سوشل میڈیا کے تبصروں اور بعض مضامین میں بار بار اس بات کا تذکرہ کیا جارہا ہے کہ قندیل بلوچ کو اس لیے مارا گیا کیونکہ اس نے پاکستانی معاشرے کی منافقت کو آشکارا کیا. اس قسم کی باتیں مکرر پڑھنے کو ملیں۔ سیکولرزم کو پروموٹ کرنے والی ایک ویب سائٹ کی طرف سے خاص طور پر اس بات کو ہائی لائٹ کیا جارہا ہے۔ اس دعوے کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ پاکستانی ایک طرف تو قندیل بلوچ کی مخالفت کرتے اور دوسری طرف خود اس کی ویڈیو دیکھتے ہیں اور اس کی ویڈیوز کو لائک کرتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ پاکستان گوگل میں فحش الفاظ ڈھونڈنے میں دنیا میں اول نمبر پر ہیں۔ اور اس سب کے باوجود قندیل بلوچ کے قتل کی حمایت بھی کرتے ہیں۔
اب یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سیکولر ایجنڈے کو پروموٹ کرنے والے احباب کو کیسے سمجھایا جائے کہ فحش الفاظ کی تلاش کے بارے میں جو رپورٹ آئی تھی حقیقتاً ایسی کوئی رپورٹ تھی ہی نہیں۔ گوگل کی طرف سے اس قسم کی کوئی سالانہ رپورٹ نہیں نکلتی۔ اس قسم کے پروپیگنڈا مضامین سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ سیکولر دوست اپنے جواز کے لیے پاکستان کے بارے میں ایک گھٹیا قسم کا تاثر پیدا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ پاکستان کے شہری قندیل بلوچ کی ویڈیوز دیکھ کر اس کو لائک کرتے ہیں اور اس کے فیس بک پیج پر سات لاکھ لائکس ہیں تو اس سے یہ کیسے پتہ چلا کہ جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں انہوں نے ہی اس کے پیج کو لائک کیا ہے یا وہی اس کی ویڈیوز کو دیکھتے ہیں؟ پاکستان کی آبادی تقریبا بیس کروڑ ہے اور سب کے سب یکساں مزاج اور ذہنیت کے نہیں ہیں۔ کیا پتہ کہ اس کے پیچ کو لائک کرنے والے سات لاکھ وہی ہوں جو سیکولرزم کو پروموٹ کر رہے ہوں۔ اب اگر کسی ملک میں اس قسم کی تکثیریت پائی جائے جس میں سات لاکھ لوگوں نے اس کے پیچ کو لائک کیا ہو اور باقی لوگ اس کی حرکت کو ناپسند کرتے ہوں تو اس میں منافقت کہاں سے آگئی؟ یہ تو سیکولرزم کے عین مطابق Diversity ہوئی۔ کسی مغربی ملک میں اس قسم کے پائے جانے والے تنوع کی تحسین کی جاتی۔ اب یہی چیز پاکستان میں ہو تو وہ منافقت ہوگئی؟
چلیے ایک لمحے کو یہ مان لیتے ہیں کہ ہمارے کچھ نوجوان یا بوڑھے ایسے بھی ہیں جو قندیل بلوچ کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور چھپ چھپ کر اس کی ویڈیوز دیکھ کر مزا بھی لیتے ہیں۔ ویسے تو میں یہ بات بتادوں کہ مجھے سرے سے قندیل بلوچ کی ایسی کسی ویڈیو کا پتہ نہیں ہے جسے دیکھ کر مزا لیا جائے۔ یہ تو مجھے کچھ سیکولر دوستوں کے مضامین پڑھ کر ہی پتہ چلا۔ چلیے بالفرض اگر مان لیا جائے کہ ایسی کوئی ویڈیوز ہیں اور ہماری عوام اس کو دیکھتی بھی ہے اور پھر اس کی مخالفت بھی کرتی ہے تو کیا یہ واقعی منافقت ہے؟ اس قسم کی ویڈیوز کا دیکھنا ہوسکتا ہے کہ از راہِ تجسس ہو، یا شہوانی جذبے کے تحت ہو، جوکہ اخلاقی اعتبار سے بہرحال غلط ہے۔ گناہ کر لینا نفس کی کمزوری ضرور ہے، لیکن اس کو منافقت آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کیا ’گناہگار‘ اور ’منافق‘ دو مترادف لفظ ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ نہ لغت اس بات کی مؤید ہے اور نہ شرع۔
ایک عام فرد اخلاقی برائیوں کا شکار ہوسکتا ہے اور اس کے باوجود یہ پوری طرح ممکن ہے کہ وہ اس اخلاقی برائی کی مخالفت کرے۔ بلکہ اجتماعی طور پر اس کی مخالفت کرنے کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ ایک فرد یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ انفرادی اعتبار سے اتنا مضبوط نہیں ہے کہ وہ صرف اپنی اندرونی قوت سے اپنے نفس پر قابو پاسکے اس کے لیے ضروری ہے کہ اجتماعی طور پر، یعنی ماحول کے اندر ہی، نفسانی خواہشات کے داعیے موجود نہ ہوں۔ آپ خواص سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ شر اور برائی کے بکثرت داعیات کے باجود اپنے نفس پر قابو رکھے، لیکن عوام سے اس قسم کی عزیمت کا منتظر رہنا فضول ہے۔ عوام کی اخلاقی سطح اصحابِ عزیمت کی طرح سے نہیں ہوتی۔ یہ عوامی کمزوری ہوئی نہ کہ منافقت۔ بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ایسی ویڈیوز دیکھنے کے باوجود عوام کا اس کی مخالفت کرنا ایک بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ وہ اخلاقی اعتبار سے اسے غلط سمجھتے ہیں اور ان کی شدید خواہش ہے کہ انھیں ان داعیوں سے بچایا اور تحفظ دلایا جائے۔
اسی منافقت والے الزام میں یہ بھی تاثر دیا جاتا ہے کہ فحش مواد میں پہلے نمبر کی رینکنگ کے باجود اور قندیل بلوچ کی ویڈیوز کو پسند کرنے کے باوجود پاکستانی مسلمان اس کے قتل کی حمایت کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی معروف مذہبی شخص کی طرف سے قتل کی حمایت میں ایک لفظ نہیں بولا گیا بلکہ سوشل میڈیا میں بھی عوام کی طرف سے اس قتل کی حمایت نہیں کی گئی۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں میں مشکل سے ایک دو اکاؤنٹ کی طرف سے حمایت کی گئی ہو تو اور بات ہے۔ بہرحال میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ پاکستانی قوم کی منافقت کا فیصلہ کروں۔ لیکن قندیل بلوچ کے قتل کے معاملے میں یہ کہ کہنا کہ وہ مرتے مرتے پاکستانی قوم کی منافقت کو آشکارا کر گئی دروغ گوئی اور انتہائی لغو بات ہے۔
دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جھوٹے الزامات کے بل پر یا کبھی عوامی رویے کی کمزوری کو لے کر کسی طرح سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان کے بارے میں انتہائی گھٹیا اور گرا ہوا ہونے کا تاثر پیدا کیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیکولرزم کو پروموٹ کرنے کے لیے یہ ضروری محسوس کیا جارہا ہے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک میں ان کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ لیکن ہر جگہ پر اپنے ملک کے بارے میں مثبت تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بکثرت ایسے دانشور پائے جاتے ہیں جو پاکستان کے بارے میں جو جھوٹ یا سچ ہر گندی چیز کو اچھالنے میں خاص دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے سیکولرزم کو پروموٹ کرنے کے لیے پاکستانی معاشرے کو غیر مستحکم کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کرتے ہیں، ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
تبصرہ لکھیے