانی سلطنت کے آخری حکمران ، شاہ شجاع درانی شکست کھا کر فرار ہوئے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے انہیں پناہ دی اور اپنی اس خدمت اور میزبانی کے صلے میں کوہ نور کا مطالبہ کیا ۔ یوں 1813 میں یہ ہیرہ سِکّھا شاہی خاندان کے پاس رہا۔
رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد کوہ نور کے مالکان بڑی تیزی سے بدلتے رہے ، یہاں تک کہ 1849 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں کی حکومت کا نام و نشان مٹا دیا اور یوں کوہ نور ہیرا ، ملکہ وکٹوریہ کے پاس پہنچ گیا ۔
اسے ہائیڈ پارک میں ایک نمائش میں رکھا گیا ، جس کے بعد برطانوی حکومت نے اسے باقاعدہ تراشنے کا فیصلہ کیا ، یہاں تک کہ اس کے وزن میں تقریباً 81 گرام کی کمی آئی۔
ملکہ وکٹوریہ نے اسے اپنے تاج کی زینت بنایا اور ان کی وفات کے بعد مختلف برطانوی ملکاؤں نے اہم مواقع پر ان کو اپنے تاج میں سجائے رکھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے 1849 کے بعد آج تک کسی مرد حکمران نے نہیں پہنا۔ یہ کبھی کسی بادشاہ کے تاج کی زینت نہیں بنا۔ البتہ برطانوی شاہی خاندان کی مختلف خواتین اسے پہن چکی ہیں ۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کوہ نور ہیرے کی تاریخ خون ، موت اور جنگ سے عبارت ہے ، اور اس کو پہننے والے مردوں کے ساتھ بیش تر کچھ غلط ہی ہوا ہے۔ چنانچہ کسی برطانوی بادشاہ کا اسے پہننا برا شگون ہو گا۔ خود ملکہ وکٹوریہ کی وصیت میں یہ بات شامل تھی کہ اسے کوئی مرد کبھی نہ پہنے ۔
آج یہ ہیرا ٹاور آف لندن میں نمائش کے لیے موجود ہے ، اور یہ فیصلہ شاہ چارلس کو کرنا ہے کہ کوہ نور کا مستقبل کیا ہو گا ؟
کیا کومیلا پارکر اسے اپنے تاج میں شامل کریں گی؟
جبکہ ایران ، افغانستان ، بھارت اور پاکستان ، چاروں ممالک اس ہیرے پر اپنا حق جتاتے ہوئے مسلسل یہ مطالبہ کرتے آ رہے ہیں کہ یہ انہیں سونپ دیا جائے۔ بھارت اس کا یہ حل بتاتا ہے کہ اس کے چار یا پانچ ٹکرے کر دیے جائیں اور سب مطالبہ کرنے والوں کو ایک ایک ٹکڑا دے دیا جائے ۔
تبصرہ لکھیے