میرا آپریشن تقریباً تین گھنٹے کا تھا۔سرجری سے قبل نرس نے میرا بلڈ پریشر نارمل رکھنے کے لیے کمرے میں خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی ممکنہ کوشش کی ۔ مہربان نرس کو جب معلوم ہُوا کہ میرا تعلق لکھاری برادری سے ہے تو اُس نے دلپذیر لہجے میں کہا :’’ تو پھر آپ عمران خان کے بارے میں بھی لکھتے ہوں گے۔ عمران خان آپ کو اچھے لگتے ہیں؟‘‘ سوال سُن کر حیرانی نہیں ہُوئی۔
کمرے میں موجود میری اہلیہ محترمہ بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکیں۔ بلا شبہ عمران خان ہر جگہ زیر بحث ہیں،اگرچہ خان صاحب کے بہت سے متنازع بیانات اور نعروں سے بہت سے لوگ اتفاق بھی نہیں کرتے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین صاحب بوجوہ کئی مقدمات میں حکومت اور قانون کو مطلوب بھی ہیں۔اُن کی ضمانتوں میں آئے روز ایکسٹینشن ہو رہی ہے۔ اِس کے باوصف خان صاحب کی مقبولیت میںکمی نہیں آئی ۔ اِس کا احساس خان صاحب کو بھی ہے، اتحادی حکومت کو بھی ۔ سمندر پار مقیم لاکھوں پاکستانی بھی عمران خان کے حامی ہیں۔
امریکا و برطانیہ میں بسنے والے پاکستانی نون لیگ کے قائد، میاں محمد نواز شریف، کو بھی پسند تو کرتے ہیں لیکن شاید اتنی تعداد میں نہیں ۔یہی آج کا سچ ہے۔ نون لیگی صفوں میں بھی یہ احساسِ زیاں اب روز افزوں ہے کہ ہم نے عدم اعتماد تحریک کی طاقت سے خان صاحب سے حکومت لے کر خسارے اور نقصان کا سودا ہی کیا ہے ۔یہ منظر مگر نون لیگیوں کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث ہے کہ کئی معروف لیکن غیر پاکستانی بھی عمران خان کے حامی ہو رہے ہیں۔ عالمی میڈیا میں گزشتہ روز برطانوی گلوکار و مبلّغِ اسلام، یوسف اسلام ، جن کا پرانا نام کیٹ اسٹیفن ہے نے بھی ٹویٹ کیا ہے،۔ یوسف اسلام صاحب نے 45 سال قبل اسلام قبول کر لیا تھا، وہ گلوکار بھی ہیں ، گیت نگار بھی۔ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ’’شہباز گل، کو زندان میں ڈالنے سے اعراض برتنا چاہیے تھا۔
یوسف اسلام، مزید لکھتا ہے :’’اِس وقت پاکستان میں لاکھوں لوگوں کے گھر سیلابوں نے برباد کر دیے ہیں۔ لاتعداد سڑکیں اور پُل منہ زور سیلابی لہروں میں بہہ گئے ہیں۔ ایسے میں حکومتِ پاکستان کی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ برباد شدہ اسٹرکچر کی تعمیرِ نَو کی جائے اور بربادہونے والے خاندانوں کی ہر قسم کی دستگیری کی جائے۔‘‘ یوسف اسلام پرانے ایام سے عمران خان کے ظاہر اور باطن سے آشنا ہیں ۔ اِس کے باوجود اگر وہ خان صاحب کی حمائت کررہے ہیں تو اِس کی بھی کوئی اساس اور وجہ ہوگی ۔ عمران خان برطانیہ اور امریکا کی منافقتوں کو بھی وقتاً فوقتاً عیاں کرتے رہتے ہیں جس سے امریکی و برطانوی حکومتیں عمران خان سے ناراض بھی ہُوئی ہیں۔اِنہی ممالک کے کئی لوگ مگر عمران خان کو چاہتے بھی ہیں ۔
ہمارے ہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکیوں اور برطانویوں کے دلوں میں عمران خان کی محبتوں کی جو نئی ’’ٹھل‘‘ اُٹھی ہے، اس کی وجہ (غالباً)یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان نے امریکا میں ایسی لابیوں کی خدمات حاصل کی ہیں جنھیں یہ فرائض سونپے گئے ہیں کہ وہ عمران خان کی سابقہ و حالیہ مغرب مخالف غلطیوں پر پردہ ڈالیں اور آگے بڑھ کر خان صاحب کی نئے سرے سے مثبت امیج بلڈنگ میں حصہ لیں ۔
اطلاعات ہیں کہ یہ امریکی لابیسٹ فرم رابرٹ لارینٹ گرینئر نامی ایک امریکی چلا رہا ہے ۔نون لیگی سینیٹر اور اتحادی حکومت میں وزیر مملکت برائے پٹرولیم، ڈاکٹر مصدق ملک، نے گزشتہ روز پی ٹی وی پر آکر مذکورہ امریکی لابیسٹ فرم اور اس کے مالک بارے کئی انکشافات بھی کیے ہیں۔ جواب میں عمران خان کے سابق وزیر اطلاعات، فواد چوہدری، نے ان مبینہ انکشافات کا استرداد کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔
تو کیا امریکا و برطانیہ میں اِس لابیسٹ فرم کی کوششوں کے نتیجے میں عمران خان کے حق میں مثبت آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں؟ ایک انگریزی معاصر نے خبر دی ہے کہ عمران خان نے اسلام آباد میں نکالی گئی اپنی ریلی میں خطاب کرتے ہُوئے جوشِ جذبات میں اسلام آباد پولیس کے دو سینئر ترین افسروں اور ایک خاتون مجسٹریٹ کے بارے میں مبینہ طور پر جو قابلِ گرفت زبان استعمال کی اور اِس کے نتیجے میں خان صاحب کے خلاف قانون نافذ کرنے والے ہمارے اداروں نے جو اقدام کیے ہیں، امریکا میں بھی اِس کی باز گشت سُنی گئی ہے۔
خبر کے مطابق: نیو یارک میںاقوامِ متحدہ کی نیوزبریفنگ کے دوران جب ایک رپورٹر نے یو این جنرل اسمبلی کے سیکریٹری جنرل، انٹونیو گوتریس، کے ترجمان ( اسٹیفن ڈوجیرک) سے پوچھا کہ پاکستان میں ایک متنازع تقریر کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف اُٹھائے گئے حکومتِ پاکستان کے اقدامات سے کیا سیکریٹری جنرل صاحب آگاہ ہیں تو ترجمان نے کہا: ’’ہاں پوری طرح آگاہ ہیں۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان، نیڈ پرائس، نے بھی عمران خان بارے پوچھے گئے سوال کے جواب میں یہ کہا ہے کہ عمران خان سے مناسب سلوک ہونا چاہیے۔ ’’واشنگٹن پوسٹ ‘‘ اور ’’نیویارک ٹائمز‘‘ ایسے معتبر امریکی اخبارات کا بھی کہنا ہے کہ عمران خان کے متنازع بیانات کے باوجود اُن سے کوئی غیر آئینی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ اب تو اعلیٰ سابق امریکی سفارتکار خان صاحب سے اُن کے گھر جا کر ملاقاتیں بھی کررہے ہیں ۔خان کے لیے یہ امریکی بدلاؤ معمولی نہیں ہے۔
تبصرہ لکھیے