ہوم << ایک نان، ایک گردہ اور سوالی نگاہیں- زاہدہ حنا

ایک نان، ایک گردہ اور سوالی نگاہیں- زاہدہ حنا

سیلاب نوحؑ کیسا ہوگا؟ اس کا اندازہ ہم ان دنوں پاکستان کے طول و عرض کو دیکھ کر کرسکتے ہیں۔ غراتا ہوا پانی جو انسانوں ، ان کی بنائی ہوئی عمارتوں اور ان کے پالے ہوئے مویشیوں کو بہائے لیے جا رہا ہے.

کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچ چکا ، چار اور پانچ منزلہ عمارتیں اپنی بنیادوں سے اکھڑکر پانی کے اس ریلے میں اس طرح بہہ رہی ہیں جیسے وہ گتے کے ٹکڑے ہوں۔بوڑھے، جوان اور بچے زندہ ، یتیم مردہ اور لہروں پر ڈول رہے ہیں۔ ایک حشر کا سماں ہے جو برپا ہے۔ لوگوں کے اس انبوہ میں ان کا سامان ہے، ان کی جمع پونجی ہے وہ بھی بہہ رہی ہے، غرق ہو رہی ہے۔ ان لوگوں کے معدوں میں بھوک رہتی ہے، جیسے ہمارے معدوں میں رہتی ہے۔ ان کے پھیلے ہوئے ہاتھ ہیں جو ایک روٹی کے لیے لپک رہے ہیں۔

یہ محنت کش ہاتھ ہمیشہ اپنا رزق خود پیدا کرتے رہے ہیں ، جن کا اُگایا ہوا غلہ ہم کھاتے رہے ہیں اور آج پانی سب کچھ بہا لے گیا ہے۔ ان کے ہاتھ ایک نان کے لیے پھیلے ہوئے ہیں اور ہم میں سے اکثر اپنے گھروں میں دو چار مہینے کا راشن خرید کر رکھ رہے ہیں۔ اس لیے کہ ساری دنیا سے یہ خبر آ رہی ہے کہ ایک طرف دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب کا سامنا ہے، دوسری طرف دھرتی کا سینہ تڑک رہا ہے، پانی کی بوند کے لیے پرندے ترس رہے ہیں، ایسے میں فصلیں کہاں سے اُگیں گی اور سبزی یا غلہ کہاں سے ہاتھ آئے گا۔

خوشحال لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی تجوریاں کھولیں اور اپنی اشرفیوں کی تھیلیوں کا منہ کھولیں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کریں، دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو مختلف بیماریوں کا شکار ہیں اور صاحب حیثیت لوگوں کی طرف آس بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید کوئی ان کی حاجت روائی کرے اور وہ اپنے بدن میں اترے ہوئے مرض کے چنگل سے نجات پائیں۔ ایسے بہت سے خط ملتے ہیں لیکن پشاور سے ملنے والے شبنم رانی کے خط نے دل کا عجب عالم کیا۔ انھوں نے کئی خطوط لکھے جو مجھے نہیں ملے۔ تب میں نے ان سے گھر کے پتے پر خط منگوایا، وہ لکھتی ہیں:

’’محترمہ زاہدہ حنا صاحبہ آداب! اللہ آپ کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے( آمین)۔ میرا نام شبنم رانی ہے۔ گھریلو خاتون ہوں۔ زندگی میں پہلی بار آپ کو خط لکھ رہی ہوں۔ میرا شوہر گردوں کے مرض میں مبتلا ہے۔ اس کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں۔ میرا بلڈ گروپ A+Positve جب کہ میرے شوہر کا بھی A+Positive ہے۔ میں اپنے شوہر کو ایک گردہ دینا چاہتی ہوں، جس کے اخراجات 18 سے 20لاکھ روپے ہیں۔ اب تک میرا شوہر صحت کارڈ پر ہفتے میں دو یا تین بار ڈائیلائسز کروا رہا ہے۔

ہمارے پاس جتنی جمع پونجی تھی وہ سب ٹیسٹوں پر خرچ ہوگئی۔ راولپنڈی سی ایم ایچ اسپتال میں ڈی این اے ٹیسٹ پر 65 ہزار روپے لوگوں سے قرض لے کر کروایا۔ دونوں کا (CT Scan) 42 ہزار 400 روپے میں ہوا، صحت کارڈ میں کوئی ٹیسٹ شامل نہیں ہے۔ اس کے بعد دوسرا ٹیسٹ LAC جو 15 ہزار روپے دے کر کروایا، اس کے کراس میچ کے روپے جمع کرنے ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ میں نے موجودہ وزیر اعظم اور سابقہ وزیر اعظم کو درجنوں اپیلیں بھجوائیں لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ حکمرانوں نے ہمیں جھوٹی تسلیاں بھی نہیں دیں۔ کافی پریشان ہوں کہ یا اللہ کس طرح شوہر کا علاج کرواؤں؟

جن لوگوں کے پاس سفارش ہوتی ہے ان کا آپریشن پہلے ہو جاتا ہے، بہت مجبور ہو کر آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں۔ امید ہے کہ آپ ایک دن سیاسی کالم چھوڑ کر میرا یہ خط شایع کریں گی۔ میری کوئی سفارش اللہ تعالیٰ کے سوا نہیں۔ لوگوں سے سنا ہے کہ آپ کالم نگار لوگ بڑے سنگ دل ہوتے ہیں۔ ایسے خطوط آپ اکثر ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیتے ہیں۔ آپ کی چند سطروں کے لکھنے سے میرے شوہر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے جوکہ سخت مشکل میں ہے۔

ہر وقت گھر میں رونا دھونا ہوتا رہتا ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے اپنی بہن سمجھ کر مایوس نہیں کریں گی۔ میں حکومت اور خیراتی اداروں سے کوئی اپیل نہیں کرتی۔ کیونکہ ان کو اتنی درخواستیں بھجوائیں کہ مجھے جواب نہ ملنے پر مایوسی ہوئی۔ MNA’s اور MPA’s کے پاس پانچ پانچ مرلے کی رقم کی گاڑیاں ہوتی ہیں، ان کو کیا پتا کہ مجبوری کیا ہوتی ہے؟ ہم وہ لوگ ہیں جو شدید گرمی میں یوٹیلیٹی اسٹور میں گھر اور آٹے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں، ہم بجلی اور گیس کے بل کس طرح ادا کرتے ہیں یہ صرف اللہ کو پتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گی۔ جو لوگ مدد کرسکتے ہیں، مدد کریں، جو مدد نہیں کرسکتے وہ میرے شوہر کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔ آپ بھی بیٹیوں والی ہوں گی۔ آپ کو اپنی بیٹیوں کے سر کی قسم میرا یہ خط شایع کردیں۔ میں صرف دعائیں دے سکتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے جیسے غریب لوگوں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین! آپ کی بہن شبنم رانی۔ ڈاک خانہ گلبہار، مکان نمبر2، اسٹریٹ نمبر3، جی ٹی روڈ، پشاور۔ رابطہ:0303-5593636۔‘‘

شبنم کا یہ خط اور اس کے ساتھ منسلک رپورٹوں کے پلندے دل کو بے تاب کردیتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ دل کی بے تابی کسی تجوری کی چابی نہیں بنتی۔ اللہ ان سطروں کو پڑھنے والے کسی صاحب دل کو یہ توفیق دے کہ وہ ان کے شوہر کا علاج کرا سکیں اور ان کی بے لوث محبت کا صلہ انھیں دے سکیں۔

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment