ان کو بھیجا گیا اک عجب روپ میں جیسے بادل کی چھائوں کڑی دھوپ میں اس کے آنے سے پیدا ہوئے بحر و بر یہ زمیں پہ مکاں یہ سبھی بام و در یقیناً ہر مطہر لمحہ آپ بھی اترتا ہے کہ آپ کائنات کے مرکزو محور ہستی کے بارے میں سوچتے ہیں۔
وہ جو آیا تو ہر بات بننے لگی۔ روشنی رات سے خود ہی چھیننے لگی۔ ان کو معراج پر بھی بلایا گیا۔ آسماں کو زمین سے سجایا گیا۔ ان کو دیکھا تو خود مسکرایا خدا۔ کس بلندی پہ تھا عشق جلوہ نما۔ اور پھر ہر طرف بھی صدا مصطفیؐ مصطفیؐ۔ یہ تمہید اصل میں اس سرشاری اور بیداری کے باعث ہے جو ایک نشست میں حمید احمد خان نے ایک آیت کو شرح صدر کیا یا یوں کہیں کہ ہمیں اس کے مفہوم سے آشنا کیا۔ میں نے سوچا کہ از بس اس کا تذکرہ انتہائی ضروری ہے اور انشاء اللہ ہمارے قارئین بھی اس کو حرز جاں کریں گے۔ میں آیت کی بجائے ترجمہ پر اکتفا کروں گا۔ ’’آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا ہے (یعنی کامل کردیا ہے) اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لیے اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے۔‘‘ یوں سمجھئے کہ اس میں معانی کا اک جہان پنہاں ہے۔
اس کی تکمیل سے ایک بہت بڑے فتنے کو ضرب لگتی ہے۔ اللہ نے اسلام کو کامل و اکمل دین بنایا کہ قیامت تک یہی چلے گا کہ ضرورت ہی نہیں چھوڑی گئی۔ اس پہ علامہ اقبال نے کمال کی رائے دی جس کا تذکرہ بعد میں کروں گا۔ بات یہ کہ پہلی کتابوں اور انبیاء کی نفی نہیں مگر وہ شریعتیں دین اسلام کے بعد منسوخ ہو گئیں۔ ویسے بھی جو کتابیں پہلے اتاری گئیں ان کی زبان تک باقی نہیں۔ کتب میں بھی کیا کچھ شامل نہیں کرلیا گیا جبکہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ بھی خدا نے لیا اور اس کا شوشہ تک ہی نہیں بدلا۔ معجزہ یہ کہ لاکھوں کروڑوں سینوں میں یہ حرف بہ حرف اتر گیا۔ اس کے بعد اللہ کہتا ہے کہ اس نے اپنی نعمتیں بھی تمام کردیں۔ یہ اپنی جگہ وضاحت طلب بات ہے اور ہم کریں گے ایک چیز ضرور ذہن میں ہے کہ ’’اکملت لکم دینکم‘‘ کہہ کر یہ بتایا کہ یہاں کم کی ضمیر ہے کہ دین کو تمہارے لیے مکمل کیا جبکہ انممت علیکم نعمتی میں نعمت کو اپنے ساتھ منسوب کیا۔
یہ بات سمجھنے والی ہے۔ دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا گیا کہ اب اس میں اضافہ ممکن نہیں اس لیے کسی بھی نبی کے آنے کی گنجائش ہی نہیں۔ ختم نبوت کو ایک کمال انداز میں بیان کر دیا گیا۔ اب یہی دین قیامت تک چلے گا۔ اقبال نے اپنی معرکۃ الکتاب ’’تشکیل جدید الٰہیات‘‘ میں کمال کی تحریر لکھی ہے۔ اس نقطہ خیال سے دیکھا جائے تو حضور انورﷺ دنیائے قدیم اور دنیائے جدید کے درمیان بطور حد فاصل کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ دیکھا جائے آپ کی وحی کا سرچشمہ کیا ہے تو آپ دنیائے قدیم سے متعلق نظر آئیں گے۔ اگر اس حقیقت پر نظر کی جائے کہ آپ کی وحی کی روح کیا ہے تو جناب کی ذات دنیائے جدید سے متعلق نظر آئے گی۔ آپ کی بدولت زندگی نے علم کے ان سرچشموں کا سراغ پا لیا جن کی اسے اپنی شاہراہوں کے لیے ضرورت تھی۔ اسلام کا ظہور استقرائی علم کا ظہور ہے۔ اسلام میں نبوت اپنی تکمیل کو پہنچ گئی۔
اس تکمیل سے اس نے اپنی فاتحیت کی ضرورت کو دیکھ لیا۔ اس میں یہ لطیف نقطہ پنہاں ہے کہ زندگی کو ہمیشہ عہد طفولیت کی حالت میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسلام نے دینی پیشوائی اور وراثتی بادشاہت کا خاتمہ کیا۔ قرآن حکیم غور و فکر اور تجارت و مشاہدات پر بار بار زور دیتا ہے۔ تاریخ و فطرت دونوں کو علم انسانیت کے ذرائع ٹھہراتا ہے۔ سب اس مقصد کے گوشے ہیں جو ختم نبوت کی تہہ میں پوشیدہ ہے۔ پھر عقیدہ ختم نبوت کی ایک بڑی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس سے لوگوں کی باطنی واردات کے متعلق ایک آزادانہ اور ناقدانہ طرز عمل پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ اب نوع انسان کی تاریخ میں کوئی شخص اس امر کا مدعی نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی مافوق الفطرت اختیار کی بنا پر دوسروں کو اپنی اطاعت مجبور کرے۔
اتمام نعمت میں تو یہ وعدہ کیا گیا کہ اس کو پورا کیا جارہا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اب امت ہر جگہ ہر خوف اور ہر بیرونی مداخلت سے محفوظ ہو کر پوری طرح اسلامی تمدن‘ اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کرے گی۔ انہیں طاقت بھی نصیب ہوگی۔ وہ دنیوی منصب امامت کے تقاضے پورے کر سکے۔ کفر کا غلبہ ایمان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ تھا جسے قرآن فتنہ کہتا ہے ان سے فلاح پا کر دارالسلام میسر آ گیا جس میں نبوت کا لایا ہوا علم و عمل بلا کم و کاست نافذ ہوگیا۔ مولانا مودودی کے نزدیک یہ نعمت ہدایت کی تکمیل ہے۔ مسلمانوں کا غلبہ اور عروج بھی ہے۔ اس بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ سوچنا ہو گا کہ اس وقت کیا صورت حال ہے۔ کیا ہم اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں یا کم از کم پہچان رہے ہیں۔
یہ تو اب سب کچھ مسلمانوں پر ہے کہ اس آیت کی روح کو پہچانیں کہ ہم خوش قسمت کہ یہ امت بھی اس حوالے سے اہم ہے کہ اس پر اللہ نے اپنا دین مکمل کردیا۔ اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اب توضرورت اس کو نافذ کرنے کی ہے۔ میں صرف ایک سود ہی کی مثال دے دوں گاکہ ہمیں اس حوالے سے سخت تنبیہ کردی گئی کہ سود کھانے والا اللہ کے رسولؐ کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو جائے۔ پھر ہم کیا کرتے ہیں اب اس پر کس قانون سازی کی ضرورت ہے یہ تو قرآن نے طے کر دیا۔ اب کوئی اٹھ کر ماہرین سے یہ کہے کہ کوئی راستہ نکالے۔ لاحول ولا۔ یہی سوچ ہماری بربادی۔ اسلامی شریعہ کے فیصلے کے خلاف نوازشریف اپیل لے کر سپریم کورٹ پہنچ جاتے ہیں۔
ہمارے پاس مکمل دین ہمارا اثاثہ ہے۔ ہم اس کے وارث ہیں۔ ہم اس پر عمل پیرا ہوں گے اور ہم پر نعمتیں اتریں گی۔ ایک طرح کا وعدہ بھی تو ہے کہ غلبہ اور عزت اس کے ساتھ وابستہ ہے۔ کمال دین بھی ان کے پاس ہے کہ کسی اور شے کی ضرورت ہی نہیں اور یہ دین اللہ کی انتہائی نعمت ہے کہ ہمیں دین کا وارث بنایا: لَوح بھی تْو، قلم بھی تْو، تیرا وجود الکتاب گْنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
تبصرہ لکھیے